Urwatul-Wusqaa - Al-Haaqqa : 46
ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ٘ۖ
ثُمَّ : پھر لَقَطَعْنَا : البتہ کاٹ دیتے ہم مِنْهُ : اس سے الْوَتِيْنَ : رگ گردن
پھر ہم اس کی رگ جان کاٹ ڈالتے
پھر ہم اس کی رگ جان ہی کاٹ ڈالتے 46 ؎ (الوتین) اسم منصوب۔ زندگی کی رگ۔ دل کی ڈوری۔ کہا گیا ہے کہ یہ دل سے کنکشن (Connection) رکھنے والی ایک رگ ہے اگر اکھڑ جائے تو آدمی مر جائے۔ (محلی) اور بعض نے کہا کہ پشت میں ایک رگ ہے بہرحال لغت میں وتین کا ترجمہ دل کی رگ کیا گیا ہے۔ وتن اور اوئتۃ اس کی جمع بتائی گئی ہے۔ داہنے ہاتھ سے پکڑ کر ایک جھٹکا دیتے کہ دوسری طرف سے اس کی رگ جان ہی کاٹ ڈالتے تاکہ اس طرح کی حرکت آئندہ کبھی نہ کرسکتا۔ دراصل کفار کے اس الزام کا جواب دینے کے بعد کہ یہ قرآن محمد (رسول اللہ ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے اب دوبارہ ان کو جواب کی وضاحت سنائی جا رہی ہے کہ اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو ہم کبھی اپنے رسول کا لحاظ نہ کرتے بلکہ اس کو داہنے ہاتھ سے یعنی طاقتور ہاتھ سے پکڑ کر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے اور وہ ہرگز ہرگز اپنے رب کے کام میں کسی طرح کی کوئی ملاوٹ نہ کرسکتا اور اگر بفرض محال ایسا کرتا بھی تو ہم اس کو مہلت ہی آخر کیوں دیتے ، اسی وقت اس کا کام تمام کیوں نہ کردیتے ؟ اتنی ڈھیل تو اتنا بڑا گناہ ہے اور اتنا سنگین جرم ہے کہ اس کو گوارا کرلیا جائے تو سلسلہ نبوت و رسالت کا مقصد ہی ختم ہو کر رہ جائے اور کسی کو نبی و رسول کی بات پر کوئی وثوق ہی نہ رہے۔ اس لئے اس کی طرف سے اگر کوئی ایسی حرکت ہوتی تو ہم بغیر کسی توقف کے انتقام کی تلوار بےنیام کرتے اور آن واحد میں اس کا سر قلم کردیتے اور اس کو معلوم ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کے نبی و رسول بنا دیئے جانے کے بعد اگر کوئی اس طرح کی بداعتدالی کرے تو اس کے لئے ایسی سزا مقرر کی گئی ہے اور صرف وہی نہیں بلکہ پوری دنیا اس بات کو سمجھ جاتی۔ خیال رہے کہ یہ بات جو اوپر فرمائی جا رہی ہے سچے اور جھوٹے نبی و رسول کے پرکھنے کے معیار کے طور پر بیان نہیں کی گئی بلکہ یہ بات محض نبی اعظم و آخر ﷺ کی نبوت و رسالت کی سچائی کے طور پر بیان کی جا رہی ہے کہ جو کچھ ہم اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کرتے ہیں وہ وہی کچھ قرآن کریم کی صورت میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے اور اس میں ایک لفظ بلکہ ایک حرف کی بھی کمی و بیشی نہیں کرتا اگر وہ ایسا کرتا تو ہم اس کو اس طرح کی سزا دیتے جس طرح کی سزا دینے کا ذکر اوپر کردیا گیا ہے۔ لیکن ہم کو تعجب ہے کہ بعض لوگوں نے فی نفسہٖ نبوت و رسالت کے لئے سچا اور جھوٹا ہونے کا معیار تسلیم کرلیا اور اس طرح ایک جھوٹے مدعی نبوت کی نبوت کو پرکھنے کا معیار قرار دے دیا حالانکہ زیر نظر آیات کریمات میں اس طرح کا کوئی اشارہ تک نہیں پایا گیا۔ بلکہ انہوں نے جس طرح مسلمانوں کو دھوکا دے کر عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے ساتھ مرزا جی کی نبوت کو منسلک کردیا اور اس کو معیار قرار دے دیا کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) وفات پا گئے تو مرزا جی کی نبوت ثابت ہوجاتی ہے لہٰذا مرزا جی کے سارے پروگرام کو انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کی وفات کی آڑ میں تحفظ دے دیا اب کوئی مرزا جی کے بارے میں کسی طرح کی کوئی بحث کرے گا تو کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے نہایت چالاکی کے ساتھ اس کو صرف اور صرف عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے ساتھ وابستہ کردیا ہے اور ہمارے عوام و خواص نے ان کی اس چالاکی کو سمجھنے کی بہت کم کوشش کی اور مرزائیوں سے جب بھی اور جہاں بھی کوئی مناظرہ اور گفتگو کا موقع آیا تو ساری گفتگو اور ساری بحث نہایت چالاکی کے ساتھ اس نظریہ میں پھنسائے رکھی اور بہت ہی کم ایسا ہوا کہ مرزائی شخصیت کو اور ان کے پھندوں کو کسی نے کبھی سمجھنے یا ان پر بات کرنے کا موقع دیا ہو۔ حالانکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کا مسئلہ اگرچہ مختلف فیہ رہا لیکن کسی نے بھی کسی نبی و رسول کے آنے کو عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے ساتھ نہیں جوڑا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جتنے مدعیان نبوت محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد آئے ان میں سے کسی ایک کی نبوت کو بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے مسئلہ کے ساتھ قطعاً نہیں جوڑا گیا۔ پھر اس تعجب پر مزید تعجب یہ ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی اصل نبوت جب وہ نبی بنا کر اس دنیا میں بھیجے گئے تھے صرف ایک خاص گروہ اور خاندان کے لئے بھیجے گئے تھے جس کا اعتراف خود عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی کیا اور قرآن کریم نے بھی اس کی وضاحت فرمائی لیکن کسی نے اس سوال کو نہ اٹھایا کہ اگر وہ فی الحقیقت مسیح موعود ہیں تو پھر یہ مسلمانوں کے پاس کیا لینے کے لئے آئے ہیں اور ان کو خواہ مخواہ مخاطب کیوں کرتے ہیں جب کہ ان کو مخاطب کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں ہے۔ وہ بنی اسرائیل کو مخاطب کریں اور بنی اسرائیل کے دونوں گروہوں میں سے جس کے ساتھ بھی وہ چاہیں اپنا تعلق قائم کریں۔ اہل اسلام کے ساتھ اس مسئلہ کا کوئی تعلق نہیں۔ عیسائیوں کے ہاں اگر ان کی دوبارہ آمد کا کوئی نظریہ موجود ہے تو وہ نظریہ اسلام کا کب ہے ؟ اور اگر اسلام نے ان کے اس نظریہ کے باعث یہ بات کہی ہے کہ اگر ان کو آنا ہے تو ان کی آمد کا مقصد تو صلیب کو توڑنا ، خنزیر کو حرام کرنا اور کفارہ کا ادا کرنا ہے اور پھر ان ساری چیزوں کا تعلق بھی عیسائیت سے ہے نہ کہ اہل اسلام سے۔ اگر ان کو اتنی خبر بھی نہیں ہے کہ ان کو جانا کدھر تھا اور وہ آ کدھر گئے تو اس سے سارا راز کھل جاتا ہے کہ اس دعویدار کی اصلیت اور حقیقت کیا ہیڈ اس طرح زیر نظر آیات میں جو بات نبی اعظم و آخر ﷺ کی ذات اقدس کے لئے مخصوص طور پر بیان کی گئی ہے اس کو نبوت اور رسالت کا معیار قرار دے کر ثابت کرنے کی کوشش شروع کردی کہ اگر مرزا صاحب سچے دعویدار نہ ہوتے تو اللہ ان کی گردن مار دیتا اور اس طرح پھولے نہیں سماتے کہ دیکھو ہم نے مرزا جی کی نبوت کی سچائی کو قرآن کریم سے ثابت کردیا حالانکہ نہ قرآن کریم میں کوئی ایسا اصول یا معیار مقرر کیا گیا ہے اور نہ آیات کریمات کا یہ مفہوم ہے ، نہ اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ ہمارے مفسرین نے مرزا جی کے چیلوں کیلئے جو جو اب گھڑا سچی بات یہ ہے کہ اس کا حال بھی ویسا ہی ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات والے مسئلہ کا ہے کہ جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ اس کو اتنا زور و شور سے بیان کیا بلکہ اس کو حق و صداقت کا معیار قرار دینا کیسے دیانت و امانت کہلا سکتا ہے ؟ لہٰذا ہمارے مفسرین نے ان کو یہ جواب دیا ہے کہ یہ سچے کو پرکھنے کا معیار ہے نہ کہ جھوٹے کو پرکھنے کا۔ جب مرزا جی کا دعویٰ ہی سچائی پر مبنی نہیں ہے تو اس کو ان کی سچائی کا معیار کیسے قرار دیا جاسکتا ہے حالانکہ اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی اس لئے کہ زیر نظر ” بات “ کا اس بحث سے کوئی تعلق قائم ہی نہیں ہوتا کیونکہ اگر معیار ہوتا تو جب سے نبوت کا پروگرام بنایا گیا اور اس کو اس دنیا میں چلایا گیا تھا اسی وقت ہی سے اس معیار کے ساتھ اعلان کرنا چاہئے تھا جب کہ ایسی کوئی بات بیان نہیں کی گئی اب جب کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت پر لا کر نبوت و رسالت ہی کو ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے اب اس طرح کے معیار کا فائدہ ؟ غور کرو کہ جس سچائی کو ثابت کرنے کے لئے ان آیات کریمات کو معیار قرار دیا جا رہا ہے وہ کس وقت قرار دیا جا رہا ہے اس وقت جب کہ اس سچائی کے ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ کیا نبوت و رسالت کے ختم کردیئے جانے کا اعلان نبی اعظم و آخر ﷺ سے نہیں کرایا گیا اور اگر کرایا گیا تو پھر ان آیات کو سچائی کے پرکھنے کا معیار کیونکر قرار دیا گیا ؟
Top