Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 10
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَئِنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ١ۚ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : بنایا اسے اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر بُشْرٰي : خوشخبری وَلِتَطْمَئِنَّ : تاکہ مطمئن ہوں بِهٖ : اس سے قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بات جو کی تو اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ خوشخبری ہو اور تمہارے دل قرار پائیں حالانکہ مدد تو اللہ کی طرف سے ہے بلاشبہ وہ غالب آنے والا حکمت رکھنے والا ہے
فرشتوں کی اتنی بڑی تعداد کا ذکر مسلمانوں کے دلوں کی ڈھارس بنا : 17: ہلاکت کے لئے ایک فرشتہ ہی ساری جماعت پر بھای تھا لیکن یہ عذاب الٰہی نازل کرنے کے لئے فرشتوں کی تعداد کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کرنے اور ان کی ہمت باندھنے کے لئے اس تعداد کا ذکر فرمایا یہ گویا مسلمانوں کے لئے خوشخبری ہے اور ان کے دلوں کو مطمئن کرنا مقصود ہے اور یہی بات زیر نظر آیت میں خود اللہ نے ارشاد فرمائی کہ ” اللہ نے یہ بات جو کی تو اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ یہ خوشخبری ہو اور تمہارے مضطربدل قرار پا جائیں ورنہ مدد تو ہر حال میں اللہ ہی کے پاس ہے بلاشبہ وہ سب پر غالب آنے والا اور حکمت رکھنے والا ہے۔ “ یہ بات واضح ہوگئی کہ فرشتوں والی بات صرف اس لئے تھی کہ کمزور مسلمانوں کے دل قرار جائیں یہ بات نہ تھی کہ وہ لڑائی لڑنے کے لئے بھیجے گئے ہوں چناچہ سارے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ فرشتوں کا نزول مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط رکھنے کے لئے ہوا تھا لڑائی میں ان کی شرکت ثابت نہیں نہ اس کی کوئی ضرورت پیش آئی تھی۔ اس جگہ ا کی ہزار فرشتوں کو تعداد بتائی گئی اور سورة آل عمران کی آیت 124 میں تین ہزار اور آیت 125 میں پانچ ہزار تعداد کا ذکر ہے اور یہ تینوں مختلف وعدے تھے جو پورے ہوئے اس لئے کہ پہلا وعدہ ایک ہزار کا تھا ، دوسرا تین ہزار کا اور تیسرا پانچ ہزار کا۔ اس جگہ پہلے وعدہ کا ذکر ہے اور سورة آل عمران میں دوسرا اور تیسرے وعدے کا بیان ہے۔ تفصیل اس کی دیکھنا ہو تو عروۃ الوثقیٰ جلد دوم تفسیر سورة آل عمران کی آیت 124 ، 125 کو دیکھیں۔
Top