Tafseer-e-Usmani - Al-Ahzaab : 17
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور مانگتا ہے آدمی برائی جیسے مانگتا ہے بھلائی اور ہے انسان جلد باز5
5 یعنی قرآن تو لوگوں کو سب سے بڑی بھلائی کی طرف بلاتا، اجر کبیر کی بشارتیں سناتا اور بدی کے مہلک نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ لیکن حضرت انسان کا حال یہ ہے کہ وہ سب کچھ سننے کے بعد بھی اپنے لیے برائی کو اسی اشتیاق و الحاح سے طلب کرتا ہے جس طرح کوئی بھلائی مانگتا ہو، یا جیسے بھلائی طلب کرنا چاہیے۔ وہ انجام کی طرف سے آنکھیں بند کر کے بڑی تیزی کے ساتھ گناہوں اور برائیوں کی طرف لپکتا ہے بلکہ بعض بدبخت تو صاف لفظوں میں زبان سے کہہ اٹھتے ہیں۔ (اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) 8 ۔ الانفال :32) (خداوندا ! اگر پیغمبر اپنے دعوے میں سچے ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دیجئے یا اور کوئی سخت عذاب نازل کیجئے) بعض بیوقوف غصہ سے جھنجھلا کر اپنے حق میں یا اپنی اولاد وغیرہ کے حق میں بےسوچے سمجھے بددعا کر بیٹھتے ہیں۔ بعض دنیا کے نفع عاجل کو معبود بنا کر ہر ایک حلال و حرام طریقہ سے اس کی طرف دوڑتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس لہلہاتے پودے کے نیچے سانپ بچھو بھی چھپے ہوئے ہیں۔ جو انجام کار ہلاکت کے گڑھے میں پہنچا کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنی جلد بازی سے کسی چیز کی ظاہری ٹیپ ٹاپ کو دیکھ لیتا ہے، بدی کے دور رس نتائج پر غور نہیں کرتا۔ بس جو بات کسی وقت سانح ہوئی فوراً کہہ ڈالی یا ایک دم کر گزرا۔ جدھر قدم اٹھ گیا بےسوچے سمجھے ادھر ہی بڑھتا چلا گیا۔ اگر جلد بازی چھوڑ کر متانت، تدبر اور انجام بینی سے کام لے تو کبھی ایسی غلطیاں نہ کرے۔
Top