Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Israa : 16
وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا
وَاِذَآ : اور جب اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اَنْ نُّهْلِكَ : کہ ہم ہلاک کریں قَرْيَةً : کوئی بستی اَمَرْنَا : ہم نے حکم بھیجا مُتْرَفِيْهَا : اس کے خوشحال لوگ فَفَسَقُوْا : تو انہوں نے نافرمانی کی فِيْهَا : اس میں فَحَقَّ : پھر پوری ہوگئی عَلَيْهَا : ان پر الْقَوْلُ : بات فَدَمَّرْنٰهَا : پھر ہم نے انہیں ہلاک کیا تَدْمِيْرًا : پوری طرح ہلاک
اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم (فیصلہ) بھیجتے ہیں پھر وہ اس میں نافرمانی کرتے ہیں۔ تب ان پر عذاب کا فیصلہ آجاتا ہے۔ پھر ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں
لغات القرآن آیت نمبر 16 تا 17 نھلک ہم ہلاک کرتے ہیں۔ قریۃ بستی، شہر (ملک) ۔ مترفین خوشحال، عیش پسند، دمرنا ہم نے برباد کردیا۔ ہم نے اکھاڑ دیا۔ القرون (قرن) جماعتیں، قومیں۔ ذنوب (ذنب) گناہ، خطائیں۔ تشریح : آیت نمبر 16 تا 17 اللہ تعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے کہ وہ کسی قوم کو اس وقت تک ہلاک یا برباد نہیں کرتا جب تک وہاں کے رہنے والوں کی ہدایت کے لئے کسی رسول یا اصلاح کرنے والے کو نہیں بھیج دیتا۔ جو ان لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتا ہے۔ جو لوگ اللہ کی طرف سے دی ہوئی مہلت اور ڈھیل کی پروا نہیں کرتے اور فسق فجور، دنیا طلبی، عیش پرستی اور آخرت سے غفلت کو اپنا شعار بنا کر قانون قدرت کو توڑتے چلے جاتے ہیں اور وہ مال و دولت میں مست ہو کر کفر و شرک کی انتہا کردیتے ہیں، انبیاء کی مخالفت اور جھٹلانے میں آگے آگے ہوتے ہیں ایسے عیش پسند لوگوں کو توبہ کرنے کی بھی توفیق نصیب نہیں ہوتی وہ اللہ کے شدید عذاب کی گرفت میں آجاتے ہیں اور اللہ ان کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ پیھنکتا ہے۔ ایسے لوگ چونکہ دنیاوی اعتبار سے معاشرہ کے معزز لوگ سمجھے جاتے ہیں اس لئے غریب و نادار طبقہ ان کی نقل کر کے بگاڑ کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔ تب اللہ کا قانون متوجہ ہوتا ہے اور اس قوم کا فیصلہ کر دیاجاتا ہے۔ اس موقع پر اللہ نے مثال کے طور پر حضرت نوح اور ان کے بعد آنے والی نسلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضرت نوح نے سینکڑوں سال تک اپنی قوم کے لوگوں کو برے انجام سے ڈرایا اور خاص طور پر ان عیش پسندوں کو ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی جو اپنی شرارتوں میں انتہا کو ہپنچ چکے تھے لیکن وہ اپنی حرکتوں اور شرارتوں سے باز نہیں آئے۔ آخر کار پوری قوم کو سزا دی گئی ان کی تہذیب، مال و دولت اور اونچی اونچی بلڈنگوں کو پانی کے طوفان میں ڈبو دیا گیا کہ ان کی زندگیاں دوسروں کے لئے مقام عبرت و نصیحت بن گئیں۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری کی تھی اللہ نے ان کو اس طوفان بلا خیز سے نجات عطا فرما دی۔ چونکہ ان آیات کے سب سے پہلے مخاطب کفار مکہ تھے ان کو نصیحت کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اب نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ تو ختم ہوگیا۔ اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ تشریف لا چکے ہیں اب آپ کے بعد کوئی اور نبی اور رسلو نہ آئے گا اس لئے ہدایت حاصل کرنے کا آخری موقع ضائع نہ کیا جائے اور دامن مصطفیٰ ﷺ سے وابستگی اختیار کر کے اپنی نجات کا سامان کرلیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و محبت کا حق ادا کیا ان کو نہ صرف نجات عطا کی گئی بلکہ ان کو ساری دنیا پر غالب کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی کرم ہے کہ اس نے اس دنیا کو نازل کر کے اس کی حفاظت کا ذمہ خود اپنے اوپر ہی رکھا ہے وہ اس دین (قرآن حکیم) کی حفاظت جس طرح اور جس قوم سے چاہے لے لیتا ہے۔ لہٰذا یہی دین و شریعت قیامت تک رہیں گے۔ جب کسی نئے قانون اور شریعت کی ضرورت نہیں ہے تو کسی نئے نبی یا رسول کی بھی ضرورت باقی نہیں ہی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی اور نبی آیا ہے تو وہ گویا اللہ پر یہ الزام لگاتا ہے کہ قرآن کریم اور اس کی تعلیمات محفوظ نہیں ہیں۔ اس لئے حضور اکرم ﷺ نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا ” لانبی بعدی “ یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ الئے نبی کریم ﷺ پر صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ آپ کی ” ختم نبوت “ پر ایمان اور اس کا اقرار بھی لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص اس بات کا قائل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی کوئی کسی قسم کا نبی آیا ہے یا آسکتا ہے تو وہ کائنات کا سب سے جھوٹا انسان ہے اور جس کا بھی یہ عقیدہ ہوگا۔ وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں گزشتہ قوموں کی نافرمانیوں اور گناہوں کے ہر انداز سے محفوظ فرمائے اور نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل ایمان رکھنے کی توفیق سے محروم نہ فرمائے۔ آمین
Top