Mafhoom-ul-Quran - An-Nahl : 61
كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
كِتٰبٌ : کتاب اُنْزِلَ : نازل کی گئی اِلَيْكَ : تمہاری طرف فَلَا يَكُنْ : سو نہ ہو فِيْ صَدْرِكَ : تمہارے سینہ میں حَرَجٌ : کوئی تنگی مِّنْهُ : اس سے لِتُنْذِرَ : تاکہ تم ڈراؤ بِهٖ : اس سے وَذِكْرٰي : اور نصیحت لِلْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والوں کے لیے
یہ کتاب ہے جو تم پر نازل کی گئی ہے اس لیے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو خبردار کرو اور اس لیے کہ ایمان رکھنے والوں کے لیے بیداری و نصیحت ہو ، پس دیکھو ایسا نہ ہو کہ اس بارے میں کسی طرح کی دل تنگی تمہارے اندر راہ پائے
قریش کی مخالفت کے دور شباب میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی اور دعوت کو جاری رکھنے کی ہدایت : 2: یہ سورت بعثت نبوی ﷺ کے نو ، دس سال کے بعد نازل ہوئی۔ اس وقت کفار کی اسلام دشمنی زوروں پر تھی۔ آیات الٰہی کی تکذیب ، احکام شرعی کا مذاق ، مسلمانوں پر جو رو ظلم اور نبی اعظم وآخر ﷺ پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے تھے۔ انہیں راہ راست پر لانے کی ساری کوششیں بظاہر بےاثر معلوم ہو رہی تھیں۔ ان کی اس زور دار مخالفت کا مقابلہ ایک زور دار اعلان سے کرنے کا حکم ہوتا ہے اور وہ اعلان یہ ہے کہ جس مذہب کے تم پیشوا ہو وہ سرا سر گمراہی ہے۔ جس نظام تمدن کے تم سردار ہو وہ اپنی جڑ تک گلا اور سڑا ہوا نظام ہے۔ اللہ کا عذاب تم پر ٹوٹ پڑنے کے لئے تلا کھڑا ہے اور تمہارے لئے اس سے بچنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ اس دین حق اور نظام صالح کو قبول کرلو جو میں اللہ کی طرف سے تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اس شخص کے ساتھ اس کی پاک سیرت اور اس کی معقول باتوں کے سوا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں ہے جس سے عام لوگ اسے مامور من اللہ سمجھیں اور گردوپیش کے حالات میں بھی مذہب واخلاق اور تمدن کی گہری بنیادی خرابیوں کے سوا کوئی ایسی ظاہر علامت نہیں ہے جو نزول عذاب کی نشان دہی کرتی ہو بلکہ اس کے برعکس تمام نمایاں علامتیں یہی ظاہر کر رہی ہیں کہ ان لوگوں پر اللہ کا اور ان کے عقیدے کے مطابق ان کے بزرگوں اور دیوتائوں کا بڑا فضل ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں ٹھیک ہی کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ بات کہنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے اور اس کے سوا کچھ ہو بھی نہیں سکتا کہ چند نہایت صحیح الدماغ اور حقیقت رس لوگوں کے سوا بستی کے سب لوگ اس کے پیچھے پڑھ جاتے ہیں۔ کوئی ظلم وستم سے اس کو دبانا چاہتا ہے ، کوئی جھوٹے الزامات اور اوچھے اعتراضات سے اس کی ہوا اکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی متعصبانہ بےرخی سے اس کی اہمیت شکنی کرتا ہے اور کوئی مذاق اڑا کر ، آوازے اور پھبتیاں کس کر اور ٹھٹھے لگا کر اس کی باتوں کو ہوا میں اڑا دینا چاہتا ہے۔ یہ استیصال جو کئی سال تک اس شخص کی دعوت کا ہوتا رہتا ہے جیسا کچھ دل شکن اور مایوس کن ہو سکتا ہے ظاہر ہے۔ بس یہی صورت حال ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی ہمت بندھانے کی تلقین فرماتا ہے کہ اچھے حالات میں پھول جانا اور برے حالات میں مایوس ہوجانا چھچورے لوگوں کا کام ہے۔ ہماری نگاہ میں قیمتی انسان وہ ہے جو خود نیک ہو اور نیکی کے راستے پر صبر وثبات اور پامردی کے ساتھ چلنے والا ہو۔ لہٰذا جس تعصب سے ، جس بےرخی سے ، جس تضحیک و استہزاء سے اور جن جاہلانہ اعتراضات سے تمہارا مقابلہ کیا جا رہا ہے ان کی وجہ سے تمہارے پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آنے پائے۔ جو صداقت تم پر بذریعہ وحی منکشف کی گئی ہے اس کے اظہار واعلان میں اور اس کی طرف دعوت دینے میں تمہیں قطعاً کوئی باک نہ ہو۔ تمہارے دل میں اس خیال کا کبھی گزر تک نہ ہو کہ فلاں بات کیسے کہوں جب کہ لوگ سنتے ہی اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور فلاں حقیقت کا اظہار کیسے کروں جب کہ کوئی اس کے سننے تک کا روادار نہیں ہے۔ کوئی مانے نہ مانے تم جسے حق پاتے ہو اسے بےکم وکاست اور بےخوف وخطر بیان کئے جائو اور باقی سب معاملات اللہ کے سپرد کر دو ۔ اس بات کو سورة الحجر میں اس طرح بیان کیا گیا : ” پس اے پیغمبر اسلام ! جس چیز کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے اسے بےجھجھک کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی کچھ پرواہ نہ کرو۔ تمہاری طرف سے ہم ان مذاق اڑانے والوں کی خبر لینے کے لئے کافی ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی معبود قرار دیتے ہیں ، عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان سے تمہارے دل کو سخت کو فت ہوتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو ، اس کی جناب میں سجدہ بجا لائو اور اس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے۔ “ (الحجر 15 : 59 ، 99) ٓاور ایک جگہ اس طرح ارشاد فرمایا : ” پھر اے پیغمبر اسلام ! کیا تو ایسا کرے گا کہ جو کچھ تجھ پر وحی کیا جاتا ہے اس میں سے کچھ باتیں چھوڑ دے گا اور اس کی وجہ سے دل تنگ رہے گا ؟ اور یہ اس لئے کہ لوگ کہہ اٹھیں گے اس آدمی پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتر آیا یا ایسا کیوں نہ ہوا اس کے ساتھ ایک فرشتہ آکر کھڑا ہوجاتا ؟ تیرا مقام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تو خبردار کردینے والا ہے اور ہرچیز پر اللہ ہی نگہبان ہے۔ “ (ہود 11 : 12) اور زیر نظر آیت میں فرمایا کہ : ” اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ ” تم اس کے ذریعہ سے منکرین کو ڈرائو اور ایمان لانے والوں کو یاد دہانی ہوجائے۔ “ مطلب یہ ہے کہ جہاں تک انذار کا تعلق ہے وہ تو سیدھا کفار کو کرو لیکن اس سے یاد دہانی کا فائدہ اہل ایمان خود بخود اٹھا لیں گے اس لئے کہ کفار سنی ان سنی کردینے والے ہیں لیکن مسلمان جو کان سے سنیں گے اس پر عمل کرنے کے لئے پہلے ہی تیار بیٹھے ہوں گے۔
Top