Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 28
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًا١ؕ اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَمْكُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ؕ وَ مَكْرُ اُولٰٓئِكَ هُوَ یَبُوْرُ
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعِزَّةَ : عزت فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لیے الْعِزَّةُ : عزت جَمِيْعًا ۭ : تمام تر اِلَيْهِ : اس کی طرف يَصْعَدُ : چڑھتا ہے الْكَلِمُ الطَّيِّبُ : کلام پاکیزہ وَالْعَمَلُ : اور عمل الصَّالِحُ : اچھا يَرْفَعُهٗ ۭ : وہ اس کو بلند کرتا ہے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَمْكُرُوْنَ : تدبیریں کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : بری لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۭ : عذاب سخت وَمَكْرُ : اور تدبیر اُولٰٓئِكَ : ان لوگوں هُوَ يَبُوْرُ : وہ اکارت جائے گی
جس کو چاہے عزت تو اللہ کے لیے ہے ساری عزت1 اس کی طرف چڑھتا ہے کلام ستھرا2 اور کام نیک اس کو اٹھا لیتا ہے3 اور جو لوگ داؤ میں ہیں برائیوں کے ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا داؤ ہے ٹوٹے کا4
1  کفار نے دوسرے معبود اس لیے ٹھہرائے تھے کہ اللہ کے ہاں ان کی عزت ہوگی۔ " وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا " (مریم، رکوع 5) اور بہت لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستانہ کرتے تھے کہ اس سے ان کی عزت بنی رہے گی۔ " الَّذِيْنَ يَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ اَيَبْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا۔ " (نسآء، رکوع 20) اس قسم کے لوگوں کو بتلایا کہ جو شخص دنیا و آخرت کی عزت چاہے، چاہیے کہ اللہ سے طلب کرے کہ عزیز مطلق تو وہ ہے، اسی کی فرمانبرداری اور یادگاری سے اصلی عزت میسر آتی ہے۔ تمام عزتوں کا مالک وہی اکیلا ہے جس کسی کو عزت ملی یا ملے گی اسی کے خزانہ سے ملی ہے یا ملے گی۔ 2  ستھرا کلام ہے ذکر اللہ، دعاء تلاوت القرآن، علم و نصیحت کی باتیں، یہ سب چیزیں بارگاہ رب العزت کی طرف چڑھتی ہیں اور قبول و اعتناء کی عزت حاصل کرتی ہیں۔ 3  ستھرے کلام (ذکر اللہ وغیرہ) کا ذاتی اقتضاء ہے اوپر چڑھنا۔ اس کے ساتھ دوسرے اعمال صالحہ ہوں تو وہ اس کو سہارا دے کر اور زیادہ ابھارتے اور بلند کرتے رہتے ہیں۔ اچھے کلام کو بدون اچھے کاموں کے پوری رفعت شان حاصل نہیں ہوتی۔ بعض مفسرین نے " وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ " کی ضمیروں کا مرجع بدل کر یہ معنی لیے ہیں کہ ستھرا کلام اچھے کام کو اونچا اور بلند کرتا ہے۔ یہ بھی درست ہے اور بعض نے رفع کی ضمیر اللہ کی طرف لوٹائی ہے یعنی اللہ عمل صالح کو بلند کرتا اور معراج قبول پر پہنچاتا ہے۔ بہرحال غرض یہ ہے کہ بھلے کلام اور اچھلے کلام دونوں علو و رفعت کو چاہتے ہیں۔ لہذا جو شخص اللہ تعالیٰ سے عزت کا طالب ہو وہ ان چیزوں کے ذریعہ سے حاصل کرے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ " یعنی عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تمہارے ذکر اور بھلے کام چڑھتے جاتے ہیں۔ جب اپنی حد کو پہنچیں گے تب بدی پر (پورا) غلبہ (حاصل) کریں گے۔ کفر دفع ہوگا، اسلام کو عزت ہوگی۔ " مکاروں کے سبب داؤ گھات باطل اور بیکار ہو کر رہ جائیں گے۔4  یعنی جو لوگ بری تدبیریں سوچتے اور حق کے خلاف داؤ گھات میں رہتے ہیں آخر ناکام ہو کر خسارہ اٹھائیں گے۔ دیکھو قریش نے " دارالندوہ " میں بیٹھ کر حضور ﷺ کو قید کرنے یا وطن سے نکالنے کے مشورے کیے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ " جنگ بدر " کے مواقع پر وہ ہی لوگ وطن سے نکلے، مسلمانوں کے ہاتھوں سے قتل ہوئے اور قلیب بدر میں ہمیشہ کے لیے قید کردیے گئے۔
Top