Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 101
تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآئِهَا١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ١ۚ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ
تِلْكَ : یہ الْقُرٰي : بستیاں نَقُصُّ : ہم بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تم پر مِنْ : سے اَنْۢبَآئِهَا : ان کی کچھ خبریں وَلَقَدْ : اور البتہ جَآءَتْهُمْ : آئے ان کے پاس رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیاں لے کر فَمَا : سو نہ كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا : وہ ایمان لاتے بِمَا : کیونکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے كَذٰلِكَ : اسی طرح يَطْبَعُ : مہر لگاتا ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر قُلُوْبِ : دل (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
یہ بستیاں ہیں کہ سناتے ہیں ہم تجھ کو ان کے کچھ حالات اور بیشک ان کے پاس پہنچ چکے ان کے رسول نشانیاں لے کر پھر ہرگز نہ ہوا کہ ایمان لائیں اس بات پر جس کو پہلے جھٹلا چکے تھے یوں مہر کردیتا ہے اللہ کافروں کے دل پر1
1 یعنی جس چیز کا ایک دفعہ انکار کر بیٹھے، پھر کتنے ہی نشان دیکھیں، دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے ممکن نہیں کہ اس کا اقرار کرلیں۔ جب حق تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی قوم کی ضد اور ہٹ دھرمی اس درجہ تک پہنچ جاتی ہے تب عادتاً اصلاح حال و قبولِ حق کا امکان باقی نہیں رہتا۔ یہ ہی صورت دلوں پر مہر لگ جانے کی ہوتی ہے۔ یہاں واضح فرمایا کہ اللہ کی طرف سے دلوں پر مہر لگا دینے کا کیا مطلب ہے (تنبیہ) ( وَلَقَدْ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بالْبَيِّنٰتِ ) 7 ۔ الاعراف :103) سے معلوم ہوگیا کہ جو انبیاء (علیہم السلام) قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط، اہل مدین کی بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے وہ سب بینات (واضح نشان) دے کر بھیجے گئے۔ پس ہود (علیہ السلام) کی قوم کا یہ کہنا (يٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ ) 11 ۔ ہود :53) محض تعنت وعناد کی راہ سے تھا۔
Top