Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 113
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ يَّسْتَغْفِرُوْا : وہ بخشش چاہیں لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے وَلَوْ : خواہ كَانُوْٓا : وہ ہوں اُولِيْ قُرْبٰى : قرابت دار مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا تَبَيَّنَ : جب ظاہر ہوگیا لَھُمْ : ان پر اَنَّھُمْ : کہ وہ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : دوزخ والے
لائق نہیں نبی کو اور مسلمانوں کو کہ بخشش چاہیں مشرکوں کی اور اگرچہ وہ ہوں قرابت والے جب کہ کھل چکا ان پر کہ وہ ہیں دوزخ والے5
5 مومنین جب جان و مال سے خدا کے ہاتھوں بیع ہوچکے تو ضروری ہے کہ تنہا اسی کے ہو کر رہیں۔ اعداء ُ اللہ سے جن کا دشمن خدا اور جہنمی ہونا معلوم ہوچکا ہو۔ محبت و مہربانی کا واسطہ نہ رکھیں۔ خواہ دشمنان خدا ان کے ماں باپ، چچا، تایا اور خاص بھائی بند ہی کیوں نہ ہوں۔ جو خدا کا باغی اور دشمن ہے وہ ان کا دوست کیسے ہوسکتا ہے۔ پس جس شخص کی بابت پتہ چل جائے کہ وہ بالیقین دوزخی ہے۔ خواہ وحی الٰہی کے ذریعہ سے یا اس طرح کے اعلانیہ کفر و شرک پر اس کو موت آچکی ہو، اس کے حق میں استغفار کرنا اور بخشش مانگنا ممنوع ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت آنحضرت ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ بعض احادیث میں مذکورہ ہے کہ آپ کے چچا ابو طالب کے حق میں اتری۔ اور بعض نے نقل کیا ہے کہ مسلمانوں نے چاہا کہ اپنے آباؤ مشرکین کے لیے جو مرچکے تھے استغفار کریں۔ اس آیت میں ان کو منع کیا گیا۔ بہرحال شان نزول کچھ ہو، حکم یہ ہے کہ کفار و مشرکین کے حق میں جن کا خاتمہ کفرو شرک پر معلوم ہوجائے، استغفار جائز نہیں۔ (تنبیہ) حضور ﷺ کے والدین کے بارے میں علمائے اسلام کے اقوال بہت مختلف ہیں۔ بعض نے ان کو مومن و ناجی ثابت کرنے کے لیے مستقل رسائل لکھے ہیں۔ اور شراح حدیث نے محدثانہ و متکلمانہ بحثیں کی ہیں۔ احتیاط و سلامت روی کا طریقہ اس مسئلہ میں یہ ہے کہ زبان بند رکھی جائے۔ اور ایسے نازک مباحث میں خوض کرنے سے احتراز کیا جائے حقیقت حال کو خدا ہی جانتا ہے اور وہ ہی تمام مسائل کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہے۔
Top