Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 205
وَ اِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْهَا وَ یُهْلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ
وَاِذَا : اور جب تَوَلّٰى : وہ لوٹے سَعٰى : دوڑتا پھرے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین لِيُفْسِدَ : تاکہ فساد کرے فِيْهَا : اس میں وَيُهْلِكَ : اور تباہ کرے الْحَرْثَ : کھیتی وَ : اور النَّسْلَ : نسل وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : ناپسند کرتا ہے الْفَسَادَ : فساد
اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین پر دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کر دے اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا
قول باری ہے (واللہ لایحب الفساد اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کتا اس کا ارادہ بھی نہیں کرتا اور جس چیز کا ارادہ نہیں کرتا اسے پسند بھی نہیں کرتا۔ اس فقرے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ وہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ یہ چیز اس بات کو واجب کردیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کا کام نہ کرے کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ فساد کا ارادہ کرنے والا اور اسے پسند کرنے والا قرار پائے گا اور اللہ کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ ایسا کرے۔ اس کی مثال ایک اور قول باری میں موجود ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (وما اللہ یرید ظلماً للعباد اور یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کا ارادہ کرتا ہو۔ اس بات پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ فعل کے ہونے کے متعلق اس کی پسندیدگی اس فعل کے لئے اس کا ارادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ بات تو بالکل غلط ہے کہ وہ ایک فعل کے ہونے کو پسند کرے اور اس کے ہونے کا ارادہ نہ کرے بلکہ اس کا ہونا اسے ناپسند ہو اس سے تو تنا قض لازم آتا ہے۔ مثلاً کوئی یہ کہے کہ وہ ایک کام کا ارادہ رکھتا ہے لیکن اسے ناپسند بھی کرتا ہے، اس کا یہ کلام تناقض کا شکار ہوگا اور اس میں اختلال واقع ہوجائے گا۔ اس حقیقت پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لھم عذاب الیم وہ لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کے گروہ میں فحش پھیلے بلاشبہ ا ن کے لئے درد ناک عذاب ہے ) یہاں یحبون کے معنی یریدون (وہ چاہتے ہیں) ہیں۔ آیت سے اس بات پر دلالت ہو رہی ہے کہ پسند کرنا ہی ارادہ کرنا ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (ان اللہ احب لکم ثلاثا وکرہ لکم ثلاثا۔ احب لکم القیل والقال وکثرۃ السئوال و اضاعۃ المال اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کو تمہارے لئے پسند اور تین باتوں کو ناپسند کیا ہے۔ اس نے یہ پسند کیا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور سا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور یہ کہ تم اس شخص کے لئے خیر خواہانہ جذبات رکھو جسے وہ تم پر والی مقرر کرے۔ اس نے قلیل وقال (بلاوجہ اعتراضات کرنے) کثرت سوال اور مال کے ضیاع کو ناپسند کیا ہے) اس حدیث میں کراہت کو محبت کے مقابل ہمیں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے یہ دلالت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے پسند بھی کرتا ہے اور جس بات کو وہ ناپسند کرتا ہے اس کا ارادہ نہیں کرتا۔ کیونکہ کراہت ارادے کے بالمقابل ہے جس طرح کہ یہ محبت یعنی پسندیدگی کے بالمقابل ہوتی ہے۔ جب کراہت ارادے اور پسندیدگی کی نقیض ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ ارادہ اور محبت دونوں ایک چیز ہیں۔
Top