Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 33
وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا١ۖۗ وَّ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَنْ یُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلْيَسْتَعْفِفِ
: اور چاہیے کہ بچے رہیں
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَا يَجِدُوْنَ
: نہیں پاتے
نِكَاحًا
: نکاح
حَتّٰى
: یہانتک کہ
يُغْنِيَهُمُ
: انہیں گنی کردے
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ فَضْلِهٖ
: اپنے فضل سے
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
يَبْتَغُوْنَ
: چاہتے ہوں
الْكِتٰبَ
: مکاتبت
مِمَّا
: ان میں سے جو
مَلَكَتْ
: مالک ہوں
اَيْمَانُكُمْ
: تمہارے دائیں ہاتھ (غلام)
فَكَاتِبُوْهُمْ
: تو تم ان سے مکاتبت ( آزادی کی تحریر) کرلو
اِنْ عَلِمْتُمْ
: اگر تم جانو (پاؤ)
فِيْهِمْ
: ان میں
خَيْرًا
: بہتری
وَّاٰتُوْهُمْ
: اور تم ان کو دو
مِّنْ
: سے
مَّالِ اللّٰهِ
: اللہ کا مال
الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ
: جو اس نے تمہیں دیا
وَلَا تُكْرِهُوْا
: اور تم نہ مجبور کرو
فَتَيٰتِكُمْ
: اپنی کنیزیں
عَلَي الْبِغَآءِ
: بدکاری پر
اِنْ اَرَدْنَ
: اگر وہ چاہیں
تَحَصُّنًا
: پاکدامن رہنا
لِّتَبْتَغُوْا
: تاکہ تم حاصل کرلو
عَرَضَ
: سامان
الْحَيٰوةِ
: زندگی
الدُّنْيَا
: دنیا
وَمَنْ
: اور جو
يُّكْرِھْهُّنَّ
: انہیوں مجبور کرے گا
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
اِكْرَاهِهِنَّ
: ان کے مجبوری
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
اور جن کو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ خدا ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے اور جو غلام تم سے مکاتبت چاہیں اگر تم ان میں (صلاحیت اور) نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کرلو اور خدا نے جو مال تم کو بخشا ہے اس میں سے انکو بھی دو اور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو (بےشرمی سے) دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان (بےچاریوں) کے مجبور کئے جانے کے بعد خدا بخشنے والا مہربان ہے
مکاتبت کا بیان قول باری ہے : (والذین یبتغون الکتاب مما ملکت ایمانکم فکا تبوھم ان علمتم فیھم خیرا۔ ) اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں ان سے مکاتبت کرلو اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے۔ عطاء سے مروی ہے کہ اس حکم میں وجوب مراد ہے عمروبن دینار کا یہی قول ہے۔ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت انس ؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ محمد بن سیرین کے والد سیرین کو مکاتب بنالیں لیکن ان کے انکار پر حضرت عمر ؓ ان پر درہ لے کر پل پڑے تھے اور کہا تھا کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ حضرت عمر ؓ کا ارشاد درج بالا آیت کے مضمون کی طرف تھا۔ پھر آپ نے قسم کھائی تھی کہ انس ؓ انہیں ضرور بالضرور مکاتب بنائیں گے۔ ضحاک کا قول ہے کہ اگر مملوک کے پاس کوئی مال ہو تو اس صورت میں آقا پر اسے مکاتب بنانا لازم ہوجائے گا۔ حجاج نے عطا سے روایت کی ہے کہ اگر آقا چاہے تو اسے مکاتب بناسکتا ہے اور اگر نہ چاہے تو نہیں بنائے گا۔ آیت میں وجوب نہیں ہے بلکہ تلقین ہے۔ شعبی کا بھی یہی قول ہے ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عامہ اہل علم کے نزدیک یہ حکم ترغیب و تلقین پر محمول ہے۔ ایجاب پر محمول نہیں ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : (لا یحل مال امری مسلم الا لطیبۃ من نفسہ) کسی مسلمان کا مال اسکی خوشدلی اور رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہوتا۔ سیرین کے واقعہ کے سلسلے میں حضرت عمر ؓ سے منقول جس روایت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ بھی اس پر دلالت کرتی ہے وہ اس طرح کہ اگر حضرت انس ؓ پر مکاتبت واجب ہوتی تو حضرت عمر ؓ اس کا حکم صادر فرماتے اور اس سلسلے میں انہیں حضرت انس ؓ پر قسم کھانے کی ضرورت پیش نہ آتی نیز حضرت انس ؓ کسی ایسے کام سے ہرگز باز نہ رہتے جسے وہ اپنے اوپر واجب سمجھتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عمر ؓ اگر اسے واجب نہ سمجھتے تو درہ لے کر حضرت انس ؓ پر پل نہ پڑتے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت عمر ؓ نے یہ طرز عمل اس لئے اختیار کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے درمیان محض قاضی ہی نہ تھے بلکہ افراد ملت کے ساتھ ان کا تعلق شفیق باپ اور اولاد کا سا تھا۔ اس جہت سے آپ انہیں ان باتوں کا بھی حکم دیتے تھے جن کی بنا پر ان کی دینداری میں اضافہ ہو۔ اگرچہ وہ باتیں ان پر واجب نہ ہوتیں ۔ حضرت عمر ؓ کا یہ طرز عمل لوگوں کی تعلیم وتادیب اور ان کے اپنے مفاد پر مبنی تھا۔ آیت میں کتابت کا حکم وجوب پر محمول نہیں ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اسے آقا کی رائے اور اس کے غالب ظن پر چھوڑ دیا گیا ہے یعنی آقا اگر اپنی رائے کے مطابق ان میں بھلائی دیکھے گا تو ان سے مکاتبت کرلے گا۔ اس لئے جس حکم کا تعلق آقا کی اپنی صوابدید اور رائے کے ساتھ ہو اس پر اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ قول باری (ان علمتم فیھم خیرا) کی تفسیر کے سلسلے میں عکرمہ بن عمار نے یحییٰ بن کثیر سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ ” اگر تم ان کے اندر کوئی ہنر مندی اور کاریگری دیکھو تو انہیں مکاتب بنالو، اگر ان میں ہنر مندی موجود نہ ہو تو انہیں لوگوں پر بوجھ بننے نہ دو ۔ “ ابن جریج نے عطاء سے روایت کی ہے کہ آیت میں لفظ خیر سے میرے نزدیک مال کے سوا اور کوئی چیز مراد نہیں ہے انہوں نے دلیل کے طور پر آیت (کتب علیکم اذا حضرا احدکم الموت ان ترک خیرا) جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے اگر وہ کال چھوڑ رہا ہو تو اس پر فرض کردیا گیا ہے کہ ……۔ کی تلاوت کی اور کہا ہے کہ ہمارے خیال میں خیر سے مال مراد ہے نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول پہنچا ہے کہ انہوں نے خیر مال مراد لیا ہے۔ ابن سیرین نے عبیدہ سے روایت کی ہے کہ بھلائی نظر آنے سے مراد یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہو۔ ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ اس سے وعدے کی وفا اور صداقت مراد ہے یعنی وہ مال کتابت کی ادائیگی کا جو وعدہ کررہا ہو اس میں تمہیں سچائی اور وفا نظر آجائے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مال مراد ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے اندر دینی لحاظ سے بھلائی اور درستی موجود ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ زیادہ واضح بات یہ ہے کہ خیر سے صلاح یعنی بھلائی اور درستی مراد ہے۔ اس میں صداقت ، امانت کی ادائیگی اور وعدہ پورا کرنے کے معانی خود بخود شامل ہوجائیں گے۔ اس لئے کہ لوگوں کی عام بول چال سے یہی مفہوم اخذ کیا جاتا ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ ” فلان فیہ خیر “ (فلاں شخص کے اندر خیر موجود ہے) تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اس کے اندر دینی لحاظ سے بھلائی اور درستی موجود ہے۔ اگر آیت میں مال مراد ہوتا تو آیت کے الفاظ یہ ہوتے ” ان علمتم لھم خیرا۔ “ کیونکہ محاورہ میں ” لقلان مال “ کہا جاتا ہے۔ ” فی فلان مال “ نہیں کہا جاتا۔ نیز غلام کی ملکیت میں کوئی مال نہیں ہوتا اس لئے خیر سے مال مراد لینا درست نہیں ہے۔ عبیدہ سے ” اذ اصلی “ (جب غلام نمازی ہو) کی جو تفسیر منقول ہے اس کے کوئی معنی نہیں ہیں کیونکہ آیت کی بنا پر یہودی اور نصرانی غلام کو بھی مکاتب بنایا جاسکتا ہے اگرچہ ان کی کوئی نماز نہیں ہے۔ قول باری ہے : (واتوھم من قال اللہ الذی اتاکم) اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ اہل علم کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ آیا مکاتب کو یہ استحقاق ہے کہ اس کا آقا مکاتبت کی کچھ رقم معاف کردے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر، امام مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر آقا رقم کا کوئی حصہ معاف کردے تو بڑی اچھی بات ہوگی اور اسے اس کی ترغیب دی جائے گی لیکن اگر وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اسے اس پر مجبور ہیں کیا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ آیت کا حکم وجوب پر محمول ہے۔ ابن سیرین سے آیت زیر بحث کی تفسیر میں منقول ہے کہ لوگوں کو کتابت کی رقم کا ایک حصہ چھوڑ دینا بہت اچھا لگتا تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ابن سیرین کے قول میں لوگوں سے ظاہر ی طور پر صحابہ کرام مراد ہیں۔ اسی طرح ابراہیم نخعی کے قول ” کانوا یکرھون “ (لوگ ناپسند کرتے تھے) یا ” کانوا یقولون (لوگ کہا کرتے تھے) میں بھی صحابہ کرام مراد ہیں۔ تابعی اگر یہ فقرہ استعمال کرے تو اس سے ظاہری طور پر اس کا اشارہ صحابہ کرام کی طرف ہوتا ہے۔ اس لئے ابن سیرین کا درج بالا قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک کتابت کی رقم کا ایک حصہ چھوڑ دینا استحباب کے طور پر تھا ، ایجاب کے طور پر نہیں تھا اس لئے کہ ایجاب کے موقع پر ” کان یعجبھم “ (لوگوں کو یہ بات بہت پسند تھی) نہیں کہا جاتا۔ یونس نے اس آیت کی تفسیر میں حسن اور ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکاتب کے آقا نیز دوسرے لوگوں کو اس سلسلے میں ابھارا ہے اور انہیں ترغیب دی ہے۔ مسلم بن ابی مریم نے حضرت عثمان ؓ کے ایک غلام سے اس کا قول نقل کیا ہے کہ ” حضرت عثمان ؓ نے مجھے مکاتب بنادیا لیکن رقم کا کوئی حصہ نہیں چھوڑا۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہاں یہ احتمال ہے کہ قول باری : (واتوھم من مال اللہ الذی اتاکم) میں وہی معنی مراد ہوں جو آیت صدقات میں (وفی الرقاب ۔ اور گردن چھڑانے میں) مراد ہیں۔ روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا : (اعتق النسمۃ وفک الرقبۃ۔ ) جان کو آزاد کرو اور گردن چھڑائو۔ یہ سن کر اس شخص نے عرض کیا کہ ” آیا یہ دونوں باتیں ایک نہیں ہیں ؟ “ آپ نے جواب دیا کہ پہلی بات سے مراد یہ کہ تم انفرادی طور پر کسی جان یعنی غلام یا لونڈی کی آزادی دے دو اور دوسری بات سے مراد یہ ہے کہ تم قیمت کی ادائیگی میں اس کی مدد کرو۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری (وفی الرقاب) مکاتب کی امداد کا مقتضی ہے۔ اس لئے یہ احتمال ہے کہ قول باری : (وفی الرقاب) مکاتب کی امدادکا مقتضی ہے۔ اس لئے یہ احتمال ہے کہ قول باری : (واتوھم من مال اللہ الذی اتاکم) سے صدقات واجبہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ حوالے کردینا مراد ہو اس سے مکاتب کو صدقہ یعنی زکوٰۃ دینے کا جواب معلوم ہوگیا خواہ اس کا آقا غنی کیوں نہ ہو۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ کے مال میں سے دینے کا اسے حکم دیا گیا ہے۔ مال اللہ کے الفاظ کا اطلاق مال زکوٰۃ پر ہوتا ہے جسے تقرب الٰہی حاصل کرنے کی راہوں میں صرف کیا جاتا ہے۔ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ مال مراد لیا ہے جو دراصل ان لوگوں کی ملکیت ہوتا ہے جنہیں اسے دے دینے کا حکم دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ لوگوں کے اموال میں واجب ہونے والا صدقہ ہوتا ہے۔ اس پر قول باری (من مال اللہ الذی اتاکم) دلالت کرتا ہے۔ یہ وہ مال ہے جس کی مالک کو درست ملکیت حاصل ہو اور اس کا ایک حصہ نکال دینے کا اسے حکم دیا گیا ہو۔ دوسری طرف کتابت کی بنا پر عائد ہونے والا مال دین صحیح نہیں ہوتا کیونکہ وہ غلام پر عائد ہوتا ہے۔ اور آقا کی طرف سے اپنے غلام پر کوئی دین صحیح (حقیقی معنوں میں قرض) عائد نہیں ہوتا۔ جو حضرات مکاتبت کی بنا پر عائد ہونے والی رقم کا کچھ حصہ چھوڑ دینے کے وجوب کے قائل ہیں ان کے قول کے مطابق عقد کتابت کے بعد یہ قدم اٹھانا چاہیے لیکن ایسا اقدام کئی وجہ سے آیت کے موجب ومقتضیٰ کے خلاف ہے اول یہ کہ جب مال کتابت کا ایک حصہ ساقط ہوجائے گا تو وہ اللہ کا مال نہیں بنے گا یہ اس کے آقا کا دیا ہوا مال ہوگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آقا اسے جو مال دے گا یہ وہ مال ہوگا جو اس کے ہاتھوں میں پہنچ جانے والا ہو اور وہ اس میں تصرف کرسکتا ہو لیکن عقدکتابت کے بعد جو حصہ ساقط ہوجائے گا اس میں نہ تو وہ تصرف کرسکتا ہے اور نہ ہی حقیقتاً وہ مال اس کے ہاتھوں میں پہنچتا ہے بلکہ اس مال کو اللہ کا مال کہنے میں بھی شاید کوئی حق بجانب قرار نہیں پائے گا۔ اگر مکاتب غلام کو آیت کے بموجب کچھ دینا واجب ہوتا تو اس وجوب کا تعلق عقد کتابت سے ہوتا۔ اس طرح عقد کتابت اس کا موجب بھی ہوجاتا اور اس کا مسقط بھی۔ جبکہ یہ بات محال ہے۔ اس لئے کہ عقد اگر اس کا موجب بھی ہو اور مسقط بھی تو اس کا وجوب ہی محال ہوجائے گا کیونکہ ایجاب اور اسقاط کے مابین منافات ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اصول کے اندر اس بات میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر آقا اپنی لونڈی کا اپنے غلام سے نکاح کرادے تو اس پر مہر واجب ہوجائے گا اور دوسرے مرحلے میں وہ ساقط ہوجائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے کیونکہ اس مثال میں مہر کو واجب کرنے والا سبب اسے ساقط کرنے والا نہیں ہوتا۔ ایجاب واسقاط کے اسباب الگ الگ ہوتے ہیں کیونکہ عقدنکاح اس کا موجب ہوتا ہے اور دوسرے مرحلے میں اس پر آقا کی ملکیت کا حصول اس کا مسقط بن جاتا ہے۔ اس لئے اس کا موجب اور ہے اور مسقط اور۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے غلام باپ کو خرید لیتا ہے اور خریداری کے ساتھ ہی وہ اس پر آزاد ہوجاتا ہے۔ تو اس صورت میں خریداری اس پر ملکیت کی موجب اور چیز ہوگی اور اس کی مسقط کوئی اور چیز۔ امام شافعی سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ کتابت تو واجب نہیں ہے لیکن کتابت کے بعد اتنا حصہ چھوڑ دینا واجب ہے جس پر کم سے کم حد میں حصہ کے اسم کا اطلاق ہوسکتا ہو اگر رقم کا ایک حصہ چھوڑ دینے سے پہلے آقا کی موت واقع ہوجائے تو حاکم اس کی طرف سے اتنا حصہ چھوڑ دے گا جس پر کم سے کم حد میں حصہ کے اسم کا اطلاق ہوسکتا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگر رقم کا ایک حصہ چھوڑ دینا واجب ہوتا تو اسے اس حصے کو چھوڑ دینے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ واجب مقدار خودبخود ساقط ہوجاتی۔ اس کی مثال یہ صورت ہے کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر قرض ہو اور پھر قرض خواہ پر مقروض کی اتنی ہی رقم چڑھ جائے تو اس صورت میں مقروض کو قرض کی ادائیگی کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ قرض خواہ پر اس کی چڑھی ہوئی رقم اس کے قرض کا بدل بن جائے گی۔ اگر کتابت کے سلسلے میں یہ بات تسلیم کرلی جائے تو اس صورت میں کتابت مجہول قرار پائے گی کیونکہ رقم سے ایک حصہ منہا ہوجانے کے بعد باقی ماندہ رقم مجہول ہوگی اور اس کی حیثیت اس شخص کی کتابت کی رقم کی طرح ہوجائے گی جس نے یہ کہا ہو ” کاتبت عبدی علی الف درھم الاشی “ (میں نے اپنے غلام کو ایک ہزار درہم پر مکاتبت بنایا مگر اس رقم سے کچھ منہا ہوجائے گا) یہ صورت درست نہیں ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیت کے بموجب اگر کتابت کی رقم میں سے غلام کو ایتاء یعنی کچھ دے دینا واجب ہوتا تو بدل کتابت سے یہ حصہ ساقط ہوجاتا پھر اس کی دوصورتیں ہوتیں۔ مذکورہ حصے کی مقدار یا تو معلوم ہوتی یا مجہول۔ پہلی صورت میں عقد کتابت باقی ماندہ رقم کے بدلے واقع ہوتا مثلاً چار ہزار درہم پر عقد کتابت ہوا ہو جس میں سے ایک ہزار درہم چھوڑ دیا گیا ہو اس صورت میں غلام تین ہزار درہم ادا کر کے آزاد ہوجائے گا لیکن یہ صورت دو وجوہ کی بنا پر فاسد ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ چار ہزار درہم کے بدلے مکاتب بنانے کی گواہی درست نہیں ہوگی اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ ایسی چیز کے ذکر کا کیا فائدہ جو ثابت ہی نہ ہوتی ہو۔ نیز غلام کو اس رقم سے کم پر آزادی مل جائے گی جس کی عقد کتابت میں شرط لگائی گئی ہے اور یہ فاسد ہے کیونکہ عقد کتابت میں مذکورہ رقم پوری ادائیگی کے ساتھ اس کی آزادی مشروط ہے اس لئے اس کے ایک حصے کی ادائیگی کی بنا پر غلام کو آزادی نہیں ملے گی۔ نیز امام شافعی کا قول ہے کہ مکاتب اس وقت تک غلام رہتا ہے جب تک اس کے ذمے بدل کتابت کا ایک درہم بھی باقی رہے۔ اس بنا پر پھر تو یہ واجب ہے کہ اس رقم کا کوئی حصہ ساقط نہ ہو۔ اگر آیت کی بنا پر کچھ حصہ چھوڑ دینا واجب قرار دیا جائے تو اس صورت میں رقم کے ایک حصے کا سقوط لازم آئے گا۔ اگر ایتاء یعنی چھوڑ دیا جانے والا حصہ مجہول ہوتا تو اس صورت میں اس حصے کا ساقط ہونا واجب ہوجاتا جس کے نتیجے میں مال مجہول کے بدلے عقد کتابت کا انعقاد لازم آتا جو کسی طرح درست نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ عطاء بن السائب نے ابوعبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنے ایک غلام کو مکاتب بنایا تھا اور پھر بدل کتابت کا چوتھائی حصہ چھوڑ دیا تھا۔ اس موقعہ پر انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت علی ؓ ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی فرماتے تھے کہ قول باری ہے (واتوھم من مال اللہ الذی اتاکم) مجاہد سے مروی ہے کہ تم اپنے مکاتب کے بدل کتابت کا چوتھائی حصہ فوری طور پر اپنے مال میں سے اسے دے دوگے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دونوں اقوال اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ان حضرات کے نزدیک یہ چیز واجب نہیں تھی بلکہ یہ بات استحباب پر محمول تھی۔ کیونکہ اگر واجب ہوتی تو عقد کتابت کے ساتھ ہی چوتھائی حصہ ساقط ہوجاتا کیونکہ مکاتب اس کا حصہ قرار پاتا اور آقا کو اسے کوئی حصہ عطا کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ مکاتب پر بدل کتابت موجل صورت میں واجب ہوا ہو اور مکاتب کو آقا پر یہ حق حاصل ہوگیا ہو کہ وہ اپنے مال میں سے بدل کتابت کی چوتھائی کی مقدار اسے ادا کردے تو ایسی صورت میں ادا ہونے والا مال قصاص یعنی بدلہ نہیں کہلائے گا۔ بلکہ اس کی فوری ادائیگی آقا پر لازم آئے گا اور مال کتابت کی ادائیگی اپنے وقت پر ہوگی۔ اس کی مزید وضاحت اس مثال سے ہوجاتی ہے۔ اگر ایک شخص کا دوسرے پر قرض ہو جس کی ادائیگی کے لئے مدت کا تعین ہو یعنی وہ موجل قرض ہو پھر قرض خواہ پر مقروض کی اتنی ہی رقم فوری طور پر چڑھ جائے تو اس صورت میں چڑھی ہوئی رقم اس کے قرض کا بدلہ قرار نہیں دی جائے گی۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے موجل اور معجل کتابت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اسی طرح سلف میں سے جن حضرات سے بدل کتابت میں چھوٹ کی روایت منقول ہے انہوں نے بھی موجل اور معجل کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی فرق نہیں ہے کہ موجل کتابت کی ادائیگی کا وقت آگیا ہو یا ابھی نہ آیا ہو۔ ان حضرات نے بدل کتابت میں چھوٹ اور مکاتب کو کچھ دے دینے کا جو ذکر کیا ہے اس میں انہوں نے درج بالا دونوں باتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ یہاں ایجاب مراد نہیں ہے کیونکہ اسے اس صورت میں قصاص یعنی بدلہ قرار نہیں دیا گیا جب کتابت معجل ہو یا موجل ہونے کی صورت میں اس کی ادائیگی کا وقت آگیا ہو اور دونوں حالتوں میں ایتاء یعنی کچھ دے دینا واجب قرار دیا گیا ہو۔ ایتاء اعطاء کے معنوں میں ہے اس لئے جو چیز قصاص یعنی بدلہ قرار دی جائے اس پر اعطاء کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ سنت کی جہت سے بھی ہماری بیان کردہ بات پر دلالت ہورہی ہے۔ یونس اور لیث نے زہری سے روایت کی ہے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس بریرہ آئی اور کہنے لگی کہ ” میں نے اپنے اہل یعنی آقا سے مکاتبت کا عقد کرلیا ہے۔ یہ عقد کتابت نواقیہ پر ہوا ہے۔ میں ہر سال ایک اوقیہ ادا کروں گی، اس لئے میری مدد کرو۔ “ اس وقت بریرہ نے کچھ ادائیگی نہیں کی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس سے کہا کہ ” واپس جاکر ان سے کہو کہ اگر وہ پسند کریں تو ساری رقم میں ادا کردوں گی اور تمہاری ولا مجھے حاصل ہوجائے گی۔ “ ان لوگوں نے حضرت عائشہ ؓ کی یہ بات نہیں مانی اور کہا کہ اگر حضرت عائشہ ؓ حسبتہً للہ ایسا کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں۔ اور تمہاری ولا ہمیں حاصل ہوگی۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا۔” تمہارے لئے اس بات میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ بریرہ کو خرید کر اسے آزاد کردو، ولاء اس شخص کے لئے ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔ “ راوی نے حدیث کا باقی ماندہ حصہ بھی بیان کیا۔ امام مالک نے ہشام بن عروہ سے ، انہوں نے اپنے والد سے، اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اسی طرح کی روایت کی ہے ۔ جب بریرہ نے کتابت کی رقم کی کوئی ادائیگی نہیں کی، اور حضرت عائشہ ؓ نے اس کی طرف سے پوری رقم ادا کرنے کا ارادہ کرلیا ، پھر جب انہوں نے حضور ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اس پر کوئی نکیر نہیں کی، اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ اس کتابت کی کچھ رقم معاف ہوجائے گا یا یہ کہ اس کا آقا اپنے مال میں سے اسے کچھ دے دے گا۔ ان سب باتوں سے یہ چیز ثابت ہوگئی کہ کتابت کی رقم کا کچھ حصہ معاف کردینا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ بات واجب ہوتی تو حضور ﷺ اس پر نکیر کرتے اور حضرت عائشہ ؓ سے فرماتے کہ تم انہیں وہ رقم کیوں دے رہی ہو جو بریرہ پر سرے سے ان کے حق میں واجب ہی نہیں ہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے محمد بن اسحاق نے محمد بن جعفر بن الزبیر سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کی ہے کہ جویریہ نے حضور ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میں ثابت بن قیس شماس یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی ہوں۔ میں نے ان سے مکاتبت کا عقد کرلیا ہے۔ اب میں آپ کے پاس اس غرض سے حاضر ہوئی ہوں کہ آپ میری کچھ مدد کردیجئے۔ “ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا ” کیا تمہارے لئے اس سے بہتر صورت نہیں ہوسکتی ؟ “ جویریہ نے عرض کیا۔” وہ کون سی صورت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ صورت یہ ہے کہ میں تمہاری طرف سے مکاتبت کی رقم ادا کروں اور پھر تم سے نکاح کرلوں۔ “ جویریہ نے آپ ﷺ کی یہ بات منظور کرلی۔ اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے جویریہ کو کتابت کی پوری رقم اس کی طرف سے اس کے آقا کو ادا کردینے کی پیشکش کی۔ اگر کتابت کی رقم میں سے کچھ منہا کرنا واجب ہوتا تو حضور ﷺ اس کی طرف سے جس رقم کی ادائیگی کا ارادہ فرما رہے تھے وہ اس کی کاتبت کی باقی ماندہ رقم ہوتی۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت زبیر ؓ نیز سلف میں سے وہ حضرات جن کے اقوال ہم نے درج بالاسطور میں نقل کیے ہیں سب کا نقطہ نظر یہی تھا کہ مکاتبت کی رقم میں سے کچھ حصہ معاف کردینا واجب نہیں ہے۔ ان حضرات کے ہم چشموں میں سے کسی سے بھی اس کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ اس بارے میں حضرت علی ؓ سے جو روایت منقول ہے اس کے متعلق ہم نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اسے مستحب سمجھتے تھے اسے واجب قرار ہیں دیتے تھے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ہے۔ انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن المثنیٰ نے ، انہیں عبدالصمد نے، انہیں ہمام نے، انہیں عباس الجریری نے عمر وبن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ایما عبد کاتب علی مائۃ اوقیہ فساداھا الاعشراواق نھوعبد، وایما عبد کاتب علی مائۃ دینار فاداھا الاعشرۃ دنا نیر فھو عبد) جس غلام نے سوا وقیہ چاندی پر مکاتبت کا عقد کرلیا اور پھر لوے اوقیہ ادا کردیے اور دس باقی رہ گئے تو وہ غلام ہی رہے گا۔ اسی طرح جس غلام نے سودنیار پر کتابت کا عقد کرلیا اور نوے دینار ادا کردیے اور دس باقی رہ گئے تو وہ غلام ہی رہے گا اگر مکاتبت کی رقم میں سے کچھ حصہ منہا کردینا واجب ہوتا تو آپ حدیث میں مذکورہ مقدار کے سقوط کا حکم لگا دیتے اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ مکاتب اس بات کا حق دار نہیں کہ اس کی کتابت کی رقم میں سے کچھ نہ کچھ ضرور معاف کردیا جائے۔ واللہ اعلم معجل کتابت کا بیان قول باری ہے : (ولا تبوھم ان علمتم فیھم خیرا) ان سے مکاتبت کرلو اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے ۔ یہ کتابت معجل اور موجل دونوں کے جواز کا مقتضی ہے۔ کیونکہ اجل یعنی مدت کی شرط کے بغیر اسے مطلق رکھا گیا ہے۔ کتابت کا اسم تعجیل اور تاجیل دونوں صورتوں میں اسے شامل ہے جس طرح بیع، اجارہ اور دوسرے تمام عقود کی کیفیت ہے اس لئے لفظ کے عموم کی بنا پر مکاتبت کی معجل صورت کا جواز بھی ضروری ہے۔ تاہم اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ امام ابویوسف ، امام محمد اور زفر کا قول ہے، مکاتبت کی یہ صورت جائز ہے۔ اس لئے آقا کی طرف سے رقم کی ادائیگی کا مطالبہ پر گروہ اس کی ادائیگی کردے گا تو فبہا ورنہ پھر غلامی میں واپس چلا جائے گا۔ ابن القاسم نے امام مالک سے یہ بان کیا ہے کہ اگر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میرے غلام کو ایک ہزار پر مکاتب بنادو، اور اس کے لئے کوئی مدت مقرر نہیں کرتا تو یہ رقم اس پر قسطوں کی صورت میں واجب کی جائے گی اور قسط مقرر کرتے وقت غلام کی حیثیت اور اس کی قوت وطاقت کا لحاظ رکھاجائے گا۔ ابن القاسم نے کہا ہے کہ لوگوں کے ہاں کاتبت کی رقم قسطوں کی صورت میں واجب ہوتی ہے ۔ اگر آقا اس سے انکار بھی کرے تو بھی یہ معجل نہیں ہوتی۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ مکاتبت پر رقم کی ادائیگی قسطوں کی صورت میں اس کی سہولت کی خاطر واجب کی گئی ہے۔ اس میں آقا کی سہولت مدنظر نہیں ہے۔ المزنی نے امام شافعی کی طرف سے کہا ہے کہ دو قسطوں سے کم پر کتابت جائز نہیں ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ آیت معجل مکاتبت کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ نیز جب مکاتبت کی رقم غلام کی گردنکا بدل قرار پائی ہے تو اس کی حیثیت فروخت شدہ چیزوں کی قیمتوں جیسی ہوگی اس لئے یہ معجل بھی جائز ہوگی اور موجل بھی۔ نیز اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ معجل مال پر غلام آزاد کردینا جائز ہے۔ اس لئے مکاتبت کے سلسلے میں بھی یہی حکم واجب ہے کیونکہ یہ مال دونوں صورتوں میں آزادی کا بدل ہوتا ہے۔ دونوں میں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ پہلی صورت میں آزادی ادائیگی کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے اور دوسری صورت میں یہ معجل ہوتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ بدل عاجل کی بنیاد پر ان دونوں کے جواز کے سلسلے میں ان کا حکم یکساں ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اس لئے عقد کتابت کے بعد اسے کچھ مدت درکار ہوگی جس میں وہ کام کاج کرکے پیسے کمائے گا اور پھر رقم ادا کردے گا اس بنا پر صرف کتابت موجل ہی جائز ہوسکتی ہے کیونکہ کتابت رقم کی ادائیگی کی مقتضی ہوتی ہے اور جب ادائیگی ممکن نہ ہو تو کتابت بھی درست نہیں ہوسکتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ عقد کتابت غلام کے ذمہ آقا کے مال کے ثبوت کا موجب ہوتا ہے اور اس کے ذریعے مکاتب آقا کے قبضے سے نکل کر اپنی ذات کے قبضے میں چلا جاتا ہے یعنی وہ خود مختار ہوجاتا ہے اور اسے مال کمانے اور اس میں تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔ اس مال کی حیثیت ان تمام دیون جیسی ہوجاتی ہے جو قرض لینے والوں کے ذمے ثابت ہوتے ہیں اور جن پر عقدکرناجائز ہوتا ہے۔ اگر معترض کی بیان کردہ علت درست ہوتی تو اس سے یہ لازم آجاتا کہ معجل مال پر غلام کو آزاد کرنا درست نہ ہوتا کیونکہ عقد سے پہلے غلام فوری طور پر کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ معجل مال پر غلام آزاد کردینا اس لئے درست ہے کہ وہ آزادی کے بعد آنے والے دنوں میں مال کا مالک بن جاتا ہے۔ یہی صورت مکاتب کی بھی ہے کہ عقد کتابت کی بنا پر اسے مال کمانے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے ۔ اگر معترض کی بات درست ہوتی تو اس سے یہ لازم آتا کہ ایک فقیر کا اپنے بیٹے کو فوری ادائیگی کی بنیاد پر خریدلینا جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ فقیر کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا ہے اور جب وہ اپنے بیٹے کا مالک ہوجاتا ہے اور اس ملکیت کی بنا پر بیٹا آزادہوجاتا ہے تو فقیر کو اس کی قیمت کی ادائیگی کی قدرت نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ فقیر کو اس مقصد کے لئے قرض لینے کا اختیار ہوتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مکاتبت کے اندر بھی یہی صورت ہوسکتی ہے۔ ایسی مکاتبت کا بیان جس میں آزادی کا ذکر نہ ہو امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، امام مالک اور زفر کا قول ہے کہ اگر آقا اپنے غلام کو ایک ہزار درہم پر مکاتب بنالے اور اس سے یہ نہ کہے کہ اس رقم کی ادائیگی پر تم آزاد ہوجائو گے تو ایسی مکاتبت جائز ہوگی اور رقم کی ادائیگی پر وہ آزاد ہوجائے گا۔ المزنی نے امام شافعی کی طرف سے بیان کیا ہے کہ آقا اگر اپنے غلام کو سو دینار کے عوض دس سال کے اندر مقررہ قسطوں کی صورت میں ادائیگی پر مکاتب بنالے تو یہ مکاتبت درست ہوگی لیکن مکاتب کو آزادی صرف اسی صورت میں ملے گی جب عقدکتابت کے اندر آقا نے یہ کہہ دیا ہو کہ اس رقم کی ادائیگی پر تم آزاد ہوجائو گے، اس کے بعد آقا اس سے یہ بھی کہے کہ میں نے تمہیں مکاتب بنانے کی جو بات کہی ہے وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ جب تم رقم کی ادائیگی کردوگے تو آزاد ہوجائو گے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری : (فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا) آزادی کی شرط کے بغیر مکاتبت کے جواز کا مقتضی ہے اور آزادی کی بات خود آیت کے مفہوم میں موجود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی نہیں فرمایا کہ ” انہیں آزادی کی شرط پر مکاتب بنائو۔ “ جس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہ لفظ آزادی کے مفہوم کو متضمن ہے جس طرح خلع کا لفظ طلاق کے مفہوم کو متضمن ہے۔ اسی طرح بیع کا لفظ تملیک کے مفہوم کو، اجارہ کا لفظ منافع کی تملیک کو نیز نکاح کا لفظ بیوی سے جنسی تلذذ کے مفہوم کو متضمن ہے۔ اس پر عمرو بن شعیب کی ورایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے اپنے والد سے کی ہے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : (الما عبدکاتب علی مائۃ اوقیۃ فاداھا الاشعراواقی فھم رقیق۔ ) جس غلام نے سواوقیہ پر عقد کتابت کیا ہو اور پھر اس نے نوے اوقیہ کی ادائیگی کردی اور دس اوقیہ کی ادائیگی باقی رہتی ہو تو وہ غلام ہی رہے گا۔ آپ نے حریت کی شرط کے بغیر علی الاطلاق مکاتبت کو جائز قرار دیا۔ اور جب حریت کی شرط کے بغیر علی الاطلاق کتابت درست ہوگئی تو ادائیگی کے ساتھ ہی اسے آزادی مل جانا بھی واجب ہوگیا کیونکہ عقد کاتبت کی صحت کتابت کی رقم کی ادائیگی پر آزادی کی مقتضی ہوتی ہے۔ مکاتب کو آزای کب ملے گی ؟ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ابو جعفر طحاوی نے بعض اہل علم سے یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک مکاتب عقد مکاتبت کے ساتھ ہی آزاد ہوجائے گا اور کتابت کی رقم اس پر دین کی صورت میں لازم رہے گی۔ ابو جعفر طحاوی نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے اس قول کی روایت کی کوئی سند ہمیں نہیں ملی اور نہ ہی کوئی ہمیں اس کا قائل ملا۔ طحاوی نے مزید کہا ہے کہ ایوب نے عکرمہ سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :( بودی المکاتب بحصۃ ماادی دیۃ حردما بقی علیہ دیۃ عبد۔ ) اگر کسی کاتب کی دیت ادا کرنی ہو تو اس کی صورت یہ ہوگی کہ اس نے کتابت کی رقم کا جتنا حصہ ادا کردیا ہے اتنے حصے کی دیت آزاد مرد کی دیت کے حساب سے ادا کی جائے گی اور جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے اس کی ادائیگی غلام کی دیت کے حساب سے ہوگی۔ یحییٰ بن کثیر نے عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس ؓ سے یہی روایت کی ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ حضرت زید بن ثابت ؓ ، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ نیز ایک روایت کے مطابق حضرت عمر ؓ کا قول ہے کہ مکاتب پر جب تک ایک درہم بھی باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ غلام ہی رہتا ہے۔ حضرت عمر ؓ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ نصف رقم کی ادائیگی کے بعد غلامی ختم ہوجاتی ہے اور وہ اپنے سابق آقا کا مقروض متصور ہوتا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کا قول ہے کہ اگر تہائی یا چوتھائی رقم کی ادائیگی ہوجائے تو اس پر سے غلامی ختم ہوجاتی ہے اور وہ مقروض بن جاتا ہے۔ قاضی شریح کا بھی یہی قول ہے۔ ابراہیم نخعی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کی ہے کہ جب وہ اپنی گردن کی قیمت ادا کردیتا ہے تو وہ غریم یعنی مقروض بن جاتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے انہیں ہارون بن عبداللہ نے انہیں ابوبدر نے انہیں سلیمان بن سلیم نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : (المکاتب عبدمابقی علیہ من مکاتبتہ درھم ) جب تک مکاتب پر اس کی مکاتبت کا ایک درہم بھی باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ غلام ہی رہتا ہے۔ قیاس اور نظر کی جہت سے بھی اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آزادی کے لئے جب ادائیگی شرط تھی تو پھر پوری ادائیگی کے بعد ہی اسے آزادی ملنی چاہیے۔ جس طرح اگر کسی غلام کی آزادی کو کسی شرط پر معلق کردیاجائے تو مکمل طور پر شرط کے وجود پر ہی اسے آزادی مل سکے گی جس طرح کسی شخص نے غلام سے یہ کہا کہ ” اگر میں فلاں فلاں اشخاص سے گفتگو کرلوں تو تو آزاد ہے۔ “ اس صورت میں جب تک وہ دونوں اشخاص سے بات نہ کرلے گا اس وقت تک غلام کو آزادی نہیں ملے گی اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جب مال کتابت آزادی کا بدل ہوتا ہے۔ تو پھر اس میں دو میں سے ایک بات ضرور پائی جاتی ہے یا تو اس مال کی وجہ سے عقد کتابت کے ساتھ ہی مکاتب کو آزادی مل جاتی ہے لیکن یہ کتاب وسنت کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے درج بالاسطور میں بیان کردیا ہے۔ یا یہ مال ادائیگی کے بعد اس کی آزادی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس صورت میں اس کی حیثیت بیع وشرا کی ان تمام صورتوں کی طرح ہوگی جن میں پوری قیمت کی ادائیگی کے بعدہی فروخت شدہ چیز کی حوالگی لازم ہوتی ہے۔ جب عقد مکاتبت کے کے ساتھ آزادی کا مل جانا ثابت نہیں ہوسکا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کتابت کی پوری رقم ادا کرنے کے بعد ہی آزادی حاصل ہوگی۔ اگر کو مکاتب مرجائے اور اتنی رقم چھوڑ جائے جس سی اس کی مکاتبت کی رقم ادا ہوسکتی ہو تو اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ حضرت علی ؓ ، حضرت زید بن ثابت ؓ اور حضرت عبداللہ بن الزبیر ؓ کا قول ہے کہ اس کی موت کے بعد باقی ماندہ رقم ادا کردی جائے گی اور اسے آزاد قرار دیا جائے گا امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، اور امام زفر نیز قاضی ابن ابی لیلیٰ ، قاضی ابن شیرمہ، عثمان البتی ، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ ان حضرات نے یہ کہا ہے کہ اگر کتابت کی رقم ادا کرنے کے بعد مرحوم مکاتب کی چھوڑی ہوئی رقم میں سے کچھ بچ جائے گا تو وہ اس کے ورثہ کو مل جائے گا۔ اگر مکاتب اتنی رقم چھوڑ کر نہ مرے جس سے کتابت کی رقم کی ادائیگی ہوجائے لیکن اس کی اولاد ہو جو اس کی مکاتبت کے دوران پیدا ہوئی ہو تو اس صورت میں اولاد اپنے مرحوم باپ کی باقی ماندہ اقساط ادا کرنے میں کوشاں ہوگی۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر اس کی اولاد بھی اس کے عقد کتابت میں داخل ہوگئی ہو تو اس کی موت کے بعد کتابت کی رقم کی ادائیگی کے لئے وہ دوڑ دھوپ کرے گی اور ادائیگی کے بعد مکاتب اور اس کی اولاد آزاد قرار دی جائے گی۔ اگر مکاتب کی اولاد عقد کتابت میں شامل نہ ہوئی ہو تو اس صورت میں اسے غلامی کی حالت میں مرنے والا قرار دیاجائے گا اس کے چھوڑے ہوئے مال سے کتابت کی باقی ماندہ رقم ادا نہیں کی جائے گی بلکہ ساری رقم اس کے آقا کو مل جائے گی۔ امام شافعی کا قول ہے کہ مکاتب کی وفات اگر ایسی حالت میں ہوجائے کہ اس پر ایک درہم بھی باقی ہو تو اسے غلام ہی قرار دیاجائے گا۔ اس کا سارا مال اس کے آقا کو مل جائے گا اور اس مال سے اس کی کتابت کی باقی ماندہ رقم ادا نہیں کی جائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ کتابت یا تو ان قسموں کے معنی میں ہوتی ہے جو شرطوں کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں اور اسے آقا یا غلام کی موت باطل کردیتی ہے مثلاً آقا یہ کہتا ہے۔” اگر میں گھر میں دخل ہوا تو تو آزاد ہے۔ “ پھر آقا یا غلام کی موت واقع ہوجاتی ہے تو اس صورت میں قسم باطل ہوجائے گی اور غلام آزاد نہیں ہوگا۔ یا کتابت بیع وشراء کے عقود کے معنوں میں ہوگی جنہیں شرطیں باطل نہیں کرتی ہیں۔ جب آقا کی موت عقدکتابت کو باطل نہیں کرتی اور مکاتب اس کے ورثہ کو رقم کی ادائیگی کے بعد آزاد ہوجاتا ہے تو اس سے یہ بات بھی ضروری ہوگئی کہ غلام کی موت بھی اس عقد کتابت کو اس وقت تک باطل نہ کرسکے جب تک رقم ادائیگی ہوسکتی ہو، اس صورت میں رقم کی ادائیگی کردی جائے گی اور موت کے ساتھ ہی اسے آزادقرار دے دیا جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ مردے کی آزادی درست نہیں ہوتی اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس کی موت غلامی کی حالت میں واقع ہوئی تھی کیونکر مکاتب پر جب تک عقد کتابت کا ایک درہم بھی باقی ہوتا ہے اس وقت تک وہ غلام ہی رہتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مکاتب جب مرجائے اور اپنے پیچھے اتنا مال چھوڑ جائے جس سے اس کی کتابت کی رقم کی ادائیگی ہوسکتی ہو تو ایسی صورت میں اس کا حکم موقوف رہے گا اور اس پر حکم لگانے میں انتظار سے کام لیا جائے گا۔ جس کی صورت یہ ہوگی کہ اگر کتابت کی رقم کی ادائیگی ہوجائے گی تو ہم اس کے متعلق یہ فیصلہ کردیں گے کہ وہ موت سے پہلے بلا فصل آزاد تھا جس طرح یہ بات ہے کہ مردہ شخص کی طرف سے موت کے بعد کسی کو آزادی نہیں دی جاسکتی لیکن آقا کی موت کی صورت میں مکاتب جب کتابت کی رقم ادا کردیتا ہے تو ہم یہ حکم لگا دیتے ہیں کہ اسے گویا مردہ آقا کی طرف سے آزادی دی گئی ہے اور پھر اس کی ولاء اسی مردہ آقا کے لئے ہوتی ہے۔ اصول شریعت میں اس بات کا نظائر کا وجود ممتنع نہیں ہے کہ ایک چیز پر حکم لگانے کے سلسلے میں کسی خاص بات کا انتظار کرلیا جائے اور جب وہ خاص بات وجود میں آجائے تو اس چیز پر اس کی پچھلی حالت اور پچھلی تاریخ میں حکم لگادیا جائے ۔ مثلاً کوئی شخص کسی کو زخمی کردے تو اب مجرم پر حکم لگانے کے بارے میں زخمی کے انجام کا انتظار کیا جائے گا۔ اگر اس دوران مجرم مرجائے اور اس کے بعد زخمی بھی ان زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے تو ہم مجرم پر قاتل ہونے کا حکم لگادیں گے حالانکہ اس کی موت کے بعد اس کی ذات سے قتل کا وقوعہ ناممکن ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے مسلمانوں کے آنے جانے کے راستے میں کوئی کنواں کھود دیا ہو پھر اس کی وفات ہوگئی ہو اور اس کے بعد اس کنویں میں کسی انسان کا کوئی جانور گر کر مرگیا ہو تو اس جانور کا تاوان اس کنواں کھودنے والے مرحوم شخص پر عائد ہوجائے گا اور کئی وجوہ سے اس کی حیثیت یہ ہوجائے گی کہ گویا اس نے اپنی موت سے پہلے ہی یہ جرم کیا تھا۔ اگر اس شخص نے غلام چھوڑ کر وفات پائی ہو اور ورثہ نے غلام کو آزاد کردیا ہو پھر اس کنویں میں کوئی جانور گر کر مرگیا ہو تو اس صورت میں ورثاء غلام کی قیمت کا تاوان بھریں گے اور ہم تاوان کے سلسلے میں یہ فیصلہ دیں گے کہ یہ جرم اس شخص کی وفات کے دن ہی وجود میں آگیا تھا۔ اگر کوئی شخص اپنی حاملہ بیوی چھوڑ کرمرجائے اور اس کی موت کے دو سال بعد جس میں صرف ایک دن کم ہو بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو بچہ اس کا وارث قرار دیا جائے گا جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ یہ بچہ اس کی موت کے وقت محض نطفہ تھا اور بچے کی شکل میں موجود نہیں تھا اور پھر جب یہ پیدا ہوا تو ہم نے اس پر ولد ہونے کا حکم لگادیا۔ اگر ایک شخص کی وفات ہوجائے اور اس کے پیچھے اس کے دو بیٹے اور ایک ہزار درہم کی رقم رہ جانے اور اس پر ایک ہزار کا قرض بھی ہو تو اس صورت میں اس کے دونوں بیٹے اس کے وارث قرار نہیں دیئے جائیں گے لیکن اگر ایک بیٹے کی موت ہوجائے اور اس کے پیچھے اس کا ایک بیٹارہ جائے پھر قرض خواہ اپنا قرض معاف کردے تو اس صورت میں اس ایک ہزار درہم سے پوتا اپنے باپ کی میراث کے طور پر حصہ لے لے گا حالانکہ یہ بات معلوم ہے کہ اس کے باپ کی جس دن وفات ہوئی تھی وہ اس رقم کا مالک نہیں تھا لیکن اسے مالک کے حکم میں قرار دے دیا گیا کیونکہ اس کا سبب پہلے سے موجود تھا۔ ٹھیک اسی طرح مکاتب پر بھی ادائیگی کی صورت میں اس کی موت سے قبل کسی فصل کے بغیر آزاد ہوجانے کا حکم لگادیا جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ وہ شخص جو خطاً قتل ہوجاتا ہے اس کی دیت موت کے بعد ہی واجب ہوتی ہے حالانکہ موت کے بعد وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا، لیکن دیت کو اس چیز کے حکم میں کردیا جاتا ہے جس کا وہ موت سے قبل مالک ہوتا ہے اور اس طرح دیت اس کے ورثاء کی میراث بن جاتی ہے پھر اسی دیت سے اس کے قرضوں کی ادائیگی کی جاتی ہے اور اس کی وصیتیں پوری کی جاتی ہیں۔ لونڈی سے زنا بالجبر کروانے پر پابندی قول باری ہے : ولا تکرھو ا فتیاتکم علی البغآء ان اردن تحصنا۔ اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فوائد کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں ، اعمش نے ابوسفیان سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اپنی لونڈی سے کہا کرتا تھا کہ جائو اور جاکر ہمارے لئے کچھ کما کر لائو۔ اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری (ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم۔ ) اور جو کوئی انہیں مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لئے غفور و رحیم ہے۔ کی تفسیر میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ ” ایسی مجبور لونڈیوں کے لئے ایک ذات ہے جو بہت غفور اور نہایت رحیم ہے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بتائی ہے کہ زنا پر مجبور کی جانے والی لونڈی اگر بجرواکراہ اس فعل بد کی مرتکب ہوجائے تو اس کی بخشش ہوجائے گی جس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے کہ کفر پر اکراہ اس صورت میں کفر کے حکم کو زائل کو دیتا ہے جب مکرہ شخص اپنی زبان سے کفر کا مجبوراً اظہار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے (ان اردن تحصنا) اس لئے فرمایا کہ اگر لونڈی زنا کا ارادہ کرچکی ہو اور پاک دامن نہ رہنا چاہتی ہو پھر ظاہری طور پر اکراہ کے تحت وہ اس فعل کا ارتکاب کرلے تو اپنے اس ارادے کی بنا پر وہ گنہگار قرار پائے گی اور باطنی طور پر اکراہ کا حکم اس سے زائل ہوجائے گا اگرچہ ظاہری طور پر اکراہ کی صورت موجود بھی ہو۔ اسی طرح اس شخص کا حکم ہے جسے کفر پر مجبور کردیا گیا ہو اور وہ ظاہری طور پر اس سے انکار کررہا ہو مگر اس نے یہ حرکت اپنے ارادے سے کی ہو، اکراہ کی بنا پر نہ کی ہے تو وہ کافر قرار پائے گا۔ ہمارے اصحاب نے اس شخص کے متعلق بھی یہی کہا ہے جسے اس بات پر مجبور کردیا جائے کہ وہ اپنی زبان سے یہ اقرار کرے کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے۔ یا حضور ﷺ کی ذات اقدس کے خلاف دریدہ دہنی پر مجبور کردیاجائے ۔ پھر اس کے دل میں یہ خیال گزرے کہ وہ یہ بات کافروں کی نقل میں کہہ رہا ہے یا وہ حضور ﷺ کی ذات اقدس کے سوا کسی اور محمد نامی شخص کو شب وشتم کر رہا ہے۔ پھر وہ اپنی نیت اور ارادے کو اس چیز کی طرف نہ موڑے اور اپنی زبان سے وہی کلمات کہہ دے جس پر اسے مجبور کیا گیا ہو تو وہ کافر ہوجائے گا۔
Top