Al-Quran-al-Kareem - An-Noor : 5
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا١ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ تَابُوْا : جن لوگوں نے توبہ کرلی مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ : اس کے بعد وَاَصْلَحُوْا : اور انہوں نے اصلاح کرلی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
مگر جو لوگ اس کے بعد تو بہ کریں اور اصلاح کرلیں تو یقینا اللہ بےحد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا۔۔ : اس بات پر اتفاق ہے کہ توبہ سے بہتان کی حد معاف نہیں ہوگی، اسی طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ توبہ اور اصلاح کے بعد اس سے فسق کا حکم اٹھ جائے گا، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ توبہ اور اصلاح کے بعد اس کی شہادت قبول ہوگی یا نہیں۔ طبری ؓ نے حسن سند کے ساتھ عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ذکر کیا ہے کہ انھوں نے ”وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا“ پڑھا اور فرمایا : ”پھر جو شخص توبہ اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق اس کی شہادت قبول کی جائے گی۔“ اگرچہ بعض لوگوں کے مطابق توبہ اور اصلاح کے بعد بھی اس کی شہادت قبول نہیں ہوگی، مگر صحیح بات یہی ہے کہ اگر بہتان لگانے والا توبہ کرے کہ آئندہ میں ایسی بات نہیں کروں گا اور واقعی اپنی اصلاح کرلے اور ایسی کوئی غلطی نہ کرے تو اس کی شہادت قبول کی جائے گی۔ کیونکہ مردود الشہادہ تو وہ فسق کی وجہ سے تھا، جب فسق نہ رہا تو شہادت کیوں قبول نہ ہو۔ اس کے علاوہ یہ کہ توبہ سے تو کفر و شرک بھی معاف ہوجاتا ہے، قذف تو اس سے کہیں کم گناہ ہے۔ رہا لفظ ”اَبَدًا“ (ہمیشہ) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ تہمت لگانے سے باز نہ آئے، خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے، اس کی شہادت مت قبول کرو۔ رہی وہ مدت جس سے اس کی توبہ اور اصلاح ثابت ہوجاتی ہے تو بعض لوگوں نے اس کے لیے ایک سال مدت مقرر کی ہے، مگر یہ بات کتاب و سنت سے ثابت نہیں، اس لیے یہ بات قاضی پر چھوڑ دی جائے گی، اگر اسے کسی بھی مدت میں اس کی توبہ اور اصلاح کا یقین ہوجائے تو وہ اس کی شہادت قبول کرسکتا ہے، کیونکہ یقیناً اللہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی، وہ توبہ کے بعد بیحد پردہ پوشی بھی کرتا ہے اور رحم بھی۔
Top