Al-Quran-al-Kareem - Al-Ankaboot : 19
اَوَ لَمْ یَرَوْا كَیْفَ یُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : نہیں دیکھا انہوں نے كَيْفَ : کیسے يُبْدِئُ : ابتداٗ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْخَلْقَ : پیدائش ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : پھر دوبارہ پیدا کریگا اس کو اِنَّ : بیشک ذٰلِكَ : یہ عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : آسان
اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ کس طرح اللہ خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اسے دھرائے گا، بیشک یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
اَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَــلْقَ۔۔ : ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین کے مطابق یہاں تک ابراہیم ؑ کا اپنی قوم سے خطاب ہے اور یہاں سے آگے اللہ تعالیٰ کا کفار قریش سے خطاب ہے جو ”لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ“ تک چلا گیا ہے۔ اس کے بعد ”فَمَاکَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ“ سے پھر ابراہیم ؑ کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ جبکہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ”فَمَاکَانَ جَوَابَ“ تک یہ سارا کلام ہی ابراہیم ؑ کا ہے۔ مجھے بھی یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اس میں نہ سلسلہ کلام توڑنا پڑتا ہے، نہ مطلب میں کوئی خلل آتا ہے، بلکہ ابراہیم ؑ اپنی قوم کو توحید کے بعد آخرت کے دلائل سنا رہے ہیں جن کے جواب کا ذکر اس آیت میں ہے : (فَمَاکَانَ جَوَابَ۔۔) ویسے ابراہیم ؑ کا یہ خطاب کفار قریش کے بھی عین حسب حال ہے، کیونکہ مشرک اقوام کے عقائد ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ 3 ابراہیم ؑ کی قوم اور کفار مکہ دو بنیادی گمراہیوں میں مبتلا تھے، ایک اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک، دوسری آخرت کا انکار۔ پہلی گمراہی کا رد اوپر کی آیات میں آچکا ہے، یہ دوسری گمراہی کا رد ہے۔ 3 ابراہیم ؑ نے دوبارہ زندہ ہونے کے ثبوت کے لیے خود ان کے وجود کو پیش فرمایا، جس کا مشاہدہ وہ ہر وقت کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس وقت پیدا فرمایا جب کہیں ان کا ذکر تک نہ تھا۔ وجود میں آنے کے بعد وہ سننے دیکھنے والے انسان بن گئے، تو جس نے انھیں شروع میں پیدا فرمایا وہ انھیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے، (”إِنَّ“ تعلیل کے لیے آتا ہے) کیونکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ) [ الروم : 27 ] ”اور وہی ہے جو خلق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور وہ اسے زیادہ آسان ہے۔“ شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں : ”شروع تو دیکھتے ہو، دہرانا اسی سے سمجھ لو۔“
Top