Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 61
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا
فَلَمَّا : پھر جب بَلَغَا : وہ دونوں پہنچے مَجْمَعَ : ملنے کا مقام بَيْنِهِمَا : دونوں کے درمیان نَسِيَا : وہ بھول گئے حُوْتَهُمَا : اپنی مچھلی فَاتَّخَذَ : تو اس نے بنا لیا سَبِيْلَهٗ : اپنا راستہ فِي الْبَحْرِ : دریا میں سَرَبًا : سرنگ کی طرح
جب انکے ملنے کے مقام پر پہنچے تو اپنی مچھلی بھول گئے تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بنا لیا
(18:61) مجمع بینہما۔ ان دونوں کا جائے اجتماع۔ ان دونوں کا سنگھم۔ ان دونوں دریائوں کے اتصال کی جگہ۔ ھما ضمیر تثنیہ مؤنث غائب البحرین کے لئے ہے۔ حرتھما۔ میں ضمیر تثنیہ مؤنث حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خادم کے لئے ہے۔ ان دونوں کی مچھلی۔ سربا۔ السرب۔ ( نصر) اس کے اصل معنی نشیب کی طرف جانے کے ہیں (اور اسم کے طور پر) نشیبی جگہ کو بھی سرب کہتے ہیں۔ سرب (نصر) انسراب (انفعال) ایک ہی معنی میں آتے ہیں۔ اور بولتے ہیں انسربت الحیۃ الی جحرھا سانپ اپنے بل میں اتر گیا۔ فاتخذ سبی کہ فی البحر سربا۔ اس نے سرنگ بناتے ہوئے دریا میں اپنی راہ پکڑی۔ یعنی وہ دریا میں اتر گئی جیسے کوئی جانور سرنگ میں نیچے کو جا گھستا ہے۔ سربا بوجہ اتخذ کے مفعول ثانی ہونے کے منصوب ہے۔ مفعول اول سبیل ہے۔ اسی سے سارب (اپنی مرضی سے) کسی راستے پر چلا جانے والا ہے۔ جیسے سارب بالنھار با (13:10) دن کی روشنی میں کھلم کھلا چلنے پھرنے والا۔ سراب۔ شدت گرما میں دوپہر کے وقت بیابان میں جو پانی کی طرح چمکتی ہوئی ریت نظر آتی ہے اسے سراب کہا جاتا ہے جیسے قرآن مجید میں آیا ہے کسراب بقیعۃ یحسبہ الظمان ماء (24:39) جیسے میدان میں سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھے۔ سربا المسلک فی خفیۃ۔ سرنگ۔ وحشی جانوروں کی بل۔
Top