Asrar-ut-Tanzil - An-Noor : 51
اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں كَانَ : ہے قَوْلَ : بات الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اِذَا : جب دُعُوْٓا : وہ بلائے جاتے ہیں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَنْ : کہ۔ تو يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی وَاُولٰٓئِكَ : اور وہ هُمُ : وہی الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
دراصل ایمان والوں کی بات تو یہ تھی کہ جب ان کو اللہ اور اسکے پیغمبر کی طرف بلایا جاتے کہ ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور ایسے ہی لوگ (آخرت میں) کامیابی حاصل کریں گے
(رکوع نمبر 7) اسرارومعارف (نفاذ اسلام اہل ایمان کا کام ہے) اہل ایمان کی شان تو یہ ہے کہ جب انہیں اللہ ورسول کے مطابق فیصلہ قبول کرنے کا کہا جائے تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہمیں منظور ہے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں یعنی نفاذ اسلام یا اسلامی قانون کی راہ میں صرف لوگوں کی منافقت حائل ہوتی ہے اور اہل ایمان فورا عملی زندگی میں اسلامی قانون اپناتے ہیں اور اسلامی قانون اپنانے اور اختیار کرنے والے ہی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔ (نجات ابدی کی چار شرائط) کہ یہ اصولی بات ہے کہ جس نے اللہ کی اطاعت کی یعنی فرائض ادا کیے ” ورسولہ ‘ اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی سنت کا اتباع کیا ۔ (آیت) ” ویخش اللہ “ اور گذشتہ اعمال اور زندگی کے لیے توبہ کی اللہ سے ڈرا ” ویتقہ اللہ “ اور آئندہ کے لیے تقوی یعنی دل کی گہرائیوں سے اللہ جل جلالہ کی اطاعت اختیار کرلی تو ایسے لوگ ہی کامیاب ہوں گے اور مراد کو پہنچیں گے نام نہاد مسلمان اور منافق بھی یوں تو بڑی بڑی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر اللہ کا رسول ﷺ حکم دے تو سب کچھ قربان کر دے اور ہر شے کو چھوڑ چھاڑ کر تعمیل ارشاد کے لیے نکل کھڑے ہوں انہیں کہیے قسمیں مت کھاؤ کہ نرے دعوے کی ضرورت نہیں ، اپنے عمل سے اطاعت گذاری ثابت کرو کہ یہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ جل جلالہ اس سے خوب واقف ہے ، ان سے فرما دیجئے کہ باتیں نہ بناؤ بلکہ عملی زندگی میں عقائد ونظریات میں اعمال وکردار میں اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو ، اگر نہ کریں گے تو اپنے کردار کا بوجھ خود اٹھائیں گے کہ اللہ کے بندوں کی ذمہ داری تو اتنی ہے کہ بات پہنچا دی عمل نہ کرنے کی ذمہ داری ان کی اپنی ہے ہاں یہ فرما دیجئے کہ اگر اطاعت اختیار کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے کہ نافرمانی میں ہدایت نصیب نہیں ہوتی اور اللہ کے رسول ﷺ کی ذمہ داری اللہ کا پیغام پہچانے کی ہے جو انہوں نے پوری فرما دی منوانے کی نہیں یہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیاں ہے اور اللہ کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے کہ جو صحیح عقیدہ اور درست ایمان والے ہوں گے اور عملا نیک کام کرنے والے ہوں گے ان کو دنیا میں اقتدار دے گا اور زمین پر قبضہ وقدرت دے گا جیسے اس نے پہلی قوموں میں نیک اور باعمل مسلمانوں کو دیا تھا اور ان کے دین کو جو خود اللہ نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے غالب کردے گا ایسا غالب کہ وہ کسی سے خوف محسوس نہ کریں گے نہ کبھی انہیں کسی کا ڈر رہے گا ، صرف اللہ جل جلالہ کی عبادت اور اطاعت کریں گے اور ان کے اور ان کے کسی قول وفعل سے کسی دوسرے کا ہمسر ہونے کا شبہ تک نہ ہوگا ان انعامات کے باوجود بھی اگر کچھ لوگ ناشکر گزاری کے مرتکب ہوں گے تو وہ نافرمان اور اطاعت وایمان سے نکل جانے والے ہوں گے ۔ (آیہ استخلاف) سورة نور کی اس آیہ مبارکہ کو آیہ استخلاف کہا جاتا ہے جس کا ظہور خود نبی کریم ﷺ کے مبارک عہد میں ہوا کہ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور کفار ومشرکین کا غرور ٹوٹا آپ ﷺ کے عہد مبارک میں مکہ فتح ہوا ، خیبر فتح ہوا بلکہ سارا جزیرۃ العرب اور یمن فتح ہوگیا اور دنیا کے عظیم حکمرانوں نے خدمت اقدس میں تحفے بھیج کر اسلامی حکومت کی عظمت کو ماننے کا اظہار کیا ، پھر ابوبکر صدیق ؓ کے عہد مبارک میں جھوٹے مدعیان نبوت اور منکرین زکوۃ کو کچلا گیا اور یہ فتنے ختم ہوئے اور مصر کو اسلامی افواج روانہ ہوئیں ، بصرہ اور دمشق تک علاقے فتح ہوئے پھر عہد فاروقی میں تو دنیا کے دوسرے سرے تک نور اسلام کی روشنی پھیلی اور نظام اسلام کی روح پرور ہوا چلی کہ چشم فلک بھی حیران رہ گئی ، انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بعد ایسی پرامن باوقار انصاف پر مبنی اور جرات مند ریاست اس نے بھی اور نہ دیکھی تھی ، فارس وایران اور بلاد سلطنت قیصری بھی اسلامی ریاست میں شامل ہوئے اور عہد عثمانی وعلوی تک یہی شوکت قائم رہی بلکہ خلافت عثمانیہ میں تو مشرق سے مغرب تک سلطنت و حکومت صرف اسلام اور مسلمانوں کی تھی جس کے مقابل کسی سلطنت و حکومت کو حکومت کہنا بھی زیب نہیں دیتا چناچہ اس آیہ مبارکہ کا پہلا مظہر خلافت راشدہ ہے اور خلفائے راشدین ہی قرآن حکیم کے مثالی مسلمان بھی ہیں اور مثالی حکمران بھی بلکہ مفسرین کرام کے مطابق اس عظمت کے باوجود ناشکری کا مرتکب وہ سازشی گروہ ہے جو حضرت عثمان ؓ کی ظالمانہ شہادت کا سبب بنا اور اسلامی عظمت کو تباہ کرنے کی سازش کرکے کفر اختیار کیا ، تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ اسی گروہ نے حضرت علی ؓ حضرت حسن ؓ کو شہید کیا اور میدان کربلا میں خانوادہ نبوی کو قتل کر کے اور حضرت حسین ؓ کا سرمبارک کاٹ کر اسلاف کے خلاف شیعیت کی بنیاد استوار کی جس نے ہر اسلامی عقیدے اور ہر اسلامی عمل کا سر کاٹنے کی ناپاک کوشش کی ہے اور تاحال عقیدہ توحید سے لے کر حشرنشر تک ہر عقیدے اور ہر عمل میں اسلام کی مخالفت پہ پورا زور صرف کر رہا ہے آیہ استخلاف پہ حضرت استاذ ٓلمکرم بحرالعلوم علامہ اللہ یار خان (رح) کی تفسیر جو اسی نام سے ہے ” تفسیر آیہ استخلاف “ ضرور دیکھی جائے ۔ اور لوگو اللہ کی عبادت کو قائم کرو یعنی پوری شرائط کے ساتھ ادا کرو اور اسلامی معاشی نظام اختیار کرو ، یہ زکوۃ کی ادائیگی کی تاکید اسی بات کو چاہتی ہے تاکہ اللہ کریم تم پر رحم فرمائے اور دنیاوی رکاوٹیں دور فرما کر تمہیں دنیا میں عزت دے اور باطنی خرابیوں سے بچا کر عاقبت میں سرفراز فرمائے اور کفار کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ زمین پر ہمیشہ ان کا قبضہ رہے گا اور وہ اسلام پر ظالمانہ تسلط قائم رکھ سکیں گے ہرگز نہیں وہ تو خود جہنم کے راہی اور بہت بڑی تباہی سے دوچار ہونے والے اور نہایت دردناک جگہ پہنچنے والے اور غلبہ اسلام کا وعدہ اللہ کا ہے جسے وہ ہرا نہیں سکتے ہاں یہ وعدہ مسلمانوں سے ہے جو عقیدۃ بھی اور عملا بھی مسلمان ہوں ۔
Top