Tafheem-ul-Quran (En) - An-Noor : 51
اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
ایمان والوں کا قول تو یہ ہے، جب وہ بلائے جاتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف کہ (رسول) ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا،105۔ تو ایسے ہی لوگ تو فلاں یاب ہیں
105۔ (اور پھر فورا حضور نبوی میں حاضر بھی ہوجاتے ہیں) یعنی اہل ایمان کے قول پر ان کا عمل گواہ رہتا ہے۔ (آیت) ” الی اللہ “۔ کے معنی کیے گئے ہیں کہ حکم الہی کی طرف۔ معناہ الی حکم اللہ (جصاص) اور فقہاء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ حاکم شریعت جب طلب کرے حاضری ضروری ہوجاتی ہے۔ ھذا الایۃ دلیل علی وجوب اجابۃ الدعوی الی الحاکم لان اللہ تعالیٰ ذم من دعی الی رسول اللہ لیحکم بینہ وبین خصمہ فلم یجب بالقبح المذمۃ (ابن العربی) تاکید لما تقدم ذکرہ من وجوب الاجابۃ الی الحاکم اذا دعوا الیہ وجعل ذلک من صفات ال مومنین (جصاص) اور فقہاء نے اسی معنی میں یہ حدیث نبوی بھی نقل کی ہے۔ من دعی الی سلطان فلم یجب فھو ظالم لاحق لہ (جصاص)
Top