Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 170
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّكُمْ١ؕ وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگ قَدْ جَآءَكُمُ : تمہارے پاس آیا الرَّسُوْلُ : رسول بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاٰمِنُوْا : سو ایمان لاؤ خَيْرًا : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاِنْ : اور اگر تَكْفُرُوْا : تم نہ مانو گے فَاِنَّ : تو بیشک لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے لوگو ! یقیناً تمہارے پاس (یہ) رسول تمہارے پروردگار کے پاس سے آئے ہیں، سچی بات لے کر،425 ۔ پس ایمان لاؤ یہ تمہارے حق میں بہتر ہوگا،426 ۔ اور اگر تم کفر کرتے رہے،427 ۔ تو بیشک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، اور اللہ بڑا علم والا ہے بڑا حکمت والا،428 ۔
425 ۔ (آیت) ” یایھا الناس “۔ خطاب صرف اہل عرب یا اہل مکہ کو نہیں، سارے جہان کو ہے۔ دعوت قرآنی کی عالمگیری کا ایک اور ثبوت۔ ھذا خطاب للکل (قرطبی) خطاب لجمیع المکلفین (روح) ذکر خطابا عاما یعمھم ویعم غیرھم (کبیر) (آیت) ” الحق “۔ اس میں سچے دلائل دونوں آگئے۔ 426 ۔ ایمان لانے اور زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالنے میں نفع تمامتر بندہ کا اپنا ہی ہے۔ حق تعالیٰ کی کوئی غرض اس سے اٹکی ہوئی نہیں ہے، جیسا کہ مشرک قوموں نے اپنے دیوتاؤں کے بارے میں تصور کر رکھا ہے۔ (آیت) ” فامنوا “۔ میںسے اشارہ اس جانب ہے کہ صحیح دعوی اور صحیح دلیل کا مقتضاہی یہ ہے کہ ایمان لے آیاجائے۔ 427 ۔ (سو اس کا ضرر کسی طرح بھی نہیں، ضرر سر تا سر تمہارا ہی ہے) مشرکوں کو یہ حقیقت بار بار یاد لانے کے قابل تھی وہ اپنے دیوی دیوتاؤں کو بھی اپنا ہی جیسا محتاج اور غرض مند تصور کرتے تھے۔ 428 ۔ صفت علیم لا کر یاد دلا دیا کہ ہر ایک کا کفر ایمان اس پر روشن ہے، اس کے حدود سے باہر کوئی چیز نہیں اور صفت حکیم لا کر یہ اشارہ کردیا کہ وہ سزا بھی موقع مناسب ہی پردے گا۔
Top