Tafseer-e-Baghwi - Al-Kahf : 63
قَالَ اَرَءَیْتَ اِذْ اَوَیْنَاۤ اِلَى الصَّخْرَةِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ١٘ وَ مَاۤ اَنْسٰىنِیْهُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗ١ۚ وَ اتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ١ۖۗ عَجَبًا
قَالَ : اس نے کہا اَرَءَيْتَ : کیا آپ نے دیکھا اِذْ : جب اَوَيْنَآ : ہم ٹھہرے اِلَى : طرف۔ پاس الصَّخْرَةِ : پتھر فَاِنِّىْ : تو بیشک میں نَسِيْتُ : بھول گیا الْحُوْتَ : مچھلی وَ : اور مَآ اَنْسٰنِيْهُ : نہیں بھلایا مجھے اِلَّا : مگر الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ اَذْكُرَهٗ : کہ میں اس کا ذکر کروں وَاتَّخَذَ : اور اس نے بنالیا سَبِيْلَهٗ : اپنا راستہ فِي الْبَحْرِ : دریا میں عَجَبًا : عجیب طرح
(اس نے) کہا کہ بھلا آپ نے دیکھا کہ جب ہم نے پتھر کے پاس آرام کیا تھا تو میں مچھلی (وہیں) بھول گیا اور مجھے (آپ سے) اسکا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا اور اس نے عجب طرح سے دریا میں اپنا راستہ لیا
تفسیر (63)” قال “ خادم نے یاد کرکے کہا ” اراء یت اذا اوینا الی الضخرۃ “ وہ پتھر جس کے پاس ہم سوئے ہوئے تھے۔ معقل بن زیادہ کا قول ہے کہ وہ پتھر وہی تھا جو دریائے زیت سے ورے تھے۔ ” فانی نسیت الحوت “ اس کو وہاں چھوڑ دیا اور گم کر آئے۔ حضرت یوشع بن نون نے جب یہ واقعہ دیکھا تو کھڑے ہوگئے تاکہ اس کی خبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتلائیں، وہ اس پر بھول گئے یہاں تک کہ وہ ایک دن رکے رہے حتیٰ کہ دوسرے دن ظہر کا وقت آگیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کھانا طلب فرمایا تو حضرت یوشع بن نون کو مچھلی یاد آگئی اور آپ نے عذر پیش کیا۔ ” وما انسانیہ الا الشیطان ان اذکرہ “ کہ مجھے اس مچھلی کے غائب ہونے کا واقعہ نہیں بھلایا مگر شیطان ہی نے۔ حفص (رح) نے اس کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ” علیہ اللہ “ ھاء کے ضمہ کے ساتھ اور بعض نے کہا کہ مجھے بھلا دیا گیا کہ میں اس کو یاد کروں۔ ” واتخذ سبیلہ فی البحر عجباً “ یہ حضرت یوشع بن نون کا قول ہے کہ وہ کہنے لگے کہ اس مچھلی نے دریا میں راستہ بنالیا۔ جیسا کہ سرنگ بنا لی ہو وہ واقعہ عجیب تھا اور بعض روایات میں آتا ہے کہ اتخذ کی ضمیر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے۔ یعنی مچھی کا سمندر کے اندر اپنا راستہ اختیار کرلینے کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عجیب سمجھا۔ گویا کہ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ تو بہت عجیب ہے۔ ابن زید کا قول ہے کہ انہوں نے اس واقعہ کا تعجب اس لیے کیا کہ اس کو کچھ زمانہ کھاتے رہے۔ یہاں تک کہ اس کا کچھ حصہ کھایا جاچکا تھا کہ وہ پھر سے زندہ ہوکر اس پانی میں چلی گئی۔
Top