Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 48
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِیْمًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَغْفِرُ : نہیں بخشتا اَنْ : کہ يُّشْرَكَ بِهٖ : شریک ٹھہرائے اس کا وَيَغْفِرُ : اور بخشتا ہے مَا : جو دُوْنَ ذٰلِكَ : اس کے سوا لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَمَنْ : ور جو۔ جس يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرایا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدِ افْتَرٰٓى : پس اس نے باندھا اِثْمًا : گناہ عَظِيْمًا : بڑا
خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے اور جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا
(ان اللہ لا یغفر کا شان نزول) (تفسیر) 48۔: (آیت)” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ “۔ اس آیت کا نزول وحشی بن حرب اور اس کے ساتھیوں کے متعلق ہوا ، وحشی نے حضرت حمزہ ؓ کو شہید کردیا ، حضرت حمزہ ؓ کی شہادت پر اس سے آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا ، جب وہ لوٹ کر مکہ پہنچا تو اس کو اور اس کے ساتھیوں کو حضرت حمزہ ؓ کو شہید کرنے پر بڑی پشیمانی ہوئی اور ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو لکھا کہ ہم کو اپنی کی ہوئی حرکت پر پشیمانی ہے اور مسلمان ہونے سے ہم کو صرف یہ امر مانع ہے کہ جب آپ مکہ میں تھے تو کہتے تھے (آیت)” والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر “۔ ہم نے دوسروں کو معبود بھی بنایا ہے اور ناحق قتل بھی کیا ہے اور زنا بھی کیا ہے ، اگر یہ آیات نہ ہوتیں تو ہم آپ کے پیچھے ہوجاتے ، اس پر یہ آیت ” الا من تاب وامن و عمل عملا صالحا “۔ نازل ہوئی ، جب یہ دونوں آیات نازل ہوئیں تو آپ ﷺ نے یہ دونوں آیات وحشی اور اس کے ساتھیوں کو لکھ بھیجیں ۔ ان لوگوں نے پھر حضور ﷺ کو لکھا کہ یہ شرط بہت سخت ہے ہم کو خوف ہے کہ ہم نے نیک عمل کیا ہی نہیں ہوگا ، اس پر یہ آیت (آیت)” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ “۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” ویغفر ما دون ذلک لمن یشائ “۔ نازل ہوئی اور حضور اقدس ﷺ نے یہ آیت لکھ کر ان کو بھیج دی ، اس پر انہوں نے کہا کہ ہم کو اس بات سے خوف و اندیشہ ہے کہ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہوں گے جن کی مغفرت کی مشیت ہوگی ، اس پر یہ آیت ” یاعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم “۔ نازل ہوئی ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت لکھ کر بھیجی جب ان کو یہ آیت پہنچی تو وہ اسلام لے آئے اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ ﷺ نے ان کا اسلام قبول کرلیا پھر وحشی سے فرمایا کہ بتا جو کہ تو نے حضرت حمزہ ؓ کو کس طرح شہید کیا اور اس نے ساری کیفیت بیان کردی ، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا ، تیرا برا ہو ، مجھ سے اپنا چہرہ دور فرما ، چناچہ وحشی شام کو چلے اور مرتے دم تک وہیں رہے ۔ ابو مجلز نے ابن عمر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (آیت)” قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم “۔ تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا شرک کے بارے میں آپ ﷺ کا کیا ارشاد ہے ، آپ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا اس نے پھر دو یا تین بار کھڑے ہو کر وہی سوال کیا تو (آیت)” ان اللہ لا یغفر “۔ نازل ہوئی ۔ ؛ مطرف بن عبداللہ شخیر کا بیان ہے کہ ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کوئی شخص گناہ کبیرہ کی حالت میں بغیر توبہ کیے مرجاتا تو ہم کہتے تھے یہ دوزخی ہوا ، یہاں تک کہ مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔ اس کے بعد ہم کبیرہ گناہ کے دوزخی ہونے کی شہادت دینے سے رک گئے ، حضرت علی ؓ کی روایت منقول ہے کہ قرآن مجید میں سب سے پرامید یہ آیت ہے (آیت)” ویغفر مادون ذلک لمن یشائ “۔ ۔۔۔۔۔۔ ومن یشرک باللہ فقد افتری “۔ افتری کا معنی ہے بگاڑنا ” اثما عظیما “۔ حضرت جابر ؓ کی روایت ہے فرمایا کہ آپ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ کون سی سی دو باتیں واجب کرنے والی ہیں ، فرمایا جو شخص شرک نہ کرنے کی حالت میں مرا وہ جنت میں گیا اور جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا اور وہ اس حالت میں وفات پا گیا تو وہ دودزخ میں جائے گا ،۔ حضرت ابوذر ؓ کی روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ اس وقت سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے، پھر گیا تو آپ بیدار ہوچکے تھے ارشاد فرمایا جو بندہ ” لا الہ الا اللہ “ کا قائل ہو پھر اسی پر مرجائے وہ ضرور جنت میں جائے گا ، میں نے عرض کیا اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو ، فرمایا اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو ، فرمایا اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو ، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو ، فرمایا اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو میں نے (تیسری مرتبہ ) کہ اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو (پھر بھی وہ جنت میں جائے گا) ابوذر ؓ کی ناک خاک آلود ہو ، حضرت ابوذر ؓ جب بھی اس حدیث کو بیان کرتے تو آخری جملہ ضرور ابوذر ؓ کی ناک خاک آلود ہو فرماتے ۔
Top