Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 57
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ١ؕ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا١ؕ وَ اِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰى فَلَنْ یَّهْتَدُوْۤا اِذًا اَبَدًا
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ : اس سے جو ذُكِّرَ : سمجھایا گیا بِاٰيٰتِ : آیتوں سے رَبِّهٖ : اس کا رب فَاَعْرَضَ : تو اس نے منہ پھیرلیا عَنْهَا : اس سے وَنَسِيَ : اور وہ بھول گیا مَا قَدَّمَتْ : جو آگے بھیجا يَدٰهُ : اس کے دونوں ہاتھ اِنَّا جَعَلْنَا : بیشک ہم نے ڈال دئیے عَلٰي قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں پر اَكِنَّةً : پردے اَنْ : کہ يَّفْقَهُوْهُ : وہ اسے سمجھ سکیں وَ : اور فِيْٓ : میں اٰذَانِهِمْ : ان کے کان وَقْرًا : گرانی وَاِنْ : اور اگر تَدْعُهُمْ : تم انہیں بلاؤ اِلَى : طرف الْهُدٰى : ہدایت فَلَنْ : تو وہ ہرگز يَّهْتَدُوْٓا : نہ پائیں ہدایت اِذًا : جب بھی اَبَدًا : کبھی بھی
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ سمجھایا گیا تو اس نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا اور جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اسے وہ بھول گیا۔ (درحقیقت) ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں اس سے کہ وہ اس کو سمجھیں۔ ان کے کانوں میں ایک بوجھ ہے (حق سننے سے بہرے ہیں) اگر آپ ان کو ہدیات کی طرف بلائیں گے تو وہ آپ کے کہنے سے کبھی ہدایت پر نہیں آئیں گے۔
لغات القرآن آیت نمبر 57 تا 59 ذکر یاد دلایا گیا۔ اعرض اس نے منہ پھیر اپنی ۔ نسی وہ بھول گیا۔ قدمت آگے بھیجا۔ اکنۃ پردہ۔ ان یفقھوہ یہ کہ وہ اس کو سمجھے۔ اذا اس وقت۔ کسبوا انہوں نے کمایا۔ عجل اس نے جلدی کی۔ موئل بچنے کی جگہ۔ القریٰ بستیاں مھلک برباد ہونے۔ موعد وقت مقرر۔ تشریح :- آیت نمبر 57 تا 59 واقعی اس سے بڑھ کر زیادتی اور ظلم کیا ہوگا۔ کہ جب ایک خیر خواہ جس کی کوئی ذاتی غرض یا فائدہ نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اللہ کا کلام پورے خلوص سے پیش کر رہا ہے۔ اس کی بات نہ سنی جائے اور نہ اس پر توجہ کی جائے بلکہ اس سے منہ پھیر پھیر کر چلا جائے اور اس کو ایسا بےحقیقت سمجھا جائے کہ اس کو یاد کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمیشہ سے اس کے نبی اور رسول حق و صداقت کا پیغام لے کر آتے رہے ہیں اور اب اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اس سچے پیغام کو لے کر آگئے ہیں اس کے لئے جدوجد ان کے خلوص کا مظہر ہے۔ وہ امت کی خیر خواہی کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں ان کی باتوں اور پیغام حق سے انکار یا منہ پھیرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے اعمال کا نتیجہ ہے جو وہ کرتے رہے ہیں اور جو انہوں نے اپنے اعمال آگے بھیجے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دین اسلام کے سچے اصولوں اور رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ سے دوری اللہ کی توفیق سے محرومی کی علامت ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے کرتوتوں کے سبب ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے دلوں میں سمجھنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہی ہے ورنہ ایسی کھلی حیقت کو سمجھنے کی کوشش ضرور کرتے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں سمجھنے سے ان کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا ہے اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! اب ان کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اگر ان کو راہ راست کی طرف بلایا بھی جائے تو یہ اس کی طرف کبھی نہیں آئیں گے کیونکہ جس سے اللہ تعالیٰ حسن عمل کی توفیق چھین لیتے ہیں تو پھر وہ ہر بھلائی سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ البتہ اگر اس نے سچے دل سے توبہ کرلی تو اس کو پھر سے توفیق مل سکتی ہے اور اس پر مغفرت اور رحمت کے سائے ڈالے جاسکتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ وہ ہر انسان کو اس کے ہر عمل پر فوراً ہی نہیں پکڑ لیتا بلکہ اس کو مہلت اور ڈھیل دی جاتی رہتی ہے۔ اگر اس نے فرصت سے فائدہ اٹھا کر توبہ کرلی تو اس کی خطاؤں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ ورنہ ایک خاص مدت کے بعد تباہ و برباد کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔ تاریخ انسانی اس پر گواہ ہے کہ اللہ نے ہر قوم کو سوچنے اور سمجھنے کی کافی مدت عطا کی تھی لیکن جب انہوں نے اس مہلت اور ڈھیل سے فائدہ نہیں اٹھایا تو ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ۔ ان کی دولت اور دنیا کی ترقیات ان کے کام نہ آسکیں۔
Top