Dure-Mansoor - Al-Kahf : 62
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا١٘ لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا
فَلَمَّا : پھر جب جَاوَزَا : وہ آگے چلے قَالَ : اس نے کہا لِفَتٰىهُ : اپنے شاگرد کو اٰتِنَا : ہمارے پاس لاؤ غَدَآءَنَا : ہمارا صبح کا کھانا لَقَدْ لَقِيْنَا : البتہ ہم نے پائی مِنْ : سے سَفَرِنَا : اپنا سفر هٰذَا : اس نَصَبًا : تکلیف
سو جب وہ آگے بڑھ گئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے جوان سے کہا کہ ہمارے کھانا لاؤ اس میں شک نہیں کہ اس سفر کی وجہ سے ہم کو بڑی تکلیف پہنچ گئی
خضر (علیہ السلام) بھی اولاد آدم میں سے ہیں : 10:۔ دارقطنی نے افراد میں ابن عساکر نے مقاتل بن سلیمان کے طریق سے ضحاک سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ خضر (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور ان کی عمر میں تاخیر کی گئی ہے یہاں تک کہ وہ دجال کی تکذیب کریں گے۔ 11:۔ بخاری، احمد، ترمذی اور ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان کا نام خضر اس لئے رکھا گیا کیونکہ وہ ایک سفید سوکھی زمین پر بیٹھتے تو آپ کے پیچھے سرسبز کھیتی (آپ کی برکت کی وجہ سے) ہوجاتی۔ 12:۔ ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان کا نام خضر اس لئے رکھا گیا کیونکہ آپ ایک سفید سوکھی ہوئی زمین پر نماز پڑھتے تو وہاں سر سبز کھیتی لہلہانے لگتی۔ 13:۔ سعید بن منصور، ابن منذر ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ خضر کو خضر اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ کسی جگہ نماز پڑھتے تو اس کے اردگرد سرسبز ہوجاتی۔ 14:۔ ابن عساکر نے ابن اسحاق (رح) سے روایت کیا کہ ہمارے اصحاب نے ہم کو بیان فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو جب موت حاضر ہوئی اپنے بیتوں کو جمع کرکے فرمایا اے میرے بیٹو ! اللہ تعالیٰ عنقریب زمین پر عذاب نازل کرے گا پس میرا جسم تمہارے ساتھ غار میں ہو یہاں تک کہ جب تم نیچے اترو (کشتی سے) تو مجھے بھیج دینا اور مجھے شام کی زمین میں دفن کردینا آدم (علیہ السلام) کا جسم ان کے بیٹوں کے ساتھ رہا جب اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو بھیجا تو انہوں اس جسم کو ملالیا (مٹی میں) اللہ تعالیٰ نے طوفان کو بھیجا زمین پر تو زمین غرق ہوگئی نوح (علیہ السلام) تشریف لائے یہاں تک کہ بابل میں اترے اور انہوں نے اپنے بیٹوں کو تین باتوں کی نصیحت فرمائی او وہ سام حام اور یافث تھے کہ وہ لے جائیں ان کے جسم کو غار کی طرف جس میں ان کو دفن کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہوں کہا زمین وحشت والی ہے یہاں کوئی انس والا نہیں اور نہ ہم راستہ جانتے ہیں لیکن کچھ دیر ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ لوگ اور بڑھ جائیں نوح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا آدم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی کہ ان کی عمر قیامت تک طویل ہو جو ان کو دفن کرے پس آدم (علیہ السلام) کا جسم اسی طرح رہے گا یہاں تک خضر (علیہ السلام) کو آپ کو دفن کرنے کا فریضہ سونپا گیا اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے وعدہ کو پورا کردیا جو ان سے وعدہ فرمایا تھا پس وہ زندہ رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ وہ زندہ رہیں قیامت تک۔ 15:۔ ابن عساکر نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ خضر (علیہ السلام) کی ماں رومیہ تھی اور ان کے والد فارسی تھے۔ 16:۔ حاکم نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابی ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب موسیٰ (علیہ السلام) خضر (علیہ السلام) سے ملے ایک پرندہ آیا اور اس نے اپنی چونچ کو پانی میں ڈال دیا خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ پرندہ کیا کہتا ہے پوچھا کیا کہتا ہے ؟ فرمایا وہ کہتا ہے کہ تیرا علم اور موسیٰ (علیہ السلام) کا علم اللہ کے علم (کے مقابلے) میں اس پانی کے برابر ہے جو میری چونچ نے پانی لیا ہے۔ 17:۔ بخاری نے تاریخ میں ترمذی، بزار، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، اور حاکم نے (حاکم نے تصحیح اور ترمذی نے تحسین بھی کی) ابودرداء ؓ سے (آیت) ” وکان تحتہ کنزلھما “ کے بارے میں روایت کیا کہ انکے خزانے حلال کردیئے گئے تھے اور ان پر غنیمتوں کو حرام کردیا گیا تھا اور ہمارے لئے غنیمتیں حلال ہیں اور ہم پر خزانے حرام ہیں۔ 18۔ ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور بزار نے ابوذر ؓ سے مرفوع روایت کیا کہ وہ خزانہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا وہ ایک سونے کی تختی تھی جس پر لکھا ہوا تھا مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے تو تھکاوٹ کیسے برداشت کرتا ہے اور مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو آگ کا ذکر کرتا ہے پھر ہنستا ہے اور مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو موت کو یاد کرتا ہے پھر غافل ہوجاتا ہے اور اس تختی پر یہ بھی لکھا ہوا تھا ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “۔ 19:۔ شیرازی نے القاب میں عطاء ابن ابی رباغ سے ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ وہ تختی جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا (آیت) ” وکان تحتہ کنزلھما “ یہ ایک پتھر کی تھی جس میں (یہ عبارت) کھدی ہوئی تھی ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ تعجب ہے اس شخص پر جو یہ دیکھتا ہے دنیا کے دھوکہ کو اور اس کے رہنے والوں کے الٹ پلٹ ہونے کو پھر کس طرح اس کی طرف سے مطمئن ہوجاتا ہے ؟” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “۔ 20:۔ خرائطی نے قمع الحرص میں اور ابن عساکر نے ابو حازم کے طریق سے روایت نقل کی کہ ابن عباس ؓ نے (آیت) ” وکان تحتہ کنزلھما “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایک سونے کی تختی تھی جس میں لکھا ہوا تھا ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ تعجب ہے اس شخص پر جو موت کو پہچانتا ہے پھر کس طرح خوش ہوتا ہے ؟ تعجب ہے اس شخص پر جو آگ کو پہچانتا ہے پھر کس طرح ہنستا ہے ؟ تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا کو اور اس کے رہنے والوں کے الٹ پلٹ کو جانتا ہے پھر کس طرح مطمئن ہوتا ہے ؟ تعجب ہے اس شخص پر جو قضا وقدر کا یقین رکھتا ہے پھر کس طرح رزق کے طلب کرنے میں تکلیف اٹھاتا ہے تعجب ہے اس شخص پر جو حساب پر ایمان لاتا ہے پھر کس طرح گناہ کرتا ہے ؟” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “۔ 21:۔ ابن مردویہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (آیت) ” وکان تحتہ کنزلھما “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایک سونے کی تختی تھی جس میں لکھا ہوا تھا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے پھر کیسے غمگین ہوتا ہے ؟ تعجب ہے اس شخص پر جو موت پر ایمان رکھتا ہے پھر کس طرح خوش رہتا ہے ؟ تعجب ہے اس شخص پر جو رات اور دن کی تبدیلی پر ایمان رکھتا ہے پھر وہ ان کے کبھی ایک حالت اور کبھی دوسری حالت کے لانے سے امن میں ہو۔ 22:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” وکان تحتہ کنزلھما “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ تختی سونے کی تھی نہ کہ چاندی کی اس پر لکھا ہوا تھا۔ 23:۔ بیہقی نے شعب میں علی بن ابی طالب ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” وکان تحتہ کنزلھما “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ ایک سونے کی تختی تھی جس میں لکھا ہوا تھا ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ تعجب ہے اس شخص پر کہ جو یاد کرتا ہے کہ موت حق ہے پھر کس طرح خوش ہے ؟ اور تعجب ہے اس شخص پر جو یاد کرتا ہے کہ آگ حق ہے پھر کس طرح ہنستا ہے ؟ اور تعجب ہے اس شخص پر جو یاد کرتا ہے کہ تقدیر حق ہے پھر کس طرح غمگین ہوتا ہے ؟ اور تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا کو اور دنیا والوں کی حالت کی تبدیلی کو دیکھتا ہے ایک حال سے دوسرے حال کے بعد پھر کس طرح اس طرف سے مطمئن ہوتا ہے۔ 24:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) نے فرمایا (آیت) ” وکان ابوھما صالحا “ (یعنی ان کے والد نیک تھے) کیونکہ وہ شخص امانتوں اور ودیعتوں کو ان کے مالکوں کو سپرد کرتے تھے۔ 25:۔ ابن مبارک، سعید بن منصور، احمد نے زہد میں ابن منذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وکان ابوھما صالحا “ یعنی وہ ان کے باپ کے تقوی اور صلاح کی وجہ سے ان کے مال کی حفاظت کی گئی اور ان دونوں کی اصلاح کا ذکر نہیں کیا (کہ ان دونوں کی اصلاح کی وجہ سے حفاظت کی گئی) 26:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی آدمی کی نیکی وجہ سے اس کی اولاد اور اس کی اولاد کی اولاد اصلاح فرماتے ہیں اور اس کی اولاد اور ارد گرد دوسرے گھروں کی بھی حفاظت فرماتے ہیں اور وہ برابر اللہ کی طرف سے پردے اور عافیت میں رہتے ہیں۔ والد کی نیکی کا فائدہ اولاد کو بھی پہنچتا ہے : 27:۔ ابن مردویہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک نیک آدمی کی نیکی کی وجہ سے اس کی اولاد اور اس کی اولاد کی اولاد اور اس کے اردگرد دوسروں گھروں کی اصلاح فرماتے ہیں وہ برابر اللہ کی حفاظت میں رہتے ہیں جب تک وہ (نیک آدمی) ان میں باقی رہتا ہے۔ ابن المبارک اور ابن ابی شیبہ نے محمد بن المنکدر سے موقوفا اسی طرح روایت کیا۔ 28:۔ احمد نے زہد میں کعب ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ مومن بندے کی طرف سے اس کی اولاد میں اسی سال تک نگرانی فرماتے ہیں۔ 29:۔ بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ خضر (علیہ السلام) نے جب موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ آپ بنی اسرائیل کے نبی ہیں ؟ اور جو آپ کو علم دیا گیا ہے وہ آپ کے لئے کافی نہیں ہے ؟ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ میں آپ کی اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہوں خضر (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” انک لن تستطیع معی صبرا “ اس درمیان کہ جو ان سے مخاطب ہورہے تھے اچانک ایک چڑیا آئی اور دریا کنارے بیٹھ گئی اس نے اس (پانی) میں سے چونچ بھری پھر اڑ کر چلی گئی خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا آپ نے پرندہ کو دیکھا جس نے دریا میں سے پانی لیا ؟ اور فرمایا ہاں ! پھر خضر (علیہ السلام) نے فرمایا جو کچھ میں اور آپ اللہ کے علم سے دیئے گئے ہیں وہ بمنزلہ اس پانی کے ہے جو اس پرندے نے دریا سے لیا ہے۔ 30:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زیدرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لا ابرح حتی ابلغ مجمع البحرین “ (یعنی میں برابر چلا جاوں گا) یہاں تک کہ میں پہنچ جاوں۔ مجمع البحرین سے کون سے جگہ مراد ہے ؟: 31:۔ ابن منذر، عبدالرزاق اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” مجمع البحرین “ سے مراد ہے فارس اور روم کے سمندر ہیں اور وہ دونوں مشرق اور مغرب کے سمندر ہیں۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس سے اسی طرح روایت کیا۔ 32:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” مجمع البحرین “ سے افرایقہ کے سمندر مراد ہیں۔ 33:۔ ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” مجمع البحرین “ سے طنجہ مراد ہے۔ 34:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” مجمع البحرین “ سے الکروالرس مراد ہے جہاں وہ دونوں دریاسمندر میں گرتے ہیں۔ 35:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اوامضی حقبا “ سے مراد ہے ایک زمانے تک۔ 36:۔ ابن ابی شبیہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اوامضی حقبا “ سے مراد ہے ستر سال اور (آیت) ” فلما بلغا مجمع بینھما “ یعنی دوسمندروں کے درمیان (آیت) ” نسیا حوتھما “ یعنی مچھلی کو گم کربیٹھے سمندر میں (آیت) ” فاتخذ سبیلہ فی البحر سربا “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے مچھلی کے نشان سے تعجب فرمایا اور اس کا گھومنا جس میں وہ غائب ہوگئی (آیت) ” فارتدا علی اثارھما قصصا “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے نوجوان کا مچھلی کے نشانات کے پیچھے چلے واپس لوٹتے ہوئے جہاں سے سمندر پھٹ گیا تھا۔ 37:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے (آیت) ” نسیا حوتھما “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ مچھلی نمک لگی ہوئی تھی اس کا پیٹ بھی چاک کیا گیا تھا۔ 38:۔ ابن منذر نے سعید بن جبیر ؓ سے (آیت) ” فاتخذ سبیلہ فی البحر سربا “ کے بارے میں روایت کیا کہ مچھلی جہاں سے گذری وہ جگہ دریا میں خشک تھی گویا کہ وہ پتھر میں ہے۔ 39:۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانی کبھی بھی نہیں پھٹا اور رکا تھا جبکہ لوگ پانی کے گھر سے باہر موجود تھے مچھلی اس میں داخل ہوئی تو پانی کرہ کی مانند پھٹ گیا یہاں تک کہ اس کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) لوٹے تو انہوں نے اس کے رکنے کو دیکھا پھر فرمایا (آیت) ” ذلک ما کنا بنغ، فارتدا علی اثارھما قصصا “ یعنی وہ اپنے نشانات قدم کو تلاش کرتے ہوئے (واپس لوٹے) یہاں تک کہ مچھلی کے داخل ہونے کی جگہ پہنچ گئے۔ 40:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاتخذ سبیلہ فی البحر سربا “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) (واپس) آئے تو اس کے پروں کو مٹی میں دیکھا جبکہ وہ پانی میں واقع ہوئی تھی۔ 41:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے (آیت) ” فاتخذ سبیلہ فی البحر سربا “ کے بارے میں فرمایا کہ مچھلی پہلے کنکریوں والی زمین میں داخل ہوئی جب اس کو اللہ تعالیٰ نے مردہ ہونے کے بعد زندہ فرمادیا پھر اس میں سرنگ کی راستہ بنایا یہاں تک کہ دریا میں پہنچ گئی اور سرب سے مراد ہے راستہ پھر وہ پانی کی طرف پہنچ گئی اور یہ پتھریلی خشکی میں بعد اس کے کہ مچھلی کو لمبی مدت تک کھایا گیا اور یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا توشہ تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو زندہ کردیا۔ 42:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مچھلی کو چیرا اس کو نمک لگایا اور اس میں صبح کو بھی کھایا اور شام کو کو بھی کھایا جب اگلی صبح ہوئی تو فرمایا (آیت) ” قال لفتہ اتنا غدآء نا، لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا “ (یعنی اپنے نوجوان سے فرمایا کہ ہمارے لئے صبح کا کھانا لے آؤ کیونکہ ہم اس سفر سے تھک گئے ہیں) 43:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ابی ؓ کی قرأت میں اس طرح ہے (آیت) ” وما انسنیہ الا الشیطان ان اذکر “۔ 44:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ مچھلی سمندر کے ایسے حصہ میں آئی جس کو زندگی کا چشمہ کہا جاتا ہے جب اس مچھلی کو اس چشمے کا (پانی) پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو روح کو لوٹادیا (اور وہ زندہ ہوگئی) 45:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے (آیت) ” فارتدا علی اثارھما قصصا “ کے بارے میں فرمایا کہا ان کا لوٹنا ان کے شروع کے راستے پر تھا (یعنی اپنے پہلے والے راستہ پر دوبارہ لوٹے) 46:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے فوجدا عبدامن عبادنا “ کے بارے میں فرمایا وہ ایک عالم آدمی سے ملے جن کو خضر کہا جاتا تھا۔ کنگھی کرنے والی عورت اور اس کے بیٹے کی خوشبو : 47:۔ ابن عساکر نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے معراج کی رات میں نے پاکیزہ خوشبو سونگھی میں نے کہا اے جبرائیل (علیہ السلام) یہ پاکیزہ خوشبو کیسی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا ایک کنگھی کرنے والی عورت اس کے بیٹے اور اس کے شوہر کی قبر کی خوشبو ہے اور اس واقعہ کی ابتداء یوں ہے ہوئی کہ خضر (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے عزت والے لوگوں میں سے تھے اور اس کا گذر گرجا گھر کے ایک راہب کے پاس ہوا جو اپنے گرجا میں رہتا تھا راہب انکے پاس آیا اور انہوں نے اس کو سلام کیا اور اس پر (وعدہ) لیا کہ کسی کو یہ نہیں سکھائے گا پھر اس کے باپ نے ایک عورت سے شادی کی اور خضر (علیہ السلام) نے بیوی کو اسلام سکھا دیا اور اس عورت سے وعدہ لیا کہ وہ کسی کو نہیں سکھائے گی خضر (علیہ السلام) عورتوں کے قریب نہ جاتے تھے پھر اس نے دوسری عورت سے شادی کی اور اس کو بھی آپ نے اسلام سکھا دیا اور اس سے بھی وعدہ لیا کہ وہ کسی کو نہ بتائے گی پھر اس نے اس کو طلاق دے دی ان میں ایک نے راز فاش کردیا اور دوسری نے چھپائے رکھا (راز فاش ہونے پر) خضر (علیہ السلام) بھاگ گئے یہاں تک کہ وہ سمندر میں ایک جزیرہ پر آگئے آپ کو دو آدمیوں نے دیکھا ان میں سے ایک نے اس کا معاملہ ظاہر کیا اور دوسرے نے چھپایا اس سے کہا گیا جس نے اس کو تیرے ساتھ دیکھا تھا وہ کون تھا ؟ اس نے کہا فلاں نے اور ان کے دین میں یہ تھا کہ جو جھوٹ بولے اس کو قتل کردیا جائے اس سے پوچھا گیا تو اس نے چھپایا اس کو قتل کردیا گیا جس نے اس پر راز فاش کیا تھا پھر اس پر چھپانے والے نے کنگھی کرنے والی عورت سے نکاح کرلیا اس درمیان کہ وہ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کررہی تھی اچانک کنگھی اس کے ہاتھ سے گرگئی اس عورت نے کہا فرعون ہلاک ہو لڑکی نے اپنے باپ کو اس بات کی خبر دی فرعون نے بلوا بھیجا عورت کو اس کے بیٹوں کو اور اس کے شوہر کو بھی اور فرعون نے انہیں کہا کہ اپنے دین سے ہٹ جاؤ انہوں نے انکار کردیا فرعون نے کہا تم کو قتل کردوں گا انہوں نے اگر تو ہم کو قتل کرے گا تو ایک ہی قبر میں ہم کو دفن کرا دینا اس نے ان کو قتل کردیا اور ان کو ایک ہی قبر میں دفن کردیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے اس سے زیادہ پاکیزہ خوشبو نہیں سونگھی حالانکہ میں جنت میں داخل ہوا تھا۔ 48:۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ ان کو خضر (علیہ السلام) اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ کسی جگہ پر بیٹھتے تھے تو ان کے اردگرد سبزہ ہوجاتا تھا اور ان کا لباس بھی سبز ہوتا تھا۔ 49:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” اتینہ رحمۃ من عندنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم نے ان کو ہدایت اور نبوت عطا فرمائی ہے۔ 50:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ان کا نام خضر اس لئے رکھا گیا کیونکہ جب وہ کسی جگہ میں کھڑے ہوتے تو ان کے پاوں کے نیچے گھاس آتی یہاں تک کہ ان کے قدموں کو ڈھانپ لیتی تھی۔ 51:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے (آیت) ” رکبا فی السفینۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ کشتی کنوئیں کے پانی میں چلتی تھی جو ایک فرسخ لمبی اور ایک فرسخ چوڑی تھی۔ 52:۔ ابن مردویہ نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یوں پڑھا (آیت) ” لیغرق اھلھا “ یاء کے ساتھ۔ 53:۔ عبدالرزاق اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لقد جئت شیئا امرا “ میں امرا کا معنی ہے منکرا یعنی برا کام۔ 54:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” شیئا امرا “ سے مراد ہے براکام۔ 55:۔ عبداللہ بن احمد نے روائد الزہد میں اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” شیئا امرا “ سے مراد ہے عجیب کام۔ 56ـ:۔ ابن ابی حاتم نے ابوالصخر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” شیئا امرا “ سے مراد ہے بڑا کام۔ 57ـ:۔ ابن جریر نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ ’ لا تواخذنی بما نسیت “ سے مراد ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھولے نہیں تھے لیکن یہ کلام معاریض میں سے ہے (یعنی آپ نے توریہ کیا تھا) 58:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے شعیب ابن الحجاب (رح) سے روایت کیا کہ خضر (علیہ السلام) ایسے بندے تھے ان کی آنکھیں نہیں دیکھتی تھیں مگر جس کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتے کہ وہ ان کو دیکھ لے خاص طور پر (وہ انہیں نظر آجاتے ہیں) قوم میں سے کسی نے ان کو نہیں دیکھا مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے اگر قوم ان کو دیکھ لیتی تو وہ انہیں نہ تو کشتی پھاڑنے دیتے اور نہ لڑکے کو قتل کرنے دیتے حماد (رح) نے کہا اور وہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ اس (لڑکے) کو اچانک موت آگئی۔ 59:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن عبدالعزیز (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لقیا غلاما “ کہ وہ لڑکا بیس سال کا تھا۔ 60:۔ ابن مردویہ نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ جب خضر (علیہ السلام) نے لڑکے کو قتل کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) خوف زدہ اور پریشان ہوگئے۔ 61:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” نفسا زکیۃ “ یعنی توبہ کرنے والا نفس۔ 62:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” اقتلت نفسا زکیۃ “ سعید (رح) نے فرمایا زکیہ سے مراد ہے مسلمۃ یعنی مسلمان۔ 63:۔ ابن ابی شیبہ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” نفسا زکیۃ “ سے مراد ہے وہ (بچہ) گناہوں کی حد کو نہ پہنچا تھا۔ 64:۔ ابن ابی حاتم نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” زکیۃ “ یعنی وہ بچہ جو بالغ نہ ہو۔ 65:۔ عبدالرزاق اور ابن منذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” نفسا زکیۃ “ سے مراد ہے ” نائبۃ “ یعنی ایسا بچہ جو بالغ نہ ہو۔ 66ـ:۔ عبداللہ ابن احمد نے زوائد الزہد میں اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لقد جئت شیئا نکرا “ میں ” النکر “ سے مراد ہے تعجب کی وجہ سے۔ 67ـ:۔ احمد نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ نجدہ الحروری نے ابن عباس ؓ کی طرف بچوں کے قتل کے متعلق لکھا تو آپ نے اس کی طرف لکھا اگر تو خضر ہے اور تمیز کرسکتا ہے کافر اور مومن کے درمیان تو پھر ان کو قتل کردو۔
Top