Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
اے مسلمانو ! ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق و ناروا نہ کھاؤ ہاں ! اس صورت میں کھا سکتے ہو کہ آپس کی رضامندی سے ملا جلا کاروبار ہو اور (برابر کی محنت و مشقت) دیکھو اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو اللہ تمہارے لیے رحمت رکھنے والا ہے
مسلمانوں کو ہدایت کہ ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ : 65: گزشتہ آیات میں ہدایات دی تھیں کہ یہ احکام جو تم کو دیئے گئے ہیں ان کا اصل مقصود یہ چار چیزیں تھیں۔ 1: اول یہ کہ فلاح وسعادت کی جس راہ پر تم سے پہلے نیک انسان چل چکے ہیں وہ تم پر بھی کھل جائے۔ 2: دوم یہ کہ احکام معاشر میں سختیاں جکڑ بندیاں نہ ہوں بلکہ سہولتیں اور آسانیاں ہوں۔ 3: سوم یہ کہ جن معاشرتی برائیوں میں تم مبتلا تھے ان سے آئندہ تائب ہوجاؤ اور جان لو کہ جس اندھے کنوئیں میں پہلے گرے ہم اس سے کس طرح بچ سکتے ہیں۔ 4: چہارم یہ کہ افراط وتفریط سے بچو اور نفس پرستی میں بےلگام نہ ہوجاؤ ورنہ وہی کچھ ہوگا جو پہلوں کے ساتھ ہوچکا۔ ان باتوں کے سمجھانے کے بعد اب زیر نظر آیت میں یہ حکم سنایا جا رہا ہے کہ معاشرتی زندگی کی سعادت حاصل نہیں ہو سکتی اگر خاندان کے تمام افراد دیانت دار اور راست باز نہ ہوں اس لئے کہ زیادہ نہیں تو ہم سب مسلمان تو ایک ہی خاندان کے افراد ہیں حالانکہ حق تو یہ ہے کہ ساترے انسان ہی مل کر ایک خانوادہ ہیں۔ فرمایا : اچھا ! آپس میں ایک دو سے کا مل ناجائز طریقوں سے ایک دوسرے کا مال کھانے اور قتل نفس کو حرام ٹھہرایا ہے۔ اور ان دونوں حرمتوں کو ایک ساتھ جمع کردیا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ دراصل یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ مال کی حرص اس کے جائز و ناجائز طریقوں کی تمیز اٹھا دیتی ہے اور پھر یہ بیماری لوگوں کو اس طرح اندھا کردیتی ہے کہ اس کے لے قتل و خون تک نوبت آجاتی ہے۔ سماجی فسادات اور خون ریزوں کے اسباب کا سراغ لگایا جائے تو معلوم ہوگیا کہ حرض مال کو ان میں سب سے زیادہ دخل ہے۔ باطل طریقہ سے مراد لین دین ، کاروبار اور تجارت کے وہ طریقے ہیں جن میں معاملت کے دونوں فریقوں کی حقیقی رضا مندی نہ پائی جاتی ہو بلکہ اس میں ایک کا مفاد محفوظ ہو ، دوسرے کے مفاد کو اس طرح اجاگر کیا جائے کہ دو سے کا مفاد نہ وہنے کے باوجود اس کو نظر آئے کہ اس میں میرا مفاد موجود ہے۔ تجارت کے رنگ میں جو دراصل تجارت بھی نہیں ہے کتنے طریقے ہیں جو اس وقت مسلمان میں رواج پا گئے ہیں۔ جن طریقوں سے دن رات ایک دوسرے کا مال ہڑپ کیا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی سے لے کر یونین کونسلوں تک جو جو صورتیں مال کھانے کی نکالی گئی ہیں کام یہ تجارت ہے آئے دن مال بٹورنے کے جو نئے نئے طرئقے نکالے گئے ہیں کیا یہ تجارت ہے ؟ تعلیمی اداروں سے لے کر مذہبی مدارس تک جو جو طریقے مال کھانے کے اختیار کئے جا رہے ہیں کیا یہ تجارت ہے ؟ عذاب آخرت سے بچانے اور ثواب دلوانے کے مذہبی ٹھیکیدار جن جن طریقوں سے مال کھانے میں مصروف ہیں کیا یہ تجارت ہے ؟ فرض عبادات کی ادائیگی کے لئے جو تنخواہیں ، ہدئے ، تحفے اور فیسیں وصول کی جاتی ہیں کیا یہ تجارت ہے ؟ دم ، درود ، گٹ ، تعویذ ، جھاڑ پھونک ، جنات اور سائے وغیرہ کے مصنوعی طریقوں سے جو مال بٹورا جا رہا ہے کیا تجارت ہے فیصلہ خود فرما لیں لیکن ان ساری چیزوں کا جواز ہم نے قرآن و سنت کی روشنی میں بنا کر تیار رکھا ہوا ہے جو آئے ملاحظ فرما سکتا ہے اور پھر آخر جو کچھ ہوتا ہے فریقین کی رضامندی ہی سے تو ہوتا ہے جو جواز کی سب سے بڑی نشانی ہے یہ ساری فریب کاریاں اور مکاریاں آپس میں ایک دوسرے پر تو چل سکتی ہیں اور چل رہی ہیں لیکن کیا اللہ کے سامنے بھی چل جائیں گی قتل نفس سے ایک مراد تو اس طرح ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا کہ مال کے حصول میں اکثر نوبت یہاں تک پہنچ ہی جاتی ہے کہ قتل جیسے نہایت ہی برے فعل سے بھی بعض اوقات دریغ نہیں کیا جاتا لنک ایک معنی اس کے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لینے کے بھی ہیں کہ ان طریقوں کو اختار کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو اور اس طرح ” نفس “ سے مراد اپنی ذات بھی ہو سکتی ہے اور اس وجہ سے بعض مفسرین نے اس سے مراد خود کشی بھی لی ہے کہ مالی پریشانیوں اور ناجائز طریقوں سے مال اکٹھے کرنے کے نتائج میں بعض اوقات خود کشی کو صورت بھی لوگ اختیار کر جاتے ہیں۔ شریعت کے احکام میں سب سے زیادہ وقعت اسی بات کو دی گئی ہے کہ ایک دو سے کا مل باطل طور پر نہ کھاؤ اس لئے کہ دنیا میں جتنی بدکاریاں موجود ہیں سب کی اصل جڑ یہی ہے۔ مال کی محبت اور حرص ہی انسان سے اور قوموں سے اکثر ظلم کراتی ہے۔ آج کسی سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ قومی زندگی میں یہ سب سے زیادہ ظلم کسی قوم نے مچا رکھا ہے اور کون ہے جو کسی ظالم کو ظالم کہنے کی ہی جرات رکھاتا ہے ؟ اپنے آ ؛ کو مظلوم کہنے والوں کی زبانوں پر بھی تالے پڑگئے کہ وہ اپنے آپ کو مظلوم کہتے ہیں لیکن ظالموں کی طرف اشارہ بھی نہیں کرسکتے کہ انہوں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔ کیوں اس لئے کہ اکثر و بیشتر مظلوم اپنے اوپر خود ہی ظلم کرنے والے ہوتے ہیں۔ پھر سوچ لو کہ کیوں ؟ اس لئے کہ جب غافل اور مفعول دونوں مل جائیں تو دراصل وہ دونوں ہی ظالم ہوتے ہیں اگرچہ بظاہر ایک ظالم نظر آتا ہے اور دوسرا مظلوم۔
Top