Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 189
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ١ؕ قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ١ؕ وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى١ۚ وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَهِلَّةِ : نئے چاند قُلْ : آپ کہ دیں ھِىَ : یہ مَوَاقِيْتُ : (پیمانہ) اوقات لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالْحَجِّ : اور حج وَلَيْسَ : اور نہیں الْبِرُّ : نیکی بِاَنْ : یہ کہ تَاْتُوا : تم آؤ الْبُيُوْتَ : گھر (جمع) مِنْ : سے ظُهُوْرِھَا : ان کی پشت وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنِ : جو اتَّقٰى : پرہیزگاری کرے وَاْتُوا : اور تم آؤ الْبُيُوْتَ : گھر (جمع) مِنْ : سے اَبْوَابِهَا : ان کے دروازوں سے وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : کامیابی حاصل کرو
اے نبی ، لوگ تم سے چاند کی گھٹنی بڑھنی کے متعلق پوچھتے ہیں ، کہو یہ لوگوں کے لئے تاریخوں کی تعین کی اور حج کی علامتیں ہیں ، نیز ان سے کہو کہ یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف داخل ہوتے ہو ۔ نیکی تو اصل یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے ۔ لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو ۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو ، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ “
درس 12 ایک نظر میں سابقہ اسباق کی طرح اس سبق میں امت کو بعض فرائض کی تعلیم دی گئی ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کے بعض قومی اور بعض بین الاقوامی معاملات پر قانون سازی کی گئی ہے ۔ اس سبق میں چاند کی بڑھتی گھٹتی صورتوں کا بیان ہے ۔ گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہونے کا بیان ہے ، جاہلیت میں بعض اوقات لوگ اس رسم کی پابندی کرتے تھے ۔ احکام قتال ، حرام مہینوں میں مسجد حرام کے پاس جنگ اور حج وعمرہ کے اصلاح شدہ احکام ہیں ۔ ترتیب کے ساتھ اور مناسب ترامیم کے ساتھ ۔ ان تمام معاملات سے وہ اجزاء نکال دیئے گئے ہیں جن کا ربط دور جاہلیت سے تھا۔ سابقہ درس کی طرح اس میں بھی بعض احکام ، عقائد ونظریات سے متعلق ہیں اور بعض کا تعلق رسومات و عبادات سے ہے جبکہ بعض احکام کا تعلق جنگ سے ہے ۔ ان سب کو ایک ہی نظم میں پرودیا گیا ہے ۔ یعنی اللہ کا ذکر اور اس کا ڈر یعنی تقویٰ ۔ جہاں حکم دیا جاتا ہے کہ تم گھروں میں پیچھے کی طرف سے نہ داخل ہو ، سیدھے آؤ۔ اس کے ساتھ ہی نیکی کے مفہوم اور تصور کو درست کردیا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ حرکات و سکنات کی ظاہری اشکال کا نام نیکی نہیں ہے ۔ بلکہ بر خدا خوفی کا نام ہے۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (189) ” یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے سے داخل ہوتے ہو۔ نیکی تو اصل یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے ۔ لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے سے آیا کرو ۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ “ حکم دیا جاتا ہے کہ دوران جنگ ظلم اور زیادتی سے بچو۔ لیکن اس سے بچنے کا محرک بھی اللہ سے لگاؤ اور اس کا خوف ہونا چاہئے ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَاللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ مسجد حرام کے قریب جنگ کے حکم میں بھی کہا جاتا ہے۔ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ” اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ ہے جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ “ اب مواقیت حج کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ اس کے دوران میں شہوانی افعال ، بدفعلی اور لڑائی جھگڑے کی ممانعت ہوتی ہے اور نتیجہ وہی تقویٰ ہے ۔ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الألْبَابِ ” سفر حج کے لئے زاد راہ ساتھ لے جاؤ اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیز گاری ہے ۔ پس اے ہوشمندو ! میری نافرمانی سے پرہیز کرو ۔ “ انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا جاتا ہے اور اس میں آخری نتیجہ تقویٰ اور احسان ہے ۔ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ” اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ “ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ” اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔ “ حج کے بعد لوگوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اللہ کی یاد میں مشغول ہوجاؤ ۔ لیکن آخری نصیحت پھر تقویٰوَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ” اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے۔ “ صاف نظر آجاتا ہے کہ یہ تمام اور مختلف النوع احکام ایک مضبوط رسی میں نہایت مضبوطی سے باندھے ہوئے ہیں ۔ یہ رسی اور یہ رابطہ اس دین کے مجموعی مزاج سے وجود میں آتا ہے۔ اس دین کا مزاج یہ ہے کہ اس میں عبادات شعور سے جدا نہیں ہوتیں اور عبادات سے قوانین عامہ اور دنیاوی قواعد و ضوابط جدا نہیں ہوتے ۔ یہ دین اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک دنیاوی امور اور آخرت کے امور کو ساتھ نہ بٹھایا جائے ۔ نظریہ حیات اور قلب ونظر کی دنیا کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی معاملات کو وابستہ نہ کردیا جائے اور جب تک اس دین کو انسان کی پوری زندگی میں جاری وساری اور غالب نہ کردیا جائے اور حالت یہ نہ ہوجائے کہ پوری زندگی مکمل طور پر تصور وحدت کے مطابق چل رہی ہے ، ایک ہی ہم آہنگ نظام اس پر حاوی ہے ایک ہی اور کامل نظام ہے جو اس میں نافذ ہے اور یہ ایسا نظام ہے جو اللہ کی شریعت پر قائم ہے ۔ ایک اکائی ہے اور زندگی کے پورے معاملات کو اپنی حدود میں لئے ہوئے ہے ۔ سورت کے اس حصے کے آغاز ہی میں ہمارے سامنے ایک منظر آتا ہے ۔ اس منظر میں مسلمان زندگی کے مختلف شکلوں کے بارے میں اپنے پیارے نبی کے اسوہ حسنہ کی طرف نظر کرتے ہیں ۔ ایسے حالات کے بارے میں پوچھتے ہیں جو آئے دن زندگی میں انہیں پیش آتے رہتے ہیں ۔ وہ یہ جاننے کے لئے بےتاب نظر آتے ہیں کہ وہ ان معاملات میں ، اپنے جدید تصور حیات کے مطابق کیا طرزعمل اختیار کریں ۔ جوان کے جدید نظام زندگی کے مطابق ہو۔ وہ سب سے پہلے جس چیز کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں وہ مظاہر فطرت ہیں وہ چاند کے بارے میں غور کرتے ہیں کہ اس کی کیا حقیقت ہے ؟ وہ ہلال نظر آتا ہے ۔ پھر وہ بتدریج مکمل ہوجاتا ہے اور پھر گھٹنے لگتا ہے ۔ پھر ہلال ہوجاتا ہے یہاں تک کہ غائب ہوجاتا ہے اور پھر نئے سرے سے ہلال ہوکر نکلتا ہے۔ پھر وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ مال کی کون سی قسم خرچ کریں ؟ وہ کس قدر خرچ کریں ؟ خرچ کس نسبت سے ہو ؟ پھر وہ سوچتے ہیں کہ مسجد حرام کے نزدیک جنگ کرنا کیسا ہے ؟ پھر حرام مہینوں میں جنگ کرنے کا کیا حکم ہے ؟ پھر وہ جوئے اور قمار بازی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ نئے نظام میں کیا حکم ہے ؟ کچھ ہی عرصہ تو پہلے وہ تو سب شراب خور تھے اور جوئے بازی کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہ تھا۔ پھر اچانک عورتوں کے ایام کے سلسلے میں پوچھتے ہیں کیا ان ایام میں تعلقات زن وشوئی جائز ہیں ؟ پھر وہ اپنی بیویوں کے خصوصی تعلقات کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسے سوالات خود بیویوں نے بھی کئے ۔ غرض پورے نظام زندگی کے بارے میں نہ صرف ان کی سوچ بدل جاتی ہے بلکہ طرز عمل بھی بدل جاتا ہے ۔ وہ طہارت اور پاکیزگی میں معراج کمال پر نظر آتے ہیں ۔ یہ سوالات نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور ان سے بیشمار حقائق کا اظہار ہوتا ہے مثلاً : اولاً یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت اجتماعی زندگی کی جو اشکال تھیں اور ان کے درمیان جو ربط ضبط تھا وہ زندہ ، ترقی پذیر اور وسعت پذیر تھا ۔ اسلامی معاشرے کی تشکیل جدید ہورہی تھی ، تشخص قائم ہورہا تھا اور نئی نئی صورتیں پیش کی جارہی تھیں ۔ افراد معاشرہ اپنی اجتماعی زندگی پر پختہ یقین رکھتے تھے ۔ وہ اب بکھرے ہوئے افراد اور متفرق قبائل نہ تھے ۔ اب وہ ایک امت بن چکے تھے ، جس کا الگ وجود تھا ۔ اپنا نظام تھا ۔ اس کی اپنی وضع قطع تھی اور سب افراد اس نظام کے ساتھ پختہ طور پر وابستہ تھے ۔ ہر فرد کے لئے یہ بات اہم تھی کہ وہ زندگی کے پاکیزہ خطوط سے پوری طرح باخبر ہو ، باہمی تعلقات ورابطہ کی نوعیت کے بارے میں خبردار ہو۔ یہ نئی صورت حال دراصل نئے نظریہ حیات ، نئے نظام زندگی اور نئی قیادت کے نتیجے میں پیداہوئی تھی ۔ اور ان کی انسانیت ، ان کا شعور اور ان کی فکر غرض پوری سوسائٹی ہمہ جہت ترقی کررہی تھی۔ اس ہمہ جہت تجسس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی دینی حس کس قدر تیز تھی ۔ اسلامی نظریہ حیات ان کے دلوں میں کس قدر اتر چکا تھا۔ یہ نظریہ ان کی زندگیوں پر یوں چھا گیا تھا کہ وہ روز مرہ کا کوئی کام بھی اس وقت تک نہ کرتے جب تک اس جدید نظریہ حیات کی روشنی میں یہ یقین نہ کرلیتے کہ وہ درست ہے ۔ اس لئے کہ ان سابقہ زندگی کی کوئی بات برقرار نہ تھی ۔ انہوں نے دور جاہلیت کی تمام رسموں اور عادتوں کا جوأ گردن سے اتار پھینکا تھا ۔ اب انہیں قدیم رسومات پر کوئی اعتماد نہ تھا اور زندگی کے ہر کام اور ہر موڑ پر ایک جدید تعلیم کے منتظر تھے ۔ وہ ہر وقت بیدار اور باشعور رہتے تھے اور ان کی یہ شعوری ھالت سچائی پر پختہ عقیدے کی وجہ سے تھی ۔ ان کے نفوس تمام جاہلی عادات اور طور طریقوں سے پاک ہوگئے تھے ۔ وہ جاہلیت کی ہر بات کا بڑی احتیاط سے جائزہ لیتے تھے اور اسے ترک کردیتے تھے ۔ جدید نظریہ حیات سے ہدایات لینے کے لئے وہ ہر وقت تیار رہتے تھے ۔ وہ اپنی نئی زندگی کو خالصتاً اس نئے نظریہ حیات کے مطابق جلد ازجلد استوار کرنے کا عزم کرچکے تھے۔ یہ جدید نظریہ حیات ان کی زندگی کو نئے سانچوں میں ڈھال رہا تھا ۔ قدیم عہد کی جن باتوں کو بدرجہ مجبوری باقی رکھا گیا تھا انہیں بھی وہ جدید رنگ اور تربیت کے ساتھ لیتے تھے ۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر آنے والا نظام قدیم نظام کی جزئیات تک کو ترک کردے ۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ جدید نظام کی بعض مصالح جزئیات کو منتخب کرکے انہیں جدید نظام میں سمو دیتا ہے ۔ وہ اس جدید نظام کا جزو ہوجاتی ہیں ۔ مثلاً حج کے اکثرمناسک ایسے ہیں جنہیں اسلام نے باقی رکھا ہے ۔ اور وہ یوں ہوگئے کہ گویا وہ اسلامی نظام زندگی کے سرچشمے سے پھوٹے ہیں۔ تیسری بات اس دور کی تاریخ سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس دور میں مشرکین مکہ اور یہود مدینہ بار بار ، اسلامی اقدار کے سلسلے میں ، مسلمانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اسلام نے جاہلیت کے رسوم عبادت میں جو ترمیمات کی تھیں یا اس دور میں جو واقعات پیش آئے تھے ان کی وجہ سے یہ عناصر کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے اور اسلام کے خلاف ہر وقت گمراہ کن پروپیگنڈے میں لگے رہتے تھے ۔ مثلاً مشرکین عبداللہ بن حجش کے سریہ کے سلسلے میں سخت اعتراض کرتے تھے ۔ انہوں نے حرام مہینوں میں مشرکین پر حملہ کردیا تھا ۔ اور اس کی وجہ سے بیشمار سوالات پیدا ہوگئے تھے جن کا جواب ضروری تھا۔ اندرونی طور پر قرآن کریم جاہلی تصورات ، جاہلی رسومات اور جاہلی نظام کا ابطال کررہا تھا تو ظاہری طور پر اسلام اور مسلمانوں کے ان دشمنوں کے خلاف اس نے اعلان جنگ کردیا تھا۔ یہ اندرونی اور بیرونی جنگ مسلمانوں کے لئے اب بھی بپا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ انسانی نفس اور انسانی ذہن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ، اسلام کے وہی دشمن آج بھی تیغ بکف ہیں اور قرآن کریم اس وقت جو جواب دے رہا تھا آج بھی وہی جواب دے رہا ہے اور یہ امت آج بھی ، اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتی جب تک حق و باطل کی اس جنگ میں قرآن عظیم کو اپنا رہنما نہیں بناتی ۔ یقیناً قرآن کریم آج بھی وہ کارہائے نمایاں دکھائے گا جو اس نے سینکڑوں سال پہلے دکھائے تھے ۔ جب تک مسلمان اس حقیقت کا یقین اور تسلیم نہ کریں گے اور اس پر عمل نہ کریں گے ، ان کے لئے کوئی نجات نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس دنیا میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ اس حقیقت پر غور کرنے کا ادنیٰ نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ انسان اس تصور اور ادراک کے ساتھ ، اس کتاب کو قبول کرے۔ وہ اس کی طرف اس طرح متوجہ ہو کہ اس کی تعلیمات متحرک صورت میں نظر آئیں ، وہ میدان عمل میں ہو اور ذہن کو ایک جدید تصور حیات دے رہا ہو ۔ جاہلیت کے تصورات کا مقابلہ کررہا ہو ، اس امت کو لغزشوں سے بچارہا ہو اور اس کی مدافعت کررہاہو ، اس حال میں متوجہ نہ ہو ، جس طرح آج ہم اس کی طرف رخ کرتے ہیں ۔ میٹھے نغمے کی طرح ایک اچھے کلام کی صورت میں جو ترتیل سے پڑھا جارہا ہے اور بس ........ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تو قرآن مجید کو ذہنی آسودگی حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ایک عظیمم مقصد کے لئے اتارا تھا ۔ اسے اس لئے اتارا تھا کہ وہ اس کرہ ارض پر ایک پاکیزہ اور مکمل زندگی تخلیق کرے ۔ اسے حرکت دے ۔ راستے کی مصیبتوں ، لغزشوں اور کانتوں کے درمیان سے انسان کی راہنمائی کرکے اسے پرامن منزل تک پہنچائے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کیا گیا تھا ، جیسا کہ ہم پہلے کہہ آئے ہیں ، یعنی چاند کا ظہور اس کا گھٹنا بڑھنا کیونکر ہوتا ہے ؟ بعض روایات میں آتا ہے کہ سوال اس طرح تھا کہ رسول ﷺ چاند کیوں پیدا کیا گیا ہے ؟ سوال کا یہ انداز جواب سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے ۔ اس لئے رسول ﷺ سے کہا گیا کہ اے نبی تم یہ جواب دو : قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ” یہ لوگوں کے لئے تاریخوں کے تعین اور حج کی علامتیں ہیں ۔ “ یعنی حج کا احرام باندھنے کا وقت ، حج سے باہر آنے کا وقت ، روزہ بند کرنے کا وقت ، روزہ کھولنے کا وقت۔ نکاح ، طلاق اور عدت کا وقت ۔ معاملات تجارت اور قرضوں کی ادائیگی کے اوقات وغیرہ ۔ تمام دینی امور میں اور تمام دنیاوی امور میں وقت کا حساب ضروری ہے اور اس لئے چاند کا حساب رکھنا تمام امور میں لابدی ٹھہرا۔ چاہے یہ پہلے سوال کا جواب ہو یا دوسرے کا ، تعلق اس کا بہرحال مسلمانوں کی عملی زندگی کے ایک حقیقی مسئلے سے ہے ۔ محض سائنسی اور علمی مسئلے کا حل یہاں مقصود نہیں ہے۔ قرآن کریم نے بھی انہیں چاند کے دوفائدے گنوادئیے جو ان کی عملی زندگی میں رات دن انہیں نظر بھی آتے تھے لیکن قرآن نے انہیں زمین کی گردش یا چاند کی گردش کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ، حالانکہ سوال کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ سوال یہ تھا : چاند ہلال بند جاتا ہے کیسے ؟ پھر اسی طرح قرآن کریم نے انہیں یہ بھی نہیں بتایا کہ نظام شمسی میں چاندکاکام (Function) کیا ہے یا اجرام سماوی کی گردش میں چاند کا مدار کیا ہے ؟ یہ بات بھی یقینا ً سائل کے سوال میں شامل تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو عملی جواب دیا تھا اس کا راز کیا ہے ۔ قرآن کریم نے سائنسی معلومات کے بجائے محض عملی فوائد کیوں گنوائے ؟ دراصل قرآن کریم کا مقصد نزول یہ تھا کہ انسان کو ایک خاص نظریہ حیات دے ۔ ایک خاص مقام زندگی عطا کرے ۔ اس کے نتیجے میں ایک مخصوص معاشرہ وجود میں آئے۔ قرآن کریم کے پیش نظر اس کرہ ارض پر ایک امت کی تشکیل تھا ، جس نے زمین پر پوری انسانیت کی قیادت کا اہم فریضہ ادا کرنا تھا۔ اس کو تاریخ انسانیت کے اندر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرنی تھی جو تمام گزشتہ انسانی معاشروں میں سبب سے زیادہ بلند ہو ۔ اس کو انسانی زندگی کا ایک ایسا نمونہ پیش کرنا تھا جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہ ہو۔ اس کو طرز زندگی کے بنیادی اصول وضع کرنا تھے اور لوگوں کو ان کی طرف دعوت دینی تھی ۔ قرآن کی زبان میں کیا اللہ تعالیٰ اس سوال کا علمی جواب دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے قرآن ان احکام کا مجموعہ ہے جو انسانی زندگی کو پاکیزہ بنانے اور اللہ پرستی تک لے جانے والے ہیں ۔ یہ علم فلکیات کی کتاب نہیں ہے ۔ اس لئے کوئی علمی جواب تلاش کرنا قرآن کے مزاج اور موضوع سے بیخبر ی کی دلیل ہوگا۔ یو بھی یہ علوم ایک نہج پر نہیں ۔ نظریات بدلتے رہتے ہیں ۔ ان نظریات کو انسانی فہم وادراک تک لانے کے لئے بیشمار معلومات ونظریات کی ضرورت ہوتی رہی ہے ۔ اور اس وقت پوری انسانیت کو جو منبع علم تھا اس کے مطابق یہ علمی جواب ایک معمہ ہی نظرآتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے علمی جواب کو چھوڑدیا ۔ قرآن کریم اپنے مقصد نزول کو اولیت دیتا ہے اور اس فہم میں علم فلکیات کے انداز میں جواب موزوں ہی نہ ہوتا اور اگر یہ علمی جواب ضروری بھی ہوتا تو بھی قرآن کریم جیسی کتاب اس کے لئے موزوں نہ تھی جس کا موضوع سائنس نہیں ہے کیونکہ قرآن بلند تر مقاصد کے لئے نازل ہوا ہے ۔ قرآن مجید کے بعض نادان دوست اس میں علوم جدیدہ تلاش کرتے ہیں جو قرآن کا موضوع ہی نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں کینہ پرور دشمنوں کا خیال یہ ہے کہ قرآن مجید طبیعی علوم کا مخالف ہے ۔ یہ بھی خام خیالی ہے ۔ گوقرآن موضوع مادی علوم نہیں ، لیکن اس کا اعجاز یہ بھی ہے کہ ان علوم کے سرچشمے اس میں تلاش کئے جاسکتے ہیں ۔ یہ دونوں طرف کے خیالات اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ ان کے حامل حضرات نے اس کتاب مقدس کے مزاج کو نہیں سمجھا ۔ اس کے مقاصد اور اس کے دائرہ کار ہی کو یہ حضرات متعین نہیں کرسکے ۔ قرآن کا دائرہ کار بالیقین نفس انسانی اور حیات انسانی کا تزکیہ ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کائنات اور ان موجودات کے سلسلے میں انسان کو ایک ایسا تصور دیا جائے جس کے ذریعے یہ اپنے خالق سے پیوستہ ہوجائیں اور پھر اس تصور کی اساس پر زندگی کا ایک پورانظام تعمیر کیا جائے جس میں انسان آزادی کے ساتھ اپنی پوری قوتوں کو کام میں لائے ۔ ظاہر ہے کہ انسانی قوتوں میں ، ایک قوت ، قوت عقل وادراک بھی ہے اور یہ قوت صحیح طرح کام تب ہی کرسکتی ہے جب اس کرہ ارض پر ایک صالح نظام قائم ہوجائے اور وقت عقلی کو آزادانہ طور پر تحقیقات علمیہ کا موقع دیا جائے اور علمی وسائنسی نتائج اخذ کرنے میں آزادانہ طور ترقی و کمال کے جس مقام تک پہنچنا چاہے پہنچ جائے ۔ لیکن انسان اپنی اس محدود قوت ادراک کے ذریعے میں جس مقام پر بھی پہنچے وہ آخری مقام نہ ہوگا جیسا کہ تجربات سے ظاہر ہے۔ قرآن کا موضوع ” انسان “ ہے۔ انسان کا تصور ونظریہ ، اس کا فہم اور شعور ، اس کا طرز عمل اور کردار ، اس کے تعلقات وباہمی روابط ہے ۔ رہے طبیعی علوم ، انواع و اقسام کی مادی ایجادات ، تو وہ قرآن کے موضوع بحث نہیں ۔ بلکہ یہ عقل انسانی کے لئے موضوع بحث اور مرکز عمل ہیں ۔ یہ عقل انسانی کا کام ہے کہ وہ اس میدان میں نظریات قائم کرے اور نئے نئے انکشافات کرے ۔ کیونکہ عقل انسانی کا فہم و ادراک ہی وہ امتیاز ہے جس کی وجہ سے خلیفۃ اللہ فی الارض کا مقام حاصل ہوا ہے ۔ اور یہ خصوصیت انسان کو اس کی تخلیق کے وقت سے دی گئی ہے ۔ رہا قرآن مجید تو وہ صرف فطرت انسانی کا رہنما ونگہبان ہے ۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ انسان کی فطرت میں فساد واقعہ نہ ہو ، اس نظم میں خلل نہ پڑے جس کے مطابق زندگی بسر کرکے یہ اپنی فطری طاقتوں کو کام میں لائے گا۔ قرآن کریم انسان کو اس کائنات کے بارے میں ایک جامع علم دیتا ہے ۔ یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات کا تعلق اس کے خالق کے ساتھ کیا ہے ؟ اس کے مختلف اجزاء کا (جن میں سے ایک خود انسان بھی ہے ) باہمی تعلق کیا ہے ؟ اس کے بعد قرآن نے انسان کو آزاد چھوڑدیا ہے کہ وہ جزئیات کا ادراک خود کرے اور اپنے منصب خلافت کی کارکردگی میں ان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے جو اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہیں ۔ قرآن کریم ان جزئیات کی تفصیل مہیا نہیں کرتا تو یہ انسان کے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔ مجھے تو قرآن مجید میں ان نام نہاد حامیوں کی سادہ لوحی پر بےاختیار ہنسی آتی ہے ، جو قرآن مجید کی طرف ایسی چیزوں کی نسبت کرتے ہیں جو اس کا حصہ نہیں اور نہ وہ اس کے مقاصد میں شامل ہیں ۔ یہ لوگ قرآن مجید سے علم طب ، علم کیمیا اور علم فلکیات کی جزئیات ثابت کرتے ہیں ۔ کیا ان لوگوں کے نزدیک قرآن مجید کی عظمت ثابت کرنے کے لئے یہی بات رہ گئی ہے ؟ اپنے موضوع کے اعتبار سے بالیقین قرآن کریم ایک عظیم وکامل کتاب ہے اور ان تمام علوم کے مقابلے میں قرآن کا موضوع ایک عظیم الشان موضوع ہے ۔ کیونکہ اس کا موضوع خود انسان ہے ۔ ادراک (جس سے یہ علوم عبارت ہیں ) کا سرچشمہ انسان کی قوت مدرکہ ہے جو انکشافات کرتی ہے اور دنیا میں انسان ان سے جو فائدہ اٹھاتا ہے ۔ تحقیقات وتجربات اور ان سے نتائج کا اخذ کرنا عقل کے خواص ہیں اور عقل خود انسان کا ایک جزء ہے اس کے مقابلے میں قرآن مجید کا موضوع خود انسان کی تشکیل وتکوین ہے ۔ اس کی شخصیت کی تعمیر ، اس کے ضمیر ، اس کی عقل اور اس کی فکر کی تعمیر ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید ایک صالح انسانی معاشرہ کی تعمیر سے بحث کرتا ہے جس میں انسان ان قوتوں کو کام میں لائے جو اللہ تعالیٰ نے نفس انسان میں ودیعت کی ہیں ۔ جب ایک سلیم الطبع انسان صحیح تصور حیات ، صحیح فکر ، پختہ شعور پالیتا ہے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ اسے مل جاتا ہے جس میں وہ آزادی سے کام کرتا ہے تو پھر قرآن مجید اسے آزاد چھوڑ دیتا ہے تاکہ سائنس اور دوسرے علوم کے میدان میں وہ تحقیقات اور تجربے کرے ۔ قرآن صرف صحیح فکر ، صحیح شعور اور صحیح تصور حیات کے معیار مقرر کردیتا ہے اور بس۔ قرآن کریم بعض اوقات اس کا ئنات کے وجود کے بارے میں اور اس کے اجرام کے باہمی ربط اور پھر کائنات اور اس کے خالق کے درمیان ربط کے بارے میں صحیح فکر دینے کے لئے کچھ آخری حقائق بیان کرتا ہے ۔ یہ وہ حقائق ہوتے ہیں جن پر علم طبیعات جاکر ختم ہوجاتا ہے ، لہٰذا ان حقائق کے ساتھ ہمیں عقل انسانی کے ان مفروضات کو نہیں ملانا چاہئے جو انسانی نظریات ہیں اور جنہیں عوام سائنسی حقائق کہتے ہیں ۔ اور جن تک انسان ان تجربات کے نتیجے میں پہنچا ہے اور جنہیں وہ قطعی اور آخری حقائق سمجھتا ہے ، اس لئے قرآن کریم جن حقائق کا ذکر کرتا ہے وہ قطعی اور انتہائی ہیں ۔ لیکن وہ حقائق جن تک انسان بذریعہ عقل و تجربہ پہنچتا ہے ۔ وہ آخری اور قطعی ہرگز نہیں ہوتے ۔ وہ انسان کے تجربات ، میسر آلات کے ذریعہ سے حاصل ہوتے ہیں اور آلات کی قوت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ، لہٰذا یہ حقائق فہم انسانی اور اس کو میسر آلات کی قوت کی حد تک ہی ہوسکتے ہیں ۔ خود انسانی تحقیقات اور تجربات کے جو مسلم اصول ہیں ان کے مطابق بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کے انسان کی دریافت کردہ حقائق ، قرآن کریم کے بیان کردہ حقائق کے مقابلے میں معیار صحت ہوسکتے ہیں ، کیونکہ یہ حقائق علم بشری کے حدود تک ہیں ۔ (اور قرآنی حقائق علم بشری سے ماوریٰ ہیں) یہ تو تھی بات سائنسی تجربات کی ۔ رہے وہ نظریات یا مفروضات جنہیں سائنسی اور علمی کہا جاتا ہے ۔ مثلاً فلکیات کے بارے میں نظریات ، انسان کی تخلیق اور ترقی کے بارے میں نظریات ، انسان کی نفسیات اور اس کے طرز عمل کے بارے میں نظریات ، انسانی معاشرے اور اس کی ترقی کے بارے میں نظریات ، یہ سب نظریات معروضی ہیں اور انسانی قیاس اور گمان پر مبنی ہیں ۔ انہیں کسی مفہوم میں بھی سائنسی حقائق نہیں کہا جاسکتا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نظریات ، اس کائنات کے مظاہر ، انسانی زندگی ، انسانی نفسیات اور انسانی معاشرے کی تفسیر وتشریح ہیں اور ان کی اصلیت یہ ہے کہ ایک نظریے کی جگہ دوسرا نظریہ لیتا چلا آرہا ہے ۔ ان کا اعتبار اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک دوسرا نظریہ اس کی جگہ نہیں لے لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مفروضات اور یہ نظریات ہمیشہ تغیر اور تبدل کے قابل ہوتے ہیں اور ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ بعض اوقات تو وہ یکلخت الٹ ہوجاتے ہیں ، اس لئے کہ بعض اوقات انسان تجربات اور ملاحظہ کا کوئی جدید اور زیادہ طاقتور آلہ دریافت کرلیتا ہے ۔ یا بعض اوقات جب انسان ان تمام مشاہدات کو اکٹھا کرتا ہے اور ان پر مجموعی حیثیت سے غور کرتا ہے تو وہ ایک جدید نظریہ اور مفروضہ قائم کرلیتا ہے ۔ وہ کوشش اور تفسیر ، جو ان عام قرآنی اشارات کو سائنس کے متغیر ومعتبدل نظریات سے وابستہ کرتی ہے ، یا ان سائنسی حقائق سے وابستہ کرتی ہے جو بذات خود آخری اور قطعی نہیں ہیں تو ایسا نتیجہ مرتب نہیں ہوتا جسے قطعی کہا جاسکے ۔ یہ کوشش ایک تو خود سائنس کے منہاج بحث وتحقیق کے خلاف ہے ۔ دوسرے یہ کہ ایسی کسی کوشش کے فوائد ومقاصد صرف تین ہوسکتے ہیں اور تینوں ایسے ہیں جو قرآن مجید کے شان جلالت اور علو مرتبت کے منافی ہیں ۔ 1۔ یہ ایک قسم کی اندرونی اور ذہنی شکست خوردگی ہے جو لوگ اس ذہنی مرعوبیت کا شکار ہوتے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید سائنس قرآن مجید پر غالب ہے اور اس سے برتر درجہ رکھتی ہے ۔ یہ قرآن مجید کی تفسیر وتشریح میں سائنس کے اکتشافات بیان کرتے ہیں ۔ حالانکہ قرآن مجید خود اپنے موضوع پر ایک مکمل کتاب ہے ۔ اور اس نے جو حقائق بیان کئے ہیں وہ آخری حقائق ہیں ، جبکہ سائنس کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے موضوع کے ہر دائرے میں ناقص ہے ۔ وہ آج جس حقیقت کو ثابت کررہی ہے ، کل خود اس کی تردید کردیتی ہے ۔ سائنس کی رسائی جہاں تک بھی ہو ، وہ آخری اور مطلق نہیں کہلاسکتی ۔ سائنس کی ہر دریافت ، انسانی قوات ، اس کے عقلی ادراکات اور اس کے آلات معاونہ کے حدود وقیود کے ساتھ مقید ہوتی ہے اور یہ سب ادوات وآلات ایسے ہیں جو اپنے مزاج وساخت کے اعتبار سے کوئی ایک آخری اور مطلق حقیقت کو گرفت میں نہیں لاسکتے ۔ 2۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ ایسے حضرات نے سرے سے قرآن مجید کے مزاج اور اس کے مقاصد ہی کو نہیں سمجھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید آخری اور مطلق حقائق کا مجموعہ ہے اور وہ انسان کی تعمیر وتربیت بعینہ ایسے انداز میں کرنا چاہتا ہے جو نوامیس فطرت اور اس کائنات کے مزاج کے خلاف نہ ہو اور جہاں تک انسانی مزاج اس کا متحمل ہو۔ یہ اس لئے کہ انسان اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے درمیان کوئی تصادم نہ ہو ، بلکہ انسان اس کائنات کے راز معلوم کرے ، قوانین فطرت دریافت کرے اور انہیں اپنے منصب خلافت فی الارض کے فرائض سر انجام دینے میں استعمال کرے ۔ ان قوانین فطرت کو جو مکمل فکر ونظر ، تحقیق وتطبیق اور عمل و تجربہ کے نتیجے میں خود اس نے حاصل کئے ہوں ۔ یہ نہ ہو کہ اسے کوئی تیار علوم دے دے اور وہ انہیں من وعن تسلیم کرلے۔ 3۔ تیسری قباحت یہ ہے کہ ان حضرات کو بڑے ہی تکلف اور چالاکی کے ساتھ ، آیات قرآنی میں مسلسل تاویل کرنی پڑتی ہے۔ اور یہ حضرات ان آیات کو اٹھائے ہوئے ، بےآبروئی کے ساتھ ان سائنسی نظریات اور مفروضات کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں ، جنہیں کوئی ثبات وقرار حاصل نہیں ہے ۔ ان نظریات کے شب وروز میں تو ہر شب تاریک تر ہوتی جارہی ہے اور ہر دن ایک نیا نظریہ لے کر آتا ہے جو سابق نظریہ کو باطل کردیتا ہے ۔ کیا ہم بھی سابق تفاسیر کو باطل کرتے چلے جائیں ؟ جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں ، یہ انداز فکر ، نہ صرف یہ ہے کہ قرآن عظیم کی شان و عظمت و جلالت کے خلاف ہے ، بلکہ خود سائنس کے منہاج تحقیق و تجربہ کے بھی خلاف ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ سائنس نے اس کائنات ، نسل انسانی اور زندگی کے بارے میں جو حقائق ونطریات پیش کئے ہیں یا مسلسل دریافت ہورہے ہیں ، ہم قرآن مجید کے فہم وادراک میں ان سے کام نہ لیں اور انہیں بالکل نظر انداز کردیں ۔ ہرگز نہیں ۔ ہماری مراد یہ نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں خود فرماتے ہیں : سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ(53) ” عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی ، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ “ اس آیت کا مقتضا یہ ہے کہ ہم نفس انسانی اور آفاق کے متعلق سائنس کی فراہم کردہ تازہ بتازہ معلومات پر مسلسل غور وفکر کرتے رہیں اور اپنی اس محدود قوت مدرکہ اور دائرہ تصور میں ، قرآنی مدلولات ومفاہیم کا دائرہ وسیع کرتے چلے جائیں۔ یہ کیسے ؟ اور پھر بغء یر اس قباحت کے قرآن مجید کے مطلق اور آخری مطالب کو ان سائنسی اکتشافات سے وابستہ بھی نہ کریں جو آخری نہیں ہیں جو مطلق نہیں ہیں ، اضافی ہیں ۔ یہاں ایک مثال مفید طلب ہے : قرآن کریم میں ہے وَخَلَقَ کُلَّ شَئٍ فَقَدَّرَہُ تَقدِیرًا ” اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ، پورے پورے اندازے سے ۔ “ جب سائنس نے ترقی کی تو معلوم ہوا کہ اس کرہ ارض پر بعض نہایت ہی پنہاں سہولتیں ہیں ، بعض نہایت ہی دقیق ہم آہنگیاں ہیں ۔ یہ کرہ ارض ، اپنی اس مخصوص ہیئت کے ساتھ ، سورج سے اس مخصوص فاصلے پر ، چاند سے ایک متعین بعد پر ، سورج اور چاند کے مقابلے میں ایک حساس حجم لئے ہوئے ، اس قدر تیزی سے رواں دواں ، اپنے محور کے گرد ایک خاص انداز میں جھکا ہوا ، اس موجودہ پانی اور سطح کے ساتھ اور ان کے علاوہ اپنی ہزاروں دوسری خصوصیات کے ساتھ ، صرف یہ کرہ ارض ہی اس قابل ہے کہ یہاں زندگی اور زندگی کے دوسرے ملحقات قائم رہ سکتے ہیں ۔ ان حقائق میں سے کوئی بھی عارضی انتظام نہیں ہے ۔ نہ ہی یہ کام بغیر کسی منصوبے کے یوں اتفاقاً ہورہا ہے ۔ ان حقائق کا سائنٹیفک مطالعہ قرآن مجید کی اس آیت میں کس قدر وسعت پیدا کردیتا ہے : وَخَلَقَ کُلَّ شَئٍ فَقَدَّرَہُ تَقدِیرًا ذرا سوچئے اکتشافات جدیدہ نے اس آیت کے مفہوم کو کیا وسعت دے دی ہے ۔ پوری سائنس آیت کی تفسیر ہوگئی ، لہٰذا قدرت کی مزید کاریگری معلوم کیجئے اور یوں آیت کے مفہوم کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جائیے۔ قرآن کریم میں ہے خَلَقَ الاِنسَانَ مِن سُلٰلَةٍ مِّن طِینٍ ” اس نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ۔ “ صدیوں بعد والاس اور ڈارون نظریہ ارتقا پیش کرتے ہیں ۔ وہ فرض کرتے ہیں کہ زندگی کا آغاز ایک خلیہ سے ہوا ۔ اس خلیہ نے پانی میں نشوونما پائی ۔ وہ خلیہ ارتقا کی منزلیں طے کرتے کرتے موجودہ انسان پر منتج ہوا۔ ضرورت تھی کہ اس نظریئے کو علمی معیار پر پرکھا جاتا ، لیکن ہم دوڑے قرآن مجید کو اٹھاتے ہوئے ، نہایت بےآبروئی کے ساتھ اس نظریہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا بلکہ اسے قرآن کی تفسیر بنادیا۔ اول تو یہ نظریہ کوئی آخری نظریہ نہیں ہے ۔ ابھی ایک صدی بھی نہیں گزری کہ اس میں بیشمار رتبدیلیاں رونما ہوگئیں ۔ قریب ہے کہ سرے سے پورا نظریہ ہی ختم ہوجائے ۔ کیونکہ یہ ناقص معلومات پر مبنی تھا اور اس کی کمزوریاں ظاہر بھی ہوچکی ہیں ۔ مثلاً حیوانات کے ہر نوع کے کچھ موروثی خصائص ہوتے ہیں اور ہر نوع کی مروثی اکائیان ان کا تحفظ کرتی ہیں ۔ یہ ایک نوع کو دوسرے نوع کی طرف منتقل ہونے ہی نہیں دیتیں ۔ یہ ایک ایسا نقص ہے جس کے ذریعہ سرے سے یہ نظریہ ہی ختم ہوسکتا ہے اور آج نہیں تو کل یہ نظریہ ختم ہوگا۔ جبکہ قرآن مجید آخری حقائق پر مشتمل ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ قرآن مجید کا مفہوم یہی ہو جو نظریہ ارتقاء نے پیش کیا ۔ قرآن نے تو صرف انسانی کی اصلی تخلیق کا تذکرہ کیا ہے ، انسان کی نشوونما کی تفصیلات کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اصل تحقیق ایک آخری حقیقت ہے ۔ وہ آخری نقطہ جہاں سے وجود انسان کا آغاز ہوا بس یہی آیت کا مفہوم ہے ۔ اس کی مزید تفصیلات کیا تھیں ان کا ذکر یہاں نہیں ہے ۔ قرآن مجید نے کہا وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا (یٰس : 38) ” اور سورج ، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے ۔ “ اس آیت میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ سورج چلتا ہے ۔ سائنس کی دریافت ہے کہ سورج اپنے اردگرد کے تاروں کی نسبت سے تو 12 میل کی سیکنڈ کی رفتار سے چلتا ہے ۔ لیکن وہ اپنی کہکشاں کو لئے ہوئے ، جس کا وہ خود بھی ایک ستارہ ہے ، 170 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلا جارہا ہے ، لیکن سائنس کی یہ معلومات بھی قرآن مجید کی اس کا آیت عین مدلول نہیں ہیں ۔ کیونکہ سائنس نے ابھی تک جو کچھ دریافت کیا ہے وہ نسبتی ہے ۔ آخری علم یا حقیقت نہیں ۔ اس میں تبدیلی ہوسکتی ہے ۔ رہی آیت تو اس میں اس آخری حقیقت کا اظہار ہوا ہے کہ سورج چلا جارہا ہے۔ بس ہم اس رفتار کو کسی سائنسی رفتار سے وابستہ نہیں کرسکتے جو بذات خود متبدل ہے ۔ ایک دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے : اَوَلَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنَاھُمَا ” کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبی کی بات ماننے سے ) انکار کردیا غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے ، پھر ہم نے انہیں جدا کیا۔ “ سائنس ایک نظریہ پیش کرتی ہے ۔” یہ کہ کرہ ٔ ارض سورج کا ایک حصہ تھا ، جو اس سے جدا ہو “ اور ہم بھاگے ، سانس پھولا ہوا ، زبان نکلی ہوئی ۔ ہم نے کوشش کی کہ اس نظریہ کو اٹھالیں اور قرآن مجید کی آیت کو لے جاکر اس سے ملادیا ۔ اور کہنے لگے بس یہی تو ہے جس کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے ۔ ہرگز نہیں ، یہ ہمارا مقصد کبھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سائنس کا یہ تو کوئی آخری نظریہ نہیں ہے ۔ زمین کی طبیعاتی تشکیل کے لئے کئی سائنسی نظریات موجود ہیں ۔ کئی ہوسکتے ہیں رہا قرآن مجید تو اس نے فقط یہ کہا ہے اور جو آخری حقیقت ہے کہ زمین آسمان سے جدا ہوئی ہے اور بس ۔ وہ کیسے جدا ہوئی ؟ آسمانوں کے کس حصے سے جدا ہوئی ؟ ان تفصیلات کا ذکر آیت نے نہیں کیا ہے ، لہٰذا اس موضوع پر سائنس جو نظریہ پیش کرے ، جس مفروضے پر چاہے بحث کرے ، ہم یہ نہیں کرسکتے کہ آیت کا مفہوم سائنس کے موجودہ نظریئے کے مطابق ہے اور یہی آخری ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت کی مناسبت سے یہاں یہ تفصیل کافی ہے ۔ یہاں ہمارا مقصد صرف یہ تھا کہ سائنس کے انکشافات کو آیت کے فہم اور آیات کے مفہوم میں وسعت اور عمق پیدا کرنے کے لئے کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ بغیر اس قباحت کے کہ ہم کس آیت کو سائنس کے کسی نظریہ کے ساتھ وابستہ کردیں اور وہ بھی اس طرح کہ دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے ، دونوں کو ایک دوسرے کا مصداق گردانا جائے ۔ ہمارا مقصد صرف یہ تھا کہ ان دونوں صورتوں میں فرق کرلیا جائے۔ اب ہم قرآن کی اصل عبارت کی طرف لوٹتے ہیں : وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ” نیز ان سے کہو ! یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہو۔ نیکی تو دراصل یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضگی سے بچے ۔ لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ “ آیت کے دونوں حصوں کے درمیان ربط یہ ہے کہ پہلے حصے میں بیان کیا گیا کہ چاند کی بڑھتی گھٹتی شکلیں اوقات مناسک حج کے تعین کی خاطر ہیں اور دوسرے حصے میں دو رجاہلیت کی اس رسم کی اصلاح کردی گئی جو ایام حج سے وابستہ تھی ۔ (بخاری ومسلم میں حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں : انصار کا رواج یہ تھا کہ جب وہ حج کرنے جاتے تو واپسی کے وقت گھروں میں دروازوں کی جانب سے داخل نہ ہوتے ۔ ایک بار ان کا ایک آدمی آیا وہ سیدھا دروازے کی طرف سے داخل ہوگیا ۔ لوگوں نے اسے ملامت کی ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،” یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہو ، نیکی تو دراصل یہ ہے کہ آدمی ، اللہ کی ناراضی سے بچے لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے میں سے آیا کرو۔ “ ابوداؤد نے شعبہ بن اسحاق ؓ اور براء بن عازب ؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ :” انصار جب کسی بھی سفر سے لوٹتے تو دروازے کی جانب سے داخل نہ ہوتے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ “ یہ رسم چاہے ہر سفر کے موقع پر ہو یا صرف حج میں ہو (سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حج میں تھی) بہرحال ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ نیکی کا کوئی کام ہے ۔ ایمان کا جزء ہے ۔ قرآن کریم نے اس باطل تصور کو ختم کردیا کیونکہ یہ ایک فضول حرکت تھی ۔ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہ تھی ۔ نہ اس میں کوئی دنیاوی فائدہ تھا ۔ قرآن کریم نے نیکی کا صحیح تصور دے دیا کہ نیکی خدا خوفی کا نام ہے ۔ ظاہر و باطن میں اللہ کی نگرانی اور اس کے وجود کا پختہ شعور ہی نیکی ہے ۔ وہ کسی ایسی ظاہری شکل کا نام نہیں ہے ، جس کے پس منظر میں کوئی ایمانی شعور کارفرما نہ ہو ، بلکہ محض ایک رسم جاہلیت ہی ہو۔ حکم دیا گیا کہ دور جہالت کی رسم و رواج ترک کرکے گھروں میں دروازے سے داخل ہوا کرو اور پھر اشارہ کیا کہ تقویٰ ہی راہ نجات ہے ۔ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ” لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو ۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ “ یوں دلوں کو اصلی ایمانی حقیقت سے مربوط کردیا گیا ۔ یعنی تقویٰ کو ، دنیا وآخرت کی فلاح و بہبود سے جوڑا گیا۔ اور جاہلیت کی اس رسم کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا جس کے پس منظر میں کوئی ایمانی جذبہ نہ تھا اور مومنین کو متوجہ کردیا گیا کہ اللہ کی اس نعمت کو سمجھنے کی کوشش کریں جو اللہ نے چاند کی شکل میں ، ان کے اوقات اور مناسک حج کے تعین کے لئے فراہم کی گئی ہے ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے صرف ایک آیت میں ایسے اہم مضامین بیان فرمادیئے۔ اب جنگ کی عمومی بحث شروع ہوجاتی ہے ۔ پھر مخصوص طور پر مسجد حرام کے ساتھ ، ، حرم اور ممنوعہ مہینوں میں جنگ کے بارے میں احکام آتے ہیں ۔ انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت بھی دی جاتی ہے جو جہاد و قتال کے ساتھ گہرا ربط رکھتا ہے ۔ فرمایا :
Top