Al-Qurtubi - Al-Baqara : 189
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ١ؕ قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ١ؕ وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى١ۚ وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَهِلَّةِ : نئے چاند قُلْ : آپ کہ دیں ھِىَ : یہ مَوَاقِيْتُ : (پیمانہ) اوقات لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالْحَجِّ : اور حج وَلَيْسَ : اور نہیں الْبِرُّ : نیکی بِاَنْ : یہ کہ تَاْتُوا : تم آؤ الْبُيُوْتَ : گھر (جمع) مِنْ : سے ظُهُوْرِھَا : ان کی پشت وَلٰكِنَّ : اور لیکن الْبِرَّ : نیکی مَنِ : جو اتَّقٰى : پرہیزگاری کرے وَاْتُوا : اور تم آؤ الْبُيُوْتَ : گھر (جمع) مِنْ : سے اَبْوَابِهَا : ان کے دروازوں سے وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : کامیابی حاصل کرو
(اے محمد ﷺ لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے اور نیکی اس بات میں نہیں کہ (احرام کی حالت میں) گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ بلکہ نیکو کار وہ ہے جو پرہیزگار ہو اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ نجات پاؤ
آیت نمبر 189 اس میں بارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یسئلونک عن الاھلۃ یہ ان سوالوں میں سے ہے جو یہود نے پوچھے تھے اور انہوں نے اس کے ساتھ نبی کریم ﷺ پر اعتراض کیا تھا۔ حضرت معاذ نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ یہود ہم پر غالب آگئے وہ ہم سے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ چاند کو کیا ہے کہ یہ باریک سا ظاہر ہوتا ہے پھر بڑھتا جاتا ہے حتیٰ کہ برابر اور گول ہوجاتا ہے پھر گھٹنا شروع ہوجاتا ہے حتیٰ کہ پہلی حالت پر ہوجاتا ہے ؟ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کے نزول کا سبب مسلمان قوم کا نبی کریم ﷺ سے چاند کے متعلق سوال تھا۔ اس چاند کے آخری راتوں میں چھپنے، اس کے مکمل ہونے اور سورج کی حالت سے محتلف ہونے کا سبب کیا ہے۔ یہ حضرت ابن عباس، قتادہ اور ربیع وغیرہ کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : عن الاھلۃ، اھلہ جمع ہے ھلال کی۔ اس کو جمع ذکر کیا گیا ہے حالانکہ چاند حقیقت میں ایک ہے اس حقیقت سے کہ ایک مہینہ میں ایک ہوتا ہے اور دوسرے مہینہ میں دوسرا ہوتا ہے۔ مہینہ کے تمام احوال چاندوں سے ہوتے ہیں اور اھلہ سے مراد مہنیے ہیں، کبھی شھر سے چاند مراد ہوتا ہے کیونکہ چاند مہینہ میں وارد ہوتا ہے۔ جیسے شاعر نے کہا : اخوان من نجد علی ثقۃ والشھر مثل قلامۃ الظفر اس شعر میں شھر سے مراد چاند ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : چاند کو شھر اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رؤیت کی جگہ کی طرف اشارہ کرکے اس کو شہرت دیتے ہیں اور اس پر دلالت کرتے ہیں اور ھلال کے لفظ کا اطلاق مہینہ کی آخری دو راتوں اور آغاز کی دو راتوں پر بھی ہوتا ہے۔ بعض نے کہا : پہلی تین راتوں کو کہا جاتا ہے۔ اصمعی نے کہا : ہلال وہ ہوتا ہے جو باریک دھاگے کی طرح گول ہوتا ہے۔ بعض نے کہا : ہلال وہ ہوتا ہے جو اپنی روشنی کے ساتھ آسمان کو روشن کرتا ہے اور یہ ساتویں کی رات میں ہوتا ہے۔ ابوالعباس نے کہا : چاند کو ہلال اس لئے کہا جاتا ہے کہ لوگ اس کے متعلق خبر دینے کے لئے اپنی آوازوں کو بلند کرتے ہیں۔ اسی سے استھل الصبی ہے جب بچے کے چیخنے کے ساتھ اس کی زندگی ظاہر ہو۔ استھل وجھہ فرحاً وتھلل جب اس میں سرورظاہر ہو۔ ابوکبیر نے کہا : واذا نظرت الی اسرۃ وجھہ برقت کبرق العارض المتھلل کہا جاتا ہے : اھللنا الھلال جب ہم مہینہ میں داخل ہوں، جوہری نے کہا : اھل الھلال واستھل۔ مجہول کا صیغہ استعمال ہوتا ہے بمعنی تبین (ظاہر ہونا) بھی بولا جاتا ہے۔ اھل نہیں کہا جاتا، کہا جاتا ہے : اھللناعن لیلۃ کذا اور اھللناہ فھل نہیں کہا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے : ہم نے اسے داخل کیا ہے وہ داخل ہوگیا۔ یہ اس کا قول ہے۔ ابونصر عبدالرحیم القشیری نے اپنی تفسیر میں کہا ہے : اھل الھلام واستھل واھللناالھلال واستھللنا۔ مسئلہ نمبر 3: ہمارے علماء نے فرمایا : جس نے قسم اٹھائی کہ وہ قرضہ ادا کرے گا یا ایسا کرے گا فی الھلال اور رأس الھلال اوعند الھلال ۔ پھر اس نے وہ کام چاند دیکھنے کے دو دن بعد کیا یا ایک دن بعد کیا تو وہ حانث نہیں ہوگا۔ اور تمام مہینے تمام عبادات و معاملات کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل ھی مواقیت للناس والحج اس آیت میں چاند کے بڑھنے اور کم ہونے کی حکمت بیان ہو رہی ہے مدتوں، معاملات، قسموں، حج، تعداد، روزہ، عید، مدت حمل، اجارات، کر ایوں کے علاوہ دوسرے بندوں کی مصلحتوں سے اشکال کو دور کرنے کے لئے یہ گھٹتا اور بڑھتا ہے اس کی مثال اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات ہیں : وجعلنا الیل و النھار اٰیتین فمحونآ اٰیۃ الیل وجعلنا اٰیۃ النھار مبصرۃً لتبتغوا فضلاً من ربکم ولتعلموا عدد السنین والحساب (الاسراء :12) اس آیت کی وضاحت آگے آئے گی اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھو الذی جعل الشمس ضیآءً والقمر نورًا وقدرہ منازل لتعلمواعدد السنین والحساب (یونس :5) چاندوں کا شمار کرنا، دنوں کے شمار سے آسان ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 4: جو ہم نے ثابت کیا ہے اس پر اہل ظواہر اور ان کے ہمنواؤں کا رد ہوجاتا ہے وج کہتے ہیں کہ مساقات (درختوں کو پانی لگانا) کا عمل مجہول عدل تک غیر معلوم سالوں تک جائز ہے اور انہوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ رسوال اللہ ﷺ نے نصف کھیتی اور کھجوروں پر یہود کو عامل مقرر کیا جب تک رسول اللہ ﷺ چاہیں گے بغیر کسی وقت کے تعین کے۔ اس میں اہل ظواہر کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کو کہا تھا : میں تمہیں ان زمینوں پر باقی رکھوں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں باقی رکھے گا۔ یہ بڑی واضح دلیل ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی آپ اس فیصلہ میں اپنے رب کے منتظر تھے کسی دوسرے کیلئے جائز نہیں۔ شریعت نے اجازت اور تمام معاملات کے معانی و مطالب کو پختہ و مضبوط کردیا ہے۔ یہی علماء امت کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مواقیت یہ میقات کی جمع ہے جس کا معنی ہے : وقت۔ بعض نے فرمایا : میقات، وقت کا منتہی ہے اور مواقیت غیر منصرف ہے کیونکہ یہ جمع ہے جس کی احاد میں کوئی مثال نہیں یہ جمع ہے اور جمع کی نہایت ہے، کیونکہ اس کی جمع نہیں بنائی جاتی۔ پس یہ ایسی ہوگی جس میں گو یا تکرار ہوچکا ہے اور قواریر منصرف ہے کیونکہ وہ آیت کے سرے پر واقع ہوا ہے اس کو تنوین دی گئی ہے جس طرح قوافی کو تنوین دی جاتی ہے۔ یہ تیوین الصرف نہیں جو کسی اسم کے معرب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الحج جمہور کی قرءات میں حا پر فتحہ ہے۔ ابن ابی اسحاق نے پورے قرآن میں اسے حا کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اسی طرح حج البیت جو سورة آل عمران میں ہے اس میں بھی حا کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ سیبویہ نے نے کہا : الحج جیسے الرد اور الشد۔ اور الحج جیسے الذکر۔ یہ دونوں مصدر ہیں اور ہم معنی ہیں بعض نے فرمایا : حاء کے فتحہ مصدر ہے اور حاء کے کسرہ کے ساتھ اسم ہے۔ مسئلہ نمبر 7: اللہ تعالیٰ نے حج کا ذکر علیحدہ فرمایا کیونکہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جس میں وقت کی معرفت کی احتیاج ہے۔ اس میں وقت سے تاخیر جائز نہیں بخلاف عربوں کے نظریہ کے وہ عدد اور مہینوں کی تبدیلی کے ساتھ حج کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قول اور فعل کو باطل کردیا۔ اس کا بیان سورۂط برأت میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 8: امام مالک اور امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے استدلال کیا ہے کہ اس آیت کی وجہ سے حج کے مہینوں کے علاوہ کسی مہینہ میں حج کا احرام باندھنا صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام چاندوں کو اس کے لئے ظعر بنایا ہے۔ پس تمام مہینوں میں حج کا احرام باندھنا صحیح ہے۔ امام شافعی نے اس میں مخالفت کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الحج اشھر معلومٰت (البقرہ :197) جیسا کہ آگے آئے گا، اس آیت کا معنی ہے بعض چاند لوگوں کے لئے وقت ہیں، بعض حج کے لئے وقت ہیں یہ اس طرح ہے جیسے تو کہتا ہے : الجاریۃ لزیدوعمرو۔ یہ لونڈی زید اور عمرو کے لئے ہے یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لونڈی کا بعض زید کے لئے ہے اور بعض عمرو کے لئے ہے۔ یہ کہنا جائز نہیں کہ تمام لونڈی زید کے لئے ہے اور تمام عمرو کے لئے ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ھی مواقیت للناس والحج اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام چاند لوگوں کے لئے وقت ہیں اور تمام چاند حج کا وقت ہیں۔ اگر بعض مراد ہوتا تو عبارت یوں ہوتی : بعضھا مواقیت للناس وبعضھا مواقیت الحج۔ یہ اس طرح ہے جیسے تو کہتا ہے : ان شھر رمضان میقات لصوم و عمرو رمضان کا مہینہ زید اور عمرو کے روزے وقت ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ تمام رمضان ہر ایک کے روزے کے وقت ہے اور جو انہوں نے لونڈی کی مثال دی تھی وہ صحیح ہے کیونکہ پوری لونڈی کا زید کے لئے ہونا اور پوری لونڈی کا عمرو کے لئے ہونا محال ہے۔ اور ہمارے مسئلہ میں ایسا نہیں ہے کیونکہ زمانہ کا زید کے لئے وقت ہوتا اور عمرو کے لئے وقت ہونا صحیح ہے، پس جو انہوں نے کہا : وہ باطل ہے۔ مسئلہ نمبر 9: علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جس نے کوئی سامان بیچا معلوم قیمت کے ساتھ عربوں کے مہینوں سے معلوم مدت تک یا ایسے تک جن کی تعداد معروف ہو، بیع جائز ہے۔ اسی طرح معلوم مدت تک بیع سلم کے بارے میں کہا ہے۔ اس میں اختلاف ہے جس نے فصل کاٹنے تک یا گہنے تک یا عطا تک یا اس کے مشابہ کوئی غیر معیٰن وقت تک کے لئے کوئی چیز بیچی۔ امام مالک نے فرمایا : یہ جائز ہے کیونکہ یہ معروف ہے۔ ابوثور کا بھی قول ہے۔ امام احمد نے کہا : میں امید کرتا ہوں اس میں کوئی حرج نہیں ہوگی۔ اس طرح نمازیوں کے واپس آنے تک کوئی چیز بیچی تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ وہ عطا کرنے تک کوئی چیز خریدتے تھے۔ ایک طائفہ نے کہا : یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وقت مقرر فرمایا ہے اور وقت کو ان کی بیوع اور مصالح میں ان کی علامت بنایا ہے۔ اسی طرح حضرت ابن عباس نے کہا : یہی امام شافعی اور نعمان کا قول ہے : ابن منذر نے کہا : حضرت ابن عباس کا قول صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر 10: جب چاند بڑا دکھائی دے تو ہمارے علماء نے کہا : اس کے بڑے یا چھوٹے ہونے کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ وہ اسی رات کا ہوگا۔ مسلم نے ابو البختری سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہم عمرہ کے لئے نکلے۔ جب ہم نخلہ کے بطن میں اترے۔ فرمایا : ہمیں چاند نظر آیا۔ بعض لوگوں نے کہا : یہ راتوں کا ہے، بوض نے کہا : دو روتوں کا ہے۔ فرمایا : ہم حضرت ابن عباس سے ملے۔ ہم نے کہا : ہم نے چاند دیکھا۔ بعض نے کہا : تین راتوں کا ہے بعض نے کہا : دو راتوں کا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : کس رات تم نے اسے دیکھا تھا ؟ ہم نے کہا : فلاں رات، حضرت ابن عباس نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے چاند کو دیکھنے کے لئے لمبا کیا وہ اسی رات کا ہے جس رات کو تم نے اسے دیکھا۔ مسئلہ نمبر 11: اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ولیس البربان تاتوا البیوت من ظھورھا اس مسئلہ کو حج کے وقت کے ذکر ساتھ ملایا کیونکہ چاندوں کے متعلق اور گھروں کے پیچھے سے داخل ہونے کے متعلق اکٹھے سوال ہوئے تھے۔ پس یہ آیت دونوں مسئلوں کے متعلق نازل ہوئی، انصار جب حج کرتے تھے تو وہ اپنے گھروں کو لوٹتے تھے تو ان کے دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے۔ وہ جب حج یا عمرہ کا احرام باندھتے تھے وہ شرعاً التزام کرتے تھے کہ ان کے اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو جب ان سے کوئی شخص احرام باندھنے کے بعد گھر سے اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو وہ اپنے گھر کے پیچھے دیواروں پر ایک کوہان بناتا تھا پھر اپنے حجرہ میں کھڑا ہوتا تھا اور اپنی حاجت کا حکم دیتا تھا پھر اس کے گھر سے وہ چیز اس کی طرف نکالی جاتی تھی اور وہ اس عمل کو نیکی اور عبادت سمجھتے تھے۔ اسی طرح وہ کئی چیزوں کو عبادت سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ان کا رد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ نیکی اسکے حکم کی پیروی میں ہے۔ حضرت ابن عباس اور حضرت ابوصالح کی روایت میں ہے فرمایا : لوگ زمانہ جاہلیت میں اور اسلام کے ابتدائی دور میں (اس طرح تھے) کہ ان میں سے کوئی جب حج کا احرام باندھتا تھا اگر وہ کچے مکانوں والوں میں سے ہوتا تھا تو وہ اپنے گھر کے پیچھے سے سواخ کرتا تھا اس سے داخل ہوتا تھا اور اس سے خارج ہوتا تھا یا وہ سیڑھی رکھتا تھا اس سے چڑھتا تھا اور اس سے اترتا تھا اگر وہ خیمہ والوں میں سے ہوتا جو وہ خیمہ کے پیچھے سے داخل ہوتا تھا مگر جو حمس (قریش) میں سے ہوتا وہ ایسا نہیں کرتا تھا۔ زہری نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حدیبیہ کے زمانہ میں عمرہ کا احرام باندھا اور آپ اپنے حجرہ میں داخل ہوئے اور بنی سلمہ میں سے ایک انصاری بھی آپ کے پیچھے دورازہ سے داخل ہوگیا، اس نے اپنی قوم کی عادت کو توڑ دیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا : تو کیوں دروازہ سے داخل ہوا جبکہ تو نے احرام باندھا ہوا تھا ؟ اس نے کہا : حضور ! آپ داخل ہوئے تو میں بھی آپ کے داخل ہونے کے ساتھ داخل ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میں تو حمس ہوں یعنی ایسی قوم سے ہوں جو اس کو دین نہیں سمجھتے۔ اس شخص نے کہا : میں اپنے اور تمہارے دین پر ہوں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ حضرات ابن عباس، عطا اور قتادہ کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ شخص قطبہ بن عامر انصاری تھا۔ الحمس قریش، کنانۃ، خزاعہ، ثقیف، جشم، بنوعامربن صعصہ، بنونصربن معاویہ کو کہا جاتا ہے۔ ان کو حمس اس لئے کہا جاتا ہے : یہ اپنے دین میں بہت سخت تھے۔ الحماسہ کا معنی شدت ہے۔ حجاج نے کہا : وکم قطعنا من قفاف حمس، ہم نے حمس کی کتنی سخت جگہوں کو کاٹا ؟ پھر اس کی تاویل میں اختلاف ہے۔ بعض نے وہ کہا جو ہم نے ذکر کیا ہے۔ بعض نے کہا : یہ تاخیر کرنا ہے اور حج کو مؤخر کرنا مراد ہے حتیٰ کہ وہ حلال مہینہ کو حج کی تاخیر کے لئے حرام بنادیتے تھے اور حرام مہینہ کو حلال بنادیتے تھے تاکہ حج کو اس سے مؤخر کریں تو بیوت کا ذکر اس بنا پر ہے حج کی تاخیر کے لئے حرام بنادیتے تھے اور حرام مہینہ کو حلال بنادیتے تھے یا کہ حج کو اس سے مؤخر کریں تو بیوت کا ذکر اس بنا پر ہے حج میں واجب کی مخالفت اور حج کے مہینوں میں مخالفت کی یہ مثام ہے۔ تاخیر کرنے کا بیان انشاء اللہ سورة برأت میں آئے گا۔ ابوعبیدہ نے کہا : یہ آیت ضرب المثل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نیکی یہ نہیں کہ تم جاہلوں سے پوچھو بلکہ تم اللہ سے ڈرو اور علماء سے پوچھو۔ یہ ایسے ہے جیسے تو کہتا ہے : اتیت ھذا الامرمن بابہٖ ۔ اس کام کو میں نے اس کے تقاضا کے مطابق کیا۔ مہدوی اور مکی نے ابن انباری سے، ماوردی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت عورتوں کے جماع میں مثال ہے حکم دیا کہ ان کی قبل میں وطی کرو، دبر میں وطی نہ کرو۔ عورتوں کو بیوت (گھر) کہا گیا ہے کیونکہ عورتوں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جس طرح گھروں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ابن عطیہ نے کہا : یہ بعید ہے اور کلام کے انداز کو بدلنا ہے۔ حسن نے کہا : وہ فال پکڑتے تھے، پس جو سفر کرتا اور اس کی حاجت پوری نہ ہوئی تو وہ خسارہ سے فال پکڑتے ہوئے گھر کے پیچھے سے آتا تو انہیں کہا گیا کہ بدشگونی میں نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اس پر توکل کرنا ہے۔ میں کہتا ہوں : ان اقوال میں سے پہلا قول صحیح ہے کیونکہ حضرت براء نے روایت کیا ہے، فرمایا : انصار جب حج کرتے تھے تو وہ اپنے گھروں کے دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے فرمایا : ایک انصاری شخص آیا اور اپنے دروازے سے داخل ہوگیا۔ اس کو اس کے متعلق کہا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی ولیس البربان تاتوا البیوت من ظھورھا۔ یہ بیوت کے بارے میں حقیقی نص ہے۔ اس کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے۔ رہے دوسرے اقوال وہ دوسری جگہ سے لئے گئے ہیں۔ آیت سے ماخوذ نہیں ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ آیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ کے طور پر ذکر کی گئی ہے کہ نیکی کو اس کے تقاضا کے مطابق کرو اور تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے اس کے مطابق کرو۔ گھروں کے دروازوں سے آنے کا ذکر بطور مثال ہے تاکہ اشارہ ہوجائے کہ ہم امور کو اس طریقہ سے ادا کریں جس طرح اللہ نے ہمیں ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ میں کہتا ہوں : اس بنا پر جو اقوال ذکر کئے گئے ہیں سب صحیح ہیں۔ البیوت جمع ہے بیت کی۔ البیوت کو با کے ضمہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ تقویٰ اور فلاح اور لعل کا معنی گزرچکا ہے۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ نمبر 12: اس آیت میں بیان ہے کہ جس کام کو اللہ نے قربت نہیں بنایا اور اس کی طرف اس نے بلایا نہیں تو وہ قربت نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کوئی قربت حاصل کرنے والا قربت حاصل کرے۔ ابن خویز منداد نے کہا : جب کسی کام کے قربت ہونے اور قربت نہ ہونے کا اشکال ہو تو اس عمل کو دیکھا جائے گا اگر تو اس کی فرائض وسنن میں کوئی مثال ہے تو وہ جائز ہوگا اور اگر مثال نہ ہو تو نہ وہ نیکی ہوگا نہ قربت۔ فرمایا : اس کے متعلق آثار نبی کریم ﷺ سے مروی ہیں۔ حضرت ابن عباس کی حدیث میں ذکر ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے جبکہ ایک شخص دھوپ میں کھڑا تھا۔ اس کے متعلق آپ نے پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ابواسرائیل ہے اس نے ندز مانی ہے کہ کھڑاق رہے گا، نہ بیٹھے گا، نہ سایہ حاصل کرے گا، نہ بولے گا اور روزہ رکھے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اس کو کہو یہ کلام کرے، سایہ حاصل کرے اور بیٹھے اور اپنے روزے کو مکمل کرے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کاموں کو باطل کردیا جو قربت نہیں تھے، جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں تھی اور اس قربت کو صحیح قرار دیا جس کی قرائض و سنن میں مثال تھی۔
Top