Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 189
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ١ؕ قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ١ؕ وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى١ۚ وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ
: وہ آپ سے پوچھتے ہیں
عَنِ
: سے
الْاَهِلَّةِ
: نئے چاند
قُلْ
: آپ کہ دیں
ھِىَ
: یہ
مَوَاقِيْتُ
: (پیمانہ) اوقات
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَالْحَجِّ
: اور حج
وَلَيْسَ
: اور نہیں
الْبِرُّ
: نیکی
بِاَنْ
: یہ کہ
تَاْتُوا
: تم آؤ
الْبُيُوْتَ
: گھر (جمع)
مِنْ
: سے
ظُهُوْرِھَا
: ان کی پشت
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
الْبِرَّ
: نیکی
مَنِ
: جو
اتَّقٰى
: پرہیزگاری کرے
وَاْتُوا
: اور تم آؤ
الْبُيُوْتَ
: گھر (جمع)
مِنْ
: سے
اَبْوَابِهَا
: ان کے دروازوں سے
وَاتَّقُوا
: اور تم ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: کامیابی حاصل کرو
(اے محمد ﷺ لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے اور نیکی اس بات میں نہیں کہ (احرام کی حالت میں) گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ بلکہ نیکو کار وہ ہے جو پرہیزگار ہو اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ نجات پاؤ
آیت نمبر
189
اس میں بارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یسئلونک عن الاھلۃ یہ ان سوالوں میں سے ہے جو یہود نے پوچھے تھے اور انہوں نے اس کے ساتھ نبی کریم ﷺ پر اعتراض کیا تھا۔ حضرت معاذ نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ یہود ہم پر غالب آگئے وہ ہم سے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ چاند کو کیا ہے کہ یہ باریک سا ظاہر ہوتا ہے پھر بڑھتا جاتا ہے حتیٰ کہ برابر اور گول ہوجاتا ہے پھر گھٹنا شروع ہوجاتا ہے حتیٰ کہ پہلی حالت پر ہوجاتا ہے ؟ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کے نزول کا سبب مسلمان قوم کا نبی کریم ﷺ سے چاند کے متعلق سوال تھا۔ اس چاند کے آخری راتوں میں چھپنے، اس کے مکمل ہونے اور سورج کی حالت سے محتلف ہونے کا سبب کیا ہے۔ یہ حضرت ابن عباس، قتادہ اور ربیع وغیرہ کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر
2
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : عن الاھلۃ، اھلہ جمع ہے ھلال کی۔ اس کو جمع ذکر کیا گیا ہے حالانکہ چاند حقیقت میں ایک ہے اس حقیقت سے کہ ایک مہینہ میں ایک ہوتا ہے اور دوسرے مہینہ میں دوسرا ہوتا ہے۔ مہینہ کے تمام احوال چاندوں سے ہوتے ہیں اور اھلہ سے مراد مہنیے ہیں، کبھی شھر سے چاند مراد ہوتا ہے کیونکہ چاند مہینہ میں وارد ہوتا ہے۔ جیسے شاعر نے کہا : اخوان من نجد علی ثقۃ والشھر مثل قلامۃ الظفر اس شعر میں شھر سے مراد چاند ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : چاند کو شھر اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رؤیت کی جگہ کی طرف اشارہ کرکے اس کو شہرت دیتے ہیں اور اس پر دلالت کرتے ہیں اور ھلال کے لفظ کا اطلاق مہینہ کی آخری دو راتوں اور آغاز کی دو راتوں پر بھی ہوتا ہے۔ بعض نے کہا : پہلی تین راتوں کو کہا جاتا ہے۔ اصمعی نے کہا : ہلال وہ ہوتا ہے جو باریک دھاگے کی طرح گول ہوتا ہے۔ بعض نے کہا : ہلال وہ ہوتا ہے جو اپنی روشنی کے ساتھ آسمان کو روشن کرتا ہے اور یہ ساتویں کی رات میں ہوتا ہے۔ ابوالعباس نے کہا : چاند کو ہلال اس لئے کہا جاتا ہے کہ لوگ اس کے متعلق خبر دینے کے لئے اپنی آوازوں کو بلند کرتے ہیں۔ اسی سے استھل الصبی ہے جب بچے کے چیخنے کے ساتھ اس کی زندگی ظاہر ہو۔ استھل وجھہ فرحاً وتھلل جب اس میں سرورظاہر ہو۔ ابوکبیر نے کہا : واذا نظرت الی اسرۃ وجھہ برقت کبرق العارض المتھلل کہا جاتا ہے : اھللنا الھلال جب ہم مہینہ میں داخل ہوں، جوہری نے کہا : اھل الھلال واستھل۔ مجہول کا صیغہ استعمال ہوتا ہے بمعنی تبین (ظاہر ہونا) بھی بولا جاتا ہے۔ اھل نہیں کہا جاتا، کہا جاتا ہے : اھللناعن لیلۃ کذا اور اھللناہ فھل نہیں کہا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے : ہم نے اسے داخل کیا ہے وہ داخل ہوگیا۔ یہ اس کا قول ہے۔ ابونصر عبدالرحیم القشیری نے اپنی تفسیر میں کہا ہے : اھل الھلام واستھل واھللناالھلال واستھللنا۔ مسئلہ نمبر
3
: ہمارے علماء نے فرمایا : جس نے قسم اٹھائی کہ وہ قرضہ ادا کرے گا یا ایسا کرے گا فی الھلال اور رأس الھلال اوعند الھلال ۔ پھر اس نے وہ کام چاند دیکھنے کے دو دن بعد کیا یا ایک دن بعد کیا تو وہ حانث نہیں ہوگا۔ اور تمام مہینے تمام عبادات و معاملات کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل ھی مواقیت للناس والحج اس آیت میں چاند کے بڑھنے اور کم ہونے کی حکمت بیان ہو رہی ہے مدتوں، معاملات، قسموں، حج، تعداد، روزہ، عید، مدت حمل، اجارات، کر ایوں کے علاوہ دوسرے بندوں کی مصلحتوں سے اشکال کو دور کرنے کے لئے یہ گھٹتا اور بڑھتا ہے اس کی مثال اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات ہیں : وجعلنا الیل و النھار اٰیتین فمحونآ اٰیۃ الیل وجعلنا اٰیۃ النھار مبصرۃً لتبتغوا فضلاً من ربکم ولتعلموا عدد السنین والحساب (الاسراء :
12
) اس آیت کی وضاحت آگے آئے گی اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھو الذی جعل الشمس ضیآءً والقمر نورًا وقدرہ منازل لتعلمواعدد السنین والحساب (یونس :
5
) چاندوں کا شمار کرنا، دنوں کے شمار سے آسان ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر
4
: جو ہم نے ثابت کیا ہے اس پر اہل ظواہر اور ان کے ہمنواؤں کا رد ہوجاتا ہے وج کہتے ہیں کہ مساقات (درختوں کو پانی لگانا) کا عمل مجہول عدل تک غیر معلوم سالوں تک جائز ہے اور انہوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ رسوال اللہ ﷺ نے نصف کھیتی اور کھجوروں پر یہود کو عامل مقرر کیا جب تک رسول اللہ ﷺ چاہیں گے بغیر کسی وقت کے تعین کے۔ اس میں اہل ظواہر کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کو کہا تھا : میں تمہیں ان زمینوں پر باقی رکھوں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں باقی رکھے گا۔ یہ بڑی واضح دلیل ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی آپ اس فیصلہ میں اپنے رب کے منتظر تھے کسی دوسرے کیلئے جائز نہیں۔ شریعت نے اجازت اور تمام معاملات کے معانی و مطالب کو پختہ و مضبوط کردیا ہے۔ یہی علماء امت کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر
5
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مواقیت یہ میقات کی جمع ہے جس کا معنی ہے : وقت۔ بعض نے فرمایا : میقات، وقت کا منتہی ہے اور مواقیت غیر منصرف ہے کیونکہ یہ جمع ہے جس کی احاد میں کوئی مثال نہیں یہ جمع ہے اور جمع کی نہایت ہے، کیونکہ اس کی جمع نہیں بنائی جاتی۔ پس یہ ایسی ہوگی جس میں گو یا تکرار ہوچکا ہے اور قواریر منصرف ہے کیونکہ وہ آیت کے سرے پر واقع ہوا ہے اس کو تنوین دی گئی ہے جس طرح قوافی کو تنوین دی جاتی ہے۔ یہ تیوین الصرف نہیں جو کسی اسم کے معرب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الحج جمہور کی قرءات میں حا پر فتحہ ہے۔ ابن ابی اسحاق نے پورے قرآن میں اسے حا کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اسی طرح حج البیت جو سورة آل عمران میں ہے اس میں بھی حا کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ سیبویہ نے نے کہا : الحج جیسے الرد اور الشد۔ اور الحج جیسے الذکر۔ یہ دونوں مصدر ہیں اور ہم معنی ہیں بعض نے فرمایا : حاء کے فتحہ مصدر ہے اور حاء کے کسرہ کے ساتھ اسم ہے۔ مسئلہ نمبر
7
: اللہ تعالیٰ نے حج کا ذکر علیحدہ فرمایا کیونکہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جس میں وقت کی معرفت کی احتیاج ہے۔ اس میں وقت سے تاخیر جائز نہیں بخلاف عربوں کے نظریہ کے وہ عدد اور مہینوں کی تبدیلی کے ساتھ حج کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قول اور فعل کو باطل کردیا۔ اس کا بیان سورۂط برأت میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر
8
: امام مالک اور امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے استدلال کیا ہے کہ اس آیت کی وجہ سے حج کے مہینوں کے علاوہ کسی مہینہ میں حج کا احرام باندھنا صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام چاندوں کو اس کے لئے ظعر بنایا ہے۔ پس تمام مہینوں میں حج کا احرام باندھنا صحیح ہے۔ امام شافعی نے اس میں مخالفت کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الحج اشھر معلومٰت (البقرہ :
197
) جیسا کہ آگے آئے گا، اس آیت کا معنی ہے بعض چاند لوگوں کے لئے وقت ہیں، بعض حج کے لئے وقت ہیں یہ اس طرح ہے جیسے تو کہتا ہے : الجاریۃ لزیدوعمرو۔ یہ لونڈی زید اور عمرو کے لئے ہے یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لونڈی کا بعض زید کے لئے ہے اور بعض عمرو کے لئے ہے۔ یہ کہنا جائز نہیں کہ تمام لونڈی زید کے لئے ہے اور تمام عمرو کے لئے ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ھی مواقیت للناس والحج اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام چاند لوگوں کے لئے وقت ہیں اور تمام چاند حج کا وقت ہیں۔ اگر بعض مراد ہوتا تو عبارت یوں ہوتی : بعضھا مواقیت للناس وبعضھا مواقیت الحج۔ یہ اس طرح ہے جیسے تو کہتا ہے : ان شھر رمضان میقات لصوم و عمرو رمضان کا مہینہ زید اور عمرو کے روزے وقت ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ تمام رمضان ہر ایک کے روزے کے وقت ہے اور جو انہوں نے لونڈی کی مثال دی تھی وہ صحیح ہے کیونکہ پوری لونڈی کا زید کے لئے ہونا اور پوری لونڈی کا عمرو کے لئے ہونا محال ہے۔ اور ہمارے مسئلہ میں ایسا نہیں ہے کیونکہ زمانہ کا زید کے لئے وقت ہوتا اور عمرو کے لئے وقت ہونا صحیح ہے، پس جو انہوں نے کہا : وہ باطل ہے۔ مسئلہ نمبر
9
: علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جس نے کوئی سامان بیچا معلوم قیمت کے ساتھ عربوں کے مہینوں سے معلوم مدت تک یا ایسے تک جن کی تعداد معروف ہو، بیع جائز ہے۔ اسی طرح معلوم مدت تک بیع سلم کے بارے میں کہا ہے۔ اس میں اختلاف ہے جس نے فصل کاٹنے تک یا گہنے تک یا عطا تک یا اس کے مشابہ کوئی غیر معیٰن وقت تک کے لئے کوئی چیز بیچی۔ امام مالک نے فرمایا : یہ جائز ہے کیونکہ یہ معروف ہے۔ ابوثور کا بھی قول ہے۔ امام احمد نے کہا : میں امید کرتا ہوں اس میں کوئی حرج نہیں ہوگی۔ اس طرح نمازیوں کے واپس آنے تک کوئی چیز بیچی تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ وہ عطا کرنے تک کوئی چیز خریدتے تھے۔ ایک طائفہ نے کہا : یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وقت مقرر فرمایا ہے اور وقت کو ان کی بیوع اور مصالح میں ان کی علامت بنایا ہے۔ اسی طرح حضرت ابن عباس نے کہا : یہی امام شافعی اور نعمان کا قول ہے : ابن منذر نے کہا : حضرت ابن عباس کا قول صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر
10
: جب چاند بڑا دکھائی دے تو ہمارے علماء نے کہا : اس کے بڑے یا چھوٹے ہونے کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ وہ اسی رات کا ہوگا۔ مسلم نے ابو البختری سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہم عمرہ کے لئے نکلے۔ جب ہم نخلہ کے بطن میں اترے۔ فرمایا : ہمیں چاند نظر آیا۔ بعض لوگوں نے کہا : یہ راتوں کا ہے، بوض نے کہا : دو روتوں کا ہے۔ فرمایا : ہم حضرت ابن عباس سے ملے۔ ہم نے کہا : ہم نے چاند دیکھا۔ بعض نے کہا : تین راتوں کا ہے بعض نے کہا : دو راتوں کا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : کس رات تم نے اسے دیکھا تھا ؟ ہم نے کہا : فلاں رات، حضرت ابن عباس نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے چاند کو دیکھنے کے لئے لمبا کیا وہ اسی رات کا ہے جس رات کو تم نے اسے دیکھا۔ مسئلہ نمبر
11
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ولیس البربان تاتوا البیوت من ظھورھا اس مسئلہ کو حج کے وقت کے ذکر ساتھ ملایا کیونکہ چاندوں کے متعلق اور گھروں کے پیچھے سے داخل ہونے کے متعلق اکٹھے سوال ہوئے تھے۔ پس یہ آیت دونوں مسئلوں کے متعلق نازل ہوئی، انصار جب حج کرتے تھے تو وہ اپنے گھروں کو لوٹتے تھے تو ان کے دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے۔ وہ جب حج یا عمرہ کا احرام باندھتے تھے وہ شرعاً التزام کرتے تھے کہ ان کے اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو جب ان سے کوئی شخص احرام باندھنے کے بعد گھر سے اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو وہ اپنے گھر کے پیچھے دیواروں پر ایک کوہان بناتا تھا پھر اپنے حجرہ میں کھڑا ہوتا تھا اور اپنی حاجت کا حکم دیتا تھا پھر اس کے گھر سے وہ چیز اس کی طرف نکالی جاتی تھی اور وہ اس عمل کو نیکی اور عبادت سمجھتے تھے۔ اسی طرح وہ کئی چیزوں کو عبادت سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ان کا رد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ نیکی اسکے حکم کی پیروی میں ہے۔ حضرت ابن عباس اور حضرت ابوصالح کی روایت میں ہے فرمایا : لوگ زمانہ جاہلیت میں اور اسلام کے ابتدائی دور میں (اس طرح تھے) کہ ان میں سے کوئی جب حج کا احرام باندھتا تھا اگر وہ کچے مکانوں والوں میں سے ہوتا تھا تو وہ اپنے گھر کے پیچھے سے سواخ کرتا تھا اس سے داخل ہوتا تھا اور اس سے خارج ہوتا تھا یا وہ سیڑھی رکھتا تھا اس سے چڑھتا تھا اور اس سے اترتا تھا اگر وہ خیمہ والوں میں سے ہوتا جو وہ خیمہ کے پیچھے سے داخل ہوتا تھا مگر جو حمس (قریش) میں سے ہوتا وہ ایسا نہیں کرتا تھا۔ زہری نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حدیبیہ کے زمانہ میں عمرہ کا احرام باندھا اور آپ اپنے حجرہ میں داخل ہوئے اور بنی سلمہ میں سے ایک انصاری بھی آپ کے پیچھے دورازہ سے داخل ہوگیا، اس نے اپنی قوم کی عادت کو توڑ دیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا : تو کیوں دروازہ سے داخل ہوا جبکہ تو نے احرام باندھا ہوا تھا ؟ اس نے کہا : حضور ! آپ داخل ہوئے تو میں بھی آپ کے داخل ہونے کے ساتھ داخل ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میں تو حمس ہوں یعنی ایسی قوم سے ہوں جو اس کو دین نہیں سمجھتے۔ اس شخص نے کہا : میں اپنے اور تمہارے دین پر ہوں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ حضرات ابن عباس، عطا اور قتادہ کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ شخص قطبہ بن عامر انصاری تھا۔ الحمس قریش، کنانۃ، خزاعہ، ثقیف، جشم، بنوعامربن صعصہ، بنونصربن معاویہ کو کہا جاتا ہے۔ ان کو حمس اس لئے کہا جاتا ہے : یہ اپنے دین میں بہت سخت تھے۔ الحماسہ کا معنی شدت ہے۔ حجاج نے کہا : وکم قطعنا من قفاف حمس، ہم نے حمس کی کتنی سخت جگہوں کو کاٹا ؟ پھر اس کی تاویل میں اختلاف ہے۔ بعض نے وہ کہا جو ہم نے ذکر کیا ہے۔ بعض نے کہا : یہ تاخیر کرنا ہے اور حج کو مؤخر کرنا مراد ہے حتیٰ کہ وہ حلال مہینہ کو حج کی تاخیر کے لئے حرام بنادیتے تھے اور حرام مہینہ کو حلال بنادیتے تھے تاکہ حج کو اس سے مؤخر کریں تو بیوت کا ذکر اس بنا پر ہے حج کی تاخیر کے لئے حرام بنادیتے تھے اور حرام مہینہ کو حلال بنادیتے تھے یا کہ حج کو اس سے مؤخر کریں تو بیوت کا ذکر اس بنا پر ہے حج میں واجب کی مخالفت اور حج کے مہینوں میں مخالفت کی یہ مثام ہے۔ تاخیر کرنے کا بیان انشاء اللہ سورة برأت میں آئے گا۔ ابوعبیدہ نے کہا : یہ آیت ضرب المثل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نیکی یہ نہیں کہ تم جاہلوں سے پوچھو بلکہ تم اللہ سے ڈرو اور علماء سے پوچھو۔ یہ ایسے ہے جیسے تو کہتا ہے : اتیت ھذا الامرمن بابہٖ ۔ اس کام کو میں نے اس کے تقاضا کے مطابق کیا۔ مہدوی اور مکی نے ابن انباری سے، ماوردی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت عورتوں کے جماع میں مثال ہے حکم دیا کہ ان کی قبل میں وطی کرو، دبر میں وطی نہ کرو۔ عورتوں کو بیوت (گھر) کہا گیا ہے کیونکہ عورتوں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جس طرح گھروں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ابن عطیہ نے کہا : یہ بعید ہے اور کلام کے انداز کو بدلنا ہے۔ حسن نے کہا : وہ فال پکڑتے تھے، پس جو سفر کرتا اور اس کی حاجت پوری نہ ہوئی تو وہ خسارہ سے فال پکڑتے ہوئے گھر کے پیچھے سے آتا تو انہیں کہا گیا کہ بدشگونی میں نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اس پر توکل کرنا ہے۔ میں کہتا ہوں : ان اقوال میں سے پہلا قول صحیح ہے کیونکہ حضرت براء نے روایت کیا ہے، فرمایا : انصار جب حج کرتے تھے تو وہ اپنے گھروں کے دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے فرمایا : ایک انصاری شخص آیا اور اپنے دروازے سے داخل ہوگیا۔ اس کو اس کے متعلق کہا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی ولیس البربان تاتوا البیوت من ظھورھا۔ یہ بیوت کے بارے میں حقیقی نص ہے۔ اس کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے۔ رہے دوسرے اقوال وہ دوسری جگہ سے لئے گئے ہیں۔ آیت سے ماخوذ نہیں ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ آیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ کے طور پر ذکر کی گئی ہے کہ نیکی کو اس کے تقاضا کے مطابق کرو اور تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے اس کے مطابق کرو۔ گھروں کے دروازوں سے آنے کا ذکر بطور مثال ہے تاکہ اشارہ ہوجائے کہ ہم امور کو اس طریقہ سے ادا کریں جس طرح اللہ نے ہمیں ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ میں کہتا ہوں : اس بنا پر جو اقوال ذکر کئے گئے ہیں سب صحیح ہیں۔ البیوت جمع ہے بیت کی۔ البیوت کو با کے ضمہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ تقویٰ اور فلاح اور لعل کا معنی گزرچکا ہے۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ نمبر
12
: اس آیت میں بیان ہے کہ جس کام کو اللہ نے قربت نہیں بنایا اور اس کی طرف اس نے بلایا نہیں تو وہ قربت نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کوئی قربت حاصل کرنے والا قربت حاصل کرے۔ ابن خویز منداد نے کہا : جب کسی کام کے قربت ہونے اور قربت نہ ہونے کا اشکال ہو تو اس عمل کو دیکھا جائے گا اگر تو اس کی فرائض وسنن میں کوئی مثال ہے تو وہ جائز ہوگا اور اگر مثال نہ ہو تو نہ وہ نیکی ہوگا نہ قربت۔ فرمایا : اس کے متعلق آثار نبی کریم ﷺ سے مروی ہیں۔ حضرت ابن عباس کی حدیث میں ذکر ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے جبکہ ایک شخص دھوپ میں کھڑا تھا۔ اس کے متعلق آپ نے پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ابواسرائیل ہے اس نے ندز مانی ہے کہ کھڑاق رہے گا، نہ بیٹھے گا، نہ سایہ حاصل کرے گا، نہ بولے گا اور روزہ رکھے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اس کو کہو یہ کلام کرے، سایہ حاصل کرے اور بیٹھے اور اپنے روزے کو مکمل کرے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کاموں کو باطل کردیا جو قربت نہیں تھے، جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں تھی اور اس قربت کو صحیح قرار دیا جس کی قرائض و سنن میں مثال تھی۔
Top