Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 135
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ١ۚ اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا١۫ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْا١ۚ وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) كُوْنُوْا : ہوجاؤ قَوّٰمِيْنَ : قائم رہنے والے بِالْقِسْطِ : انصاف پر شُهَدَآءَ لِلّٰهِ : گواہی دینے والے اللہ کیلئے وَلَوْ : اگرچہ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ : خود تمہارے اوپر (خلاف) اَوِ : یا الْوَالِدَيْنِ : ماں باپ وَ : اور الْاَقْرَبِيْنَ : قرابت دار اِنْ يَّكُنْ : اگر (چاہے) ہو غَنِيًّا : کوئی مالدار اَوْ فَقِيْرًا : یا محتاج فَاللّٰهُ : پس اللہ اَوْلٰى : خیر خواہ بِهِمَا : ان کا فَلَا : سو۔ نہ تَتَّبِعُوا : پیروی کرو الْهَوٰٓى : خواہش اَنْ تَعْدِلُوْا : کہ انصاف کرو وَاِنْ تَلْوٗٓا : اور اگر تم زبان دباؤ گے اَوْ تُعْرِضُوْا : یا پہلو تہی کروگے فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا : جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو خَبِيْرًا : باخبر
(اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو انصاف کے علمبردار اور اللہ کے لئے گواہی دینے والے بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے لہذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ‘ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے
درس نمبر 24 ایک نظر میں : یہ سبق بھی امت مسلمہ کے لئے دست قدرت کی تربیت کا ایک نمونہ ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ یہ ایک اچھی امت ہے اور جسے لوگوں کے لئے نکالا گیا ہے ۔ یہ سبق بھی اس اسلامی نظام زندگی کی ایک اہم کڑی ہے جو نہایت ہی مستحکم نظام ہے ۔ جس کے مقاصد اور اہداف متعین ہیں اور یہ نظام نفس انسانی کی بہتری کے لئے نازل کیا گیا ہے ۔ اس کے ذریعے نفس انسانی کا اس طرح علاج کیا گیا ہے کہ جس دست قدرت نے ذات انسان کو بنایا ہے ‘ وہی اس کی کمزوریوں کا علاج بھی کر رہا ہے ۔ یہ علاج اس لئے کامیاب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس ممتاز مخلوق اور صنعت کے پرزے پرزے سے واقف ہے ‘ یہ اس کی حقیقت اور ماہیت کو اچھی طرح جانتا ہے اس کے رجحانات ومیلانات سے واقف ہے اور اس کی ضروریات اور اس کے اندر پوشیدہ ترین صلاحیتوں اور کمزوریوں سے بھی آگاہی رکھتا ہے ۔ اس سبق میں اسلامی نظام حیات کے اصول ‘ نہایت ہی اٹل اصول بتائے گئے ہیں جو مستقل ہیں ۔ ہر دور ‘ ہر جگہ اور ہر زمانے کے لئے ہیں تاکہ انسانیت کو جاہلیت کی پستیوں سے بلند کر کے نہایت اونچی بلندیوں تک پہنچائے اور جہان تک انسان ترقی کرچکا ہو اس سے اسے مزید آگے بڑھائے ۔ ان اصولوں کے ساتھ ساتھ اس سبق میں پہلی جماعت مسلمہ کے بھی کچھ خدوخال بیان کئے گئے ہیں جو اس قرآن کی پہلی مخاطب جماعت تھی ۔ ان آیات کے آئینے کے اندر پہلی تحریک اسلامی نہایت ہی خوبصرتی کے ساتھ بحیثیت ایک انسانی جماعت نظر آتی ہے ۔ اس میں بشری کمزوریاں بھی نظر آتی ہیں اور اعلی پاکیزگی کا میعار بھی نظر آتا ہے ۔ اس جماعت کے اندر جاہلی دور کی باقیات اور فطری کمزوریاں بھی نظر آتی ہیں ۔ قرآن کریم اس جماعت کی تربیت کرتے ہوئے ایک ایک کمزوری کو لیتا ہے اور ان کا علاج کرتا ہے ‘ پھر اس جماعت کو تقویت دے کر اسے ایک مثالی جماعت بنا رہا ہے ۔ تلقین کی جاتی ہے کہ وہ سچائی پر جم جائیں اور راہ حق میں جدوجہد کریں اور قربانیاں دیں ۔ سبق کا آغاز اس پکار سے کیا جاتا ہے جو جماعت مسلمہ کے نام ہے اسے کہا جاتا ہے کہ تم خیر امت ہو اور اس دنیا میں تمہارا ایک مقرر کردار ہے ‘ اسے ادا کرنے کے لئے کمر باندھو اور دنیا میں عدل و انصاف کا وہ معیار قائم کرو جو انسانیات کی تاریخ کا سب سے اونچا معیار اور مثالی عدل ہو ۔ اور عدل قائم کرنے میں تمہارا مطح نظر اور نصب العین ذات باری کی رضا کا حصول ہو ‘ اور اس معاملے میں کسی اور جذبے ‘ کسی اور خواہش اور کسی اور مصلحت کو پیش نظر مت رکھو ۔ اس معاملے میں خود اپنی جماعت ‘ اپنی حکومت اور اپنی امت (NAtion) کے مفادات کو بھی پیش نظر نہ رکھو ۔ اس میں خدا ترسی اور رضائے الہی کے سوا تمہارے پیش نظر کوئی اور جذبہ نہ ہو ۔ امت نے فی الواقعہ ایسا کیا اور اس کا ایک نمونہ ایک یہودی کے اوپر جھوٹے الزام کے واقعہ کی شکل میں خود قرآن کریم نے ریکارڈ کیا اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کو بذریعہ وحی انصاف کرنے کی تنبیہ اور تاکید کی جس کا تذکرہ ہم تفصیلا کر آئے ہیں ۔ سبق کا آغاز اس حکم سے ہوتا ہے کہ عدل کرو ‘ مطلق اور خالص عدل کرو۔ مطلق اور خالص عدل کس قدر مشکل کام ہے ‘ اس کو رب کائنات ہی جانتا ہے ۔ جس نے انسان کو پیدا کیا ۔ رب کو معلوم ہے کہ اس راہ میں کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں ۔ اللہ کو معلوم ہے کہ انسان میں کمزوری کے کیا کیا پہلو ہیں ۔ انسان کے جذبات اس کی ذات کے لئے اور اقارب کے لئے کمزوروں اور زبردستوں کے لئے خصوصا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے ‘ فقراء اور اغنیاء کے لئے ‘ دوست اور دشمن کے لئے کیسے ہیں ۔ اس کے علاوہ دوسرے بیشمار جذبات اور یہ سب کے سب یا ان میں کوئی ایک بات عدل کے معاملے میں اثرانداز ہو سکتی ہے اور ان کو نظر انداز کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے ۔ یہ کام اسی طرح مشکل ہے جس طرح ایک آدمی نہایت ہی عمودی چڑھائی پر چڑھ رہا ہو اور اس میں اس کے پیش نظر صرف رضائے الہی اور حبل اللہ رہے ۔ کس قدر مشکل ہے یہ کام ۔ دوسری دعوت اس سبق میں یہ ہے کہ مکمل ایمان لے آؤ ۔ اللہ کتابوں ‘ ملائکہ ‘ رسول اور یوم آخرت پر ایمان لاؤ ۔ یہ ہے مکمل ایمان ۔ اس کے تمام اجزاء کی اپنی اپنی جگہ بہت بڑی اہمیت ہے ۔ یہ تمام اجزاء مل کر ایمان کو مکمل کرتے ہیں اور انہی اجزاء سے مجموعی اسلامی تصور حیات وجود میں آتا ہے ‘ جو تمام دوسرے تصورات کے مقابلے میں زیادہ فوقیت رکھتا ہے ‘ جو کسی زمانے میں انسانی معاشروں کے اندر رائج ومعروف رہے ہیں ۔ اسلام سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ۔ یہ نظریہ حیات بذات خود ‘ ہر نظریہ سے قوی اور برتر ہے اور اس سے تمام دوسری قدریں وجود میں آتی ہیں چاہے وہ اخلاقی ہوں ‘ اجتماعی ہوں یا تنظیمی ہوں اور جن کا عملی مظاہرہ پہلی جماعت اسلامی کی زندگی میں ہوا تھا اور آئندہ کے ادوار میں بھی جس جماعت نے اس نظام پر صحیح طرح ایمان کا اظہار کیا اور اس کے تقاضوں کو پورا کیا تو اس کی زندگی کے اندر بھی یہی تفوق اور برتری پیدا ہوئی ۔ قیامت تک یہ اصول اپنی جگہ قائم رہے گا اور قیامت میں تو بہرحال اللہ کا کلمہ ہی حق اور برتر ثابت ہوگا ۔ یہ ہے مفہوم اس آیت کا (آیت) ” (ولن یجعل اللہ للکفرین علی المومنین سبیلا (4 : 141) (اللہ نے کافروں کے لئے مسلمانوں کے مقابلے میں برتری کی کوئی سبیل نہیں رکھی) ۔ ان دو دعوتوں کے اب اللہ تعالیٰ منافقین پر تنقیدی حملہ شروع کرتے ہیں ۔ ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو ابھی تک اپنے نفاق کو چھپائے ہوئے ہیں اور بعض وہ ہیں جو منافق رہنے کے بعد دوبارہ کفر کا اعلان کرچکے ہیں ۔ اس تنقیدی بیان میں منافقین کے مزاح انکی قابل نفرت صورت ‘ اسلامی صفوں کے اندر ان کی سرگرمیوں کی جو صورت حال ہے اس کی تفصیلات ان کا متلون موقف ‘ کہ اگر مسلمانوں کو فتح ہو تو وہ ان کی چاپلوسی کرتے ہیں اور اگر اہل کفر کو فتح نصیب ہو تو یہ انکے ہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہر جگہ خود اپنے آپ کو سبب فتح قرار دیتے ہیں ۔ نماز کے لئے نہایت ہی بوجھل قدموں کے ساتھ جاتے ہیں ۔ اور دکھاوے کے لئے پڑھتے ہیں ‘ ان کا رویہ نہایت ہی مذبذب ہوتا ہے ۔ نہ ادھر کے اور نہ ادھر کے ۔ اس تنقیدی حملے کے درمیان جا بجا اہل ایمان کو بھی ہدایات دی گئی ہیں جن سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ منافقین اس وقت اسلامی صفوں میں کس طرح گھسے ہوئے تھے اور کیا کیا کارستانیاں کر رہے تھے ۔ اسلامی صفوں میں منافقین کو کس قدر اثرورسوخ حاصل تھا ۔ ان حالات میں اس قسم کے تنقیدی حملے کی ضرورت اس لئے پیش آئی تاکہ اس وقت کے موجود حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے تحریک اسلامی کو قدم بقدم آگے بڑھایا جائے اور اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ منافقین سے آہستہ آہستہ دور ہوتے جائیں اور ان کے ساتھ تعلقات رکھنے سے اجتناب کریں ۔ ان کی مجالس میں نہ بیٹھیں ‘ جہاں وہ اکثر کفریہ گفتگوئیں کرتے ہیں اور اللہ کی آیات کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔ البتہ اس دور میں قرآن کریم نے منافقین کے ساتھ بائیکاٹ کا حکم تو بہرحال نہیں دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ آیات نازل ہو رہی تھیں اس وقت منافقین کا جتھا بڑا مضبوط تھا اور وہ اس قدر سرگرم تھے کہ اہل اسلام کے لئے ان کا مکمل بائیکاٹ ممکن ہی نہ تھا ۔ مسلمانوں کو اس تحذیر ار تنبیہ کرنے کے درمیان ہی یہ بتا دیا گیا کہ نفاق کی علامات کیا ہیں اور نفاق کا آغاز کس طرح شروع ہوتا ہے ۔ تاکہ وہ خود بھی نفاق کی علامات سے اپنے آپ کو بچانے کی سعی کریں ۔ سب سے پہلی ہدایت یہ دی جاتی ہے کہ تم منافقین کے ساتھ دوستی ہر گز نہ کرو اور منافقین کے ہاں اپنی عزت اور احترام بڑھانے کا لالچ نہ کرو ‘ اس لئے کہ عزت تو صرف اللہ کے ہاں ہے۔ اللہ کو ہر گز یہ بات پسند نہیں کہ وہ کافروں کو اہل اسلام پر برتری دے اور منافقین تو دنیا وآخرت میں ذلیل ہوں گے ۔ یہ ہے ان کی تصویر ذرا ملاحظہ کرو اور پھر آخرت میں وہ دوزخ کے اندر سب سے نیچے پڑے ہوں گے ۔ اس انداز میں یہ ہدایات اور تنبہات بتلاتی ہیں کہ اسلامی نظام زندگی نفس انسانی اور اس کے اندر رچی بسی عادات کو کس طرح درست کرتا ہے اور کسی موجود عملی صورت حال کے اندر اسلام اصلاح کی کاروائی کا آغاز کس طرح کرتا ہے ؟ اسلام نہایت ہی تدریج کے ساتھ کوئی تبدیلی لاتا ہے اور آخر کار کسی موجودہ صورت حال کو یکسر تبدیل کرکے اس کی جگہ نہایت ہی جدید صورت حالات لے کر آجائے ہے ۔ نیز اس سے اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ اس دور میں مسلمانوں کے حالات کیا تھے ، کفر ونفاق کے محاذ ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح معاون تھے اور وہ کس طرح جماعت مسلمہ اور دین اسلام کے خلاف گٹھ جوڑ کئے ہوئے تھے ۔ ان تمام تبصروں کے اندر غور کرنے سے یہ بات نظر آتی ہے کہ وہ کیا عظیم معرکہ تھا ۔ جس کے اندر قرآن کریم نے جماعت مسلمہ کو ڈال دیا تھا ۔ اور اس معرکہ میں ڈال کر قرآن کس نظام اور منہاج کے مطابق جماعت مسلمہ اور نفس انسانی کی قیادت اور راہنمائی کر رہا تھا ۔ یہ معرکہ وہی معرکہ ہے جو ہر زمان ومکان کے اندر اسلام اور جاہلیت کے درمیان برپا رہا ہے اور کبھی ختم ہونے میں نہیں آتا ۔ وسائل بدل سکتے ہیں اور چہرے بدل سکتے ہیں لیکن اسلام اور جاہلیت کے درمیان جو جنگ ہے اس کی نوعیت آج بھی وہی ہے جو قرن اول میں تھی ۔ نیز ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کی سرگرمیوں میں قرآن کریم کی قیادت اور راہنمائی کو کس قدر اہمیت حاصل ہے ۔ قرآن کریم یہ قیادت جس طرح حضور کے درمیان جو جنگ ہے اس کی نوعیت آج بھی وہی ہے جو قرن اول میں تھی ۔ نیز ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کی سرگرمیوں میں قرآن کریم کی قیادت اور راہنمائی کو کس قدر اہمیت حاصل ہے ۔ قرآن کریم یہ قیادت جس طرح حضور ﷺ کے دور میں کرتا تھا ‘ وہی راہنمائی اور قیادت وہ آج بھی کرتا ہے ۔ قرآن کریم کسی ایک دور یا کسی ایک نسل کی راہنمائی کے لئے تو آیا ہی نہیں ہے ‘ یہ تو اس امت کا قائدہ ہے ‘ اس کا مرشد ہے اور اس کا ہادی ہے اور ہر دور اور ہر نسل کے لئے ہے ۔ اور اس سبق کے آخر میں ایک لمحہ فکریہ ! یہ کہ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ لوگوں کو خواہ مخواہ عذاب دے ۔ اس کا مطالبہ تو صرف یہ ہے کہ ایمان لاؤ اور اللہ کا شکر بجا لاؤ ۔ اگر لوگ ایمان نہیں لاتے اور شکر گزار بندے نہیں بنتے تو اسے کوئی پرواہ نہیں ۔ وہ تو ان کے ایمان اور شکر گزاری دونوں سے بےنیاز ہے ۔ اللہ جو ہدایات دے رہا ہے وہ تو انکی اصلاح کے لئے ہے ۔ ان کو نرمی دینے کے لئے ہیں تاکہ وہ اس بات کے مستحق ہوجائیں کہ ان کو جنت میں انعامات ملیں ۔ اگر وہ ان ہدایات کی خلاف ورزی کریں گے اور الٹے پاؤں پھریں گے تو وہ خود عذاب جہنم کے مستحق ہوجائیں گے ۔ اس میں صرف ان ہی کا ذاتی نقصان ہے اور منافقین تو اس جہنم کے بھی سب سے خطرناک ” درک اسفل “ میں ہوں گے ‘ سب سے نیچے والے درجے ہیں ۔ درس نمبر 42 تشریح آیات : 135۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ 147 (آیت) ” نمبر 135۔ یہ اہل ایمان کو خصوصی پکار ہے ۔ اس پکار میں ان کے لئے ایک جدید لقب اور ایک نئی صفت کو استعمال کیا گیا ہے اور اس لقب اور صفت میں وہ بالکل منفرد ہیں ۔ اور الذین امنوا کی روح بدل گئی ہے ۔ ان کے تصورات بالکل نئے ہوگئے ہیں ۔ ان کے اصول اور مقاصد بدل کر نئے ہوگئے ہیں ۔ وہ اس جدید انقلابی مہم کے راہنما بن گئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر عظیم ذمہ داریاں عائد کردی گئی ہیں ‘ اب وہ پوری انسانیت کے لئے پاسبان ونگہبان ہیں ۔ وہ لوگوں کے درمیان اب فیصلہ کرنے والے ہیں ۔ اس لئے یہاں (آیت) ” (یایھا الذین امنوا) کے الفاظ نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں ۔ یعنی اس صفت ایمان ہی کی وجہ سے ان پر عالمی قیادت کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے اور پورے عالم کی قیادت کرنا گویا تقاضائے ایمان ہے اور صفت ایمان ہی کے تقاضے کے طور پر مسلمان اس قیادت کے مقام کا چارج لینے کے لئے یہ تیاری کر رہے تھے ۔ اسلامی منہاج تربیت کی یہ ایک نہایت ہی موثر جھلکی ہے ۔ اور امت مسلمہ کو ایک نہایت ہی بھاری ذمہ داری کا چارج دینے سے قبل ہی یہ جھلکی دکھائی گئی اور وہ بھاری ذمہ داری یہ ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا کونوا قومین بالقسط شھداء للہ ولو علی انفسکم اوالوالدین والاقربین ان یکن غنیا اوفقیرا فاللہ اولی بھما “۔ (4 : 135) (اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو انصاف کے علمبردار اور اللہ کے لئے گواہی دینے والے بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے) یہ امانت اور ذمہ داری یہ تھی کہ تم نے عدل قائم کرنا ہے اور یہ عدل مطلق ہوگا جس کا علمبردار تم نے بننا ہے ۔ ہر حال اور ہر میدان میں تم نے انصاف کرنا ہے ۔ ایسا عدل جس کے ذریعے ظلم اور عدوان کی خودبخود نفی ہوجائے اور پورے کرہ ارض پر کہیں بھی ظلم نہ رہے اور یہ ایسا عدل ہو کہ ہر حقدار کو اس کا حق ملے ۔ اس حق رسیدگی میں مومن اور غیر مومن دونوں برابر ہوں جیسا کہ یہودی کے قصے میں واضح طور پر کہا گیا ہے ۔ اس میں رشتہ دار اور غیر رشتہ دار سب برابر ہوں ۔۔۔ دوست اور دشمن سب برابر ہوں۔ غنی اور فقیر کا درجہ ایک ہی ہو ۔ (آیت) ” (کونوا قومین بالقسط شھداء للہ ) (انصاف کے علمبردار اور اللہ کے لئے گواہی دینے والے بنو) یہ انصاف اور شہادت صرف اللہ کے لئے ہو اور اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہو اور شہادت نہ ان کے لئے دی جائے جن کے حق میں دی جارہی ہو اور نہ ان کی وجہ سے دی جائے جن کے خلاف دی جارہی ہے ۔ یہ شہادت نہ کسی فرد اور نہ کسی جماعت کے مفادات کے لیے ہو اور نہ شہادت ان حالات سے متاثر ہو کردی جائے جو اس وقت موجود ہوں یا مقدمہ زیر بحث پراثر انداز ہو رہے ہوں خالصتا اللہ کے لئے اور خالصتا اللہ کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ‘ صرف اس کی رضا کے لئے دی جائے اور ایسے حالات میں کہ کوئی میلان ‘ کوئی رجحان ‘ کوئی مصلحت اور کوئی خواہش اسے متاثر نہ کر رہی ہو ۔ نہ کسی کا لحاظ رکھا جا رہا ہو۔ (آیت) ” ولو علی انفسکم اولوالدین والاقربین “۔ (4 : 135) (اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ ) یہاں اسلامی نظام نفس انسانی کو خود اس کے اپنے خلاف مسلح کر رہا ہے ۔ اپنے جذبات کے ساتھ ‘ اپنی ذات کے خلاف ‘ اپنے والدین کے خلاف اور اپنے رشتہ داروں کے خلاف ‘ اور یہ نہایت ہی دشوار مرحلہ ہے کہ کوئی اپنی ذات کے خلاف فیصلہ کرے ۔ محض زبانی جمع خرچ تو آسان ہوتا ہے لیکن عملا ایسا کرنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے ۔ انسان ذہنی لحاظ سے اس کے بارے میں سوچ تو سکتا ہے کہ ایسا ہونا چاہئے مگر عمل دشوار ہوتا ہے اور اس بات کی اصل مشکلات کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب انسان عملا یہ کام کرے ۔ اس کے باوجود کہ یہ مشکل کام ہے ‘ اسلامی نظام نفس مومنہ کو تقوی کے ذریعے خود اپنی ذات کے خلاف مسلح کر رہا ہے کہ وہ اس خطرناک تجربے میں کود پڑے ‘ اس لئے کہ دنیا کے اندر عدل و انصاف کا یہی معیار ہونا چاہئے کہ کوئی اپنی ذات کے خلاف بھی فیصلہ کر گزرے اگر حق و انصاف اس کا تقاضا کرتے ہوں ۔ اور کچھ لوگ یہ فیصلہ عملا کرکے دکھائیں ۔ اس کے بعد نفس انسانی کو اپنے فطری اور اجتماعی شعور کے خلاف بھی مسلح کیا جاتا ہے کہ جس شخص کے حق میں یا خلاف گواہی دی جارہی ہو وہ غریب ہو ۔ اگر وہ غریب ہے تو مشکل یہ ہوتی ہے کہ کوئی رحمدل انسان اس کے خلاف شہادت دینا گواہی دی جارہی ہو وہ غریب ہو ۔ اگر وہ غریب ہے تو مشکل یہ ہوتی ہے کہ کوئی رحمدل انسان اس کے خلاف شہادت دینا ازروئے رحمدلی ‘ پسند نہیں کرتا اور یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی کمزوری کی وجہ سے اس کے حق میں شہادت دے ۔ یا کسی اجتماعی مرتبہ ومقام کی وجہ سے یا کسی سوسائٹی کی طبقاتی منافرت کی وجہ سے کوئی کسی زیردست کے ساتھ نفرت کرتا ہو یا اگر مدمقابل گنی ہو تو اس کی وجاہت کا لحاظ رکھے اور اس کے خلاف شہادت نہ دے ۔ جاہلیت کے تمام نظاموں میں ایسا ہوتا رہا ہے ۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک گواہ ایک مالدار شخص کے ساتھ نفرت کرے اور اس کی مالداری اور برتری اسے پسند نہ ہو اور اس وجہ سے وہ شہادت حق نہ دے بلکہ مالدار کے خلاف شہادت دے دے ۔ یہ تمام فطری میلانات ہوئے اور جب عملا کسی کو واسطہ پڑتا ہے تو انصاف اور شہادت کے وقت یہ اپنا وزن انسان پر ڈالتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے تمام امور کو لے لیا کہ ذات ہو ‘ اقرباء ہوں ‘ غریب ہو یا امیر تم شہادت حق دو ۔ (آیت) ” ان یکن غنیا اوفقیرا فاللہ اولی بھما “۔ (4 : 135) (فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے) یہ نہایت ہی مشکل اور بھاری کام ہے ۔ اسلام نے اہل ایمان کو عملی زندگی میں ڈالا اور اسے اس قدر بلندی تک پہنچایا کہ انہیں پوری انسانیت نے دیکھ لیا کہ اسلام نے اس کرہ ارض پر عالم انسانیت کے اندر یہ ایک عظیم معجزہ دکھایا تھا ۔ یہ ایک ایسا معجزہ تھا کہ صرف اسلامی نظام کے سایہ ہی میں رونما ہو سکتا تھا ۔ (آیت) ” فلا تتبعوا الھوی ان تعدلوا “۔ (4 : 135) (لہذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ‘) خواہشات نفسانیہ کی کئی اقسام ہوتی ہیں جن میں سے بعض کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ۔ ذات کی محبت ‘ اہل و عیال کی محبت ‘ رشتہ داروں کی محبت ‘ کسی فقیر کے ساتھ رحمدلی ‘ (شہادت کے وقت) کسی غنی کی رعایت اور وجاہت کا لحاظ ‘ کسی امیر یا فقیر سے نفرت وغیرہ سب خواہشات نفسانیہ ہیں ۔ خاندان ‘ قبیلے ‘ قوم ‘ وطن اور حکومت کی طرفداری (شہادت کے وقت) دشمن سے نفرت اگرچہ دین کے دشمن ہوں ۔ غرض خواہشات کی بیشمار قسمیں اور رنگ ہیں ۔ ان تمام خواہشات سے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے متاثر ہونے کو پسند نہیں کرتے ۔ اور اس تاثر کے تحت انصاف اور شہادت حق سے باز رہنے سے منع کرتے ہیں ۔ سب سے آخر میں اس بات پر متنبہ کیا جاتا ہے کہ شہادت کے اندر تحریف ہر گز نہ کرو اور شہادت سے منہ بھی نہ پھیرو۔ (آیت) ” وان تلوا اوتعرضوا فان اللہ کان بما تعملون خبیرا “۔ (4 : 135) (اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔ ) اس معاملے میں صرف یہ یاد دہائی کرائی جاتی ہے کہ تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے تاکہ اہل ایمان کے اندر یہ تاثر پختہ ہوجائے کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو اس کا انجام بہت ہی برا ہوگا تاکہ ان کا دل کانپ اٹھے اس لئے کہ قرآن کریم کی ان آیات کے مخاطب اہل ایمان ہی تو ہے ۔ روایات میں آتا ہے کہ جب عبداللہ ابن رواحہ ؓ کو حضور ﷺ نے خیبر کی محصولات کی وصولی کے لئے بھیجا (یاد رہے کہ ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے نصف محصولات پر فیصلہ کیا تھا) اور وہ فتح خیبر کے بعد وہاں گئے تو یہودیوں نے انکو اس امر کے لئے رشوت دینا چاہی کہ وہ ان کے ساتھ نرمی کریں تو انہوں نے یہودیوں سے کہا : ” خدا کی قسم میں تو ایک ایسے شخص کا نمائدہ ہوں جو اس پوری دنیا سے مجھے زیادہ محبوب ہے ۔ خدا کی قسم تم کو میں بندروں اور خنزیروں سے بھی زیادہ براسمجھتا ہوں لیکن حضور ﷺ کی محبت اور تمہاری نفرت مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تمہارے درمیان عدل کے سوا کچھ اور کروں “۔ اس پر یہودیوں نے کہا کہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے زمین و آسمان کا نظام قائم ہے ۔ عبداللہ ابن رواحہ ؓ مدرسہ رسول اللہ ﷺ کے تعلیم یافتہ تھے ‘ اور ان کی تعلیم وتربیت ربانی منہاج پر ہوئی تھی ۔ وہ انسان تھے اور پورے انسانی جذبات کے ساتھ کسی عدالت کی کرسی پر بیٹھے اور کامیاب رہے ۔ اور ان کے سوا دوسرے بھی کچھ کم نہ تھے جنھوں نے اسلامی نظام کے زیر سایہ معجزہ دنیا کو کر کے دکھایا ۔ سالوں پر سال گزرتے رہے ۔ صدیاں بیت گئیں اور یہ دور بہت دور چلا گیا ہے اور لائبریریاں فقہ اور قانون کی کتابوں سے بھر گئی ہیں ۔ قانونی ضابطوں اور انصاف کے رولز ریگولیش کی بہتات ہوگئی اور قانون اور انصاف کے محکمے اور وزارتیں تشکیل دے دی گئیں ۔ اور دماغ عدل و انصاف کا نام سن سن کر پھرگئے ۔ دنیا میں عدل کرنے کے بارے میں طویل ترین تقاریر اور مقالات پڑھے جانے لگے ۔ عدل و انصاف کے سلسلے میں کئی نظریات پیدا ہوئے اور کئی تنظیمیں وجود میں آئیں اور کانفرنسیں ہوئیں لیکن وہ حقیقی عدل کہاں ہے ؟ اس کا ذائقہ کسی نے نہیں چکھا ۔ یہ عدل لوگوں کے ضمیروں اور ان کی زندگی میں عنقاہی رہا ۔ اور یہ عدل ان انتظامات کے باوجود اس اعلی میعار تک نہ پہنچ سکا جو خیر القرون کا طرہ امتیاز تھا ۔ اس کا حقیقی وجود اگر کہیں تھا تو صرف اسلامی نظام کے دور میں تھا ۔ اس مختصر دور میں عدل کا گراف اس قدر بلندی تک پہنچا اور نبوت اور خلافت راشدہ کے بعد اگر وہ کہیں ملا تو صرف اسلامی معاشرے کے اندر ملا اور صرف ان دلوں میں ملا جن میں اسلام جاگزین تھا اور ان افراد اور ان سوسائٹیوں میں ملا جن کی تربیت اسلامی نظام کے زیر سایہ ہوچکی تھی ۔ جو یقینا ایک واحد اور مثالی عادلانہ نظام ہے ۔ وہ لوگ جو آج کل جدید سے جدید عدالتی نظام تشکیل دیتے ہیں ‘ عدل و انصاف کے لئے جدید سے جدید ذرائع استعمال کرتین ہیں اور عدلیہ کے لئے نہایت ہی پیچیدہ طریقہ کار طے کرتے ہیں ‘ ان لوگوں کو چاہئے کہ وہ ان امور کو بھی مدنظر رکھیں جو ہم نے اوپر دئیے ہیں ۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ طریقہ کار پیچیدہ ہے اور یہ نہایت ہی منظم عدالتی ڈھانچے اس سادہ اور نہایت ہی ابتدائی انتظامات سے زیادہ مفید ہوں گے جو اسلامی دور میں اختیار کئے گئے تھے ۔ یہ جدید لوگ جن کے ہاتھوں میں عدلیہ کا اہتمام ہے ‘ وہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ بہت ہی کامیاب ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ یہ ایک وہم ہے اور یہ وہم اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ لوگ ظاہری حجم کو دیکھ کر حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اشیاء کی حقیقت ان کے ظاہری حجم سے معلوم نہیں ہوتی ۔ یہ اسلامی نظام ہی ہے جو ان سادہ حالات کے اندر اس قدر بلند معیار تک پہنچا اور آج بھی اسلام ہی ہے جو اس سطح تک عدل کے معیار کو پہنچا سکتا ہے ‘ بشرطیکہ اسے اختیار کیا جائے ۔ لیکن اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہم جدید ترقی یافتہ دور میں نظام عدالت کے جدید انتطامات اور ضابطہ ہائے دیوانی اور فوجداری سے فائدہ نہ اٹھائیں یا محکمہ انصاف کی جدید تنظیم اور ترقی یافتہ اشکال کو ختم کرکے ان کی جگہ خلافت راشہ کی سادہ شکل جاری کردیں ۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ اصل مقصد شکل اور تنظیم نہیں ہے بلکہ اصل مطلوب وہ روح ہے جو ظاہری شکل کے اندر کار فرما ہوتی ہے چاہے اس کی ظاہری شکل اور جسامت جو بھی ہو اور وہ نظام کیسے ہی خیالات اور کیسے ہی زمان ومکان میں ہو۔
Top