Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 66
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِھِمْ : اپنے گھر (جمع) وَھُمْ : اور وہ اُلُوْفٌ : ہزاروں حَذَرَ : ڈر الْمَوْتِ : موت فَقَالَ : سو کہا لَهُمُ : انہیں اللّٰهُ : اللہ مُوْتُوْا : تم مرجاؤ ثُمَّ : پھر اَحْيَاھُمْ : انہیں زندہ کیا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر ادا نہیں کرتے
اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لیے اور جو ان کے بعد آنے والے تھے عبرت اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت بنا دیا
فَجَعَلْنٰھَا نَکَالاً ( پس بنا دیا ہم نے اس واقعہ کو عبرت) نَکل کے اصل معنی منع یعنی روکنے کے ہیں چونکہ عبرت۔ صاحب عبرت کے لیے گناہوں اور ناشائستہ افعال سے روکنے والی ہوا کرتی ہے اس لیے اسے بھی نکال بولنے لگے اور اسی وجہ سے قید کو بھی نکل بولتے ہیں کہ وہ اسیر کو فرار سے مانع ہے۔ لِّمَا بَیْنَ یَدَیْھَا وَ مَا خَلْفَھَا ( موجودہ اور گذشتہ لوگوں کے لیے) اس کے یا تو یہ معنی ہیں جو ہم نے ( آیت کے ترجمہ میں) اختیار کئے ہیں اور اس صورت میں ما دونوں جگہ بمعنی من ہوگا اور یا یہ معنی کہ ہم نے اس واقعہ کو ان کی گذشتہ اور آئندہ حرکات اور معاصی کی وجہ سے عبرت بنا دیا۔ اس صورت میں ما اپنے معنی پر رہے گا اور لام تعلیل کا ہوگا اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت کی عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے اور تقدیر عبارت اس طرح ہے فَجَعَلْنَا ھَا وَ مَا خَلْفَھَا نَکَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْھَا اس صورت میں حاصل یہ ہوگا کہ ہم نے اس واقعہ کو اور جو اس کے بعد اس کی عقوبت قیامت میں مرتب ہوگی ان کے موجودہ گناہوں کی وجہ سے عبرت بنا دیا (اس میں سراسر تکلف ہے) وَ مَوْعِظَۃ لِّلْمُتَّقِیْنَ ( اور پرہیزگاروں کیلئے نصیحت) متقین سے امت محمدیہ کے متقی مؤمن مراد ہیں۔
Top