Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
اور بعض آدمی وہ ہے کہ پسند آتی ہے تجھ کو اس کی بات دنیا کی زندگانی کے کاموں میں392 اور گواہ کرتا ہے اللہ کو اپنے دل کی بات پر اور وہ سخت جھگڑالو ہے
392 ۔ ربط :۔ یہاں تک تو حج کے ضروری احکام کا بیان تھا۔ حکم جہاد کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میرے گھر کی اس طریقے سے حاضری دو اور اس طریقہ سے مجھ سے دعا مانگو تو میں تمہیں فتح دوں گا۔ اب آگے پھر جہاد کا حکم آرہا ہے۔ چناچہ اگلی آیت سے جہاد کی دوسری بارترغیب وتحضیض شروع ہورہی ہے۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ سے لے کرفَاِنَّ اللهَ بِهٖ عَلِیْم تک ترغیب الی الجہاد ہے۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے کئی طریقوں سے جہاد کی ترغیب دی ہے۔ (1) شروفساد برپا کرنے والے اور فتنہ انگیز عناصر جنہوں نے زمین کو فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنایا ہوا ہے ایسے لوگوں کا خاتمہ کیوں نہیں کردیتے ہو۔ ایسے شریر لوگوں سے جہاد نہ کرنا بھی اتباع شیطان میں داخل ہے۔ (2) جہاد کے ذریعے خدا کی رضا حاصل کرو۔ (2) اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور اس کے تمام احکام مانو ان میں سے ایک جہاد بھی ہے (4) اگر خدا کے احکام سے سرتابی کروگے تو سخت سزا ملے گی بنی اسرائیل کا حال دیکھ لو خدا کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کا کیا حشر ہوا۔ (5) مشرکین اور کفار دولت دنیا کے نشہ میں بدمست ہو کر اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لہذا ان سے جہاد کرو۔ (6) اللہ کے فطری دین توحید میں لوگوں نے اختلاف پیدا کر رکھا ہے ان کی بیخ کنی کرو۔ (7) جنت میں جانا آسان کام نہیں۔ اس کی خاطر تمہیں مال وجان کی قربانی دینی پڑے گی (8) اللہ کے دین کی خاطر جہاد میں جو کچھ بھی خرچ کروگے وہ ضائع نہیں جائے گا۔ یہ پہلی ترغیب ہے۔ یعنی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو محض دنیوی اغراض ومقاصد کے پیش نظر آپ سے ایسی میٹھی اور فصیح وبلیغ باتیں کرتے ہیں کہ آپ ان کی باتوں کو بہت وقعت دینے لگتے ہیں اور ان کو پسند کرتے ہیں۔ المعنی ومنھم من یروقک ویعظم فی نفسک ما یقولہ (روح ص 94 ج 2، مدارک ص 81 صج 1) بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد اخنس بن شریق ہے جو بہت بڑا منافق تھا مگر محققین کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ہر اس ادمی کے حق میں ہے جو ان آیات میں مذکورہ اوصاف کا حامل ہو۔ القول الثانی وھو اختیار اکثر المحققین والمفسرین ان ھذہ الایۃ عامۃ فی حق کل من کان موصوفاً بھذہ الصفات المذکورۃ (کبیر ص 277 ج 2) وَيُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِهٖ ۙ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ ۔ اللہ کو گواہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ قسمیں کھاتے ہیں یا مطلب یہ ہے کہ وہ " خدا شاہد ہے، خدا گواہ ہے " وغیرہ الفاظ کہتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے مافی الضمیر کی سچائی پر خدا کو گواہ بناتے ہیں۔ اور قسمیں کھا کھا کر آپ کو اپنے اخلاص کا یقین دلاتے ہیں حالانکہ وہ آپ کے شدید ترین مخالف ہوتے ہیں۔
Top