Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی باتیں تو اس دنیا کی زندگی میں تمہیں بڑی میٹھی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی دلی نیت پر خدا کو گواہ بھی بناتے ہیں لیکن ہیں وہ کٹر دشمن۔
منافقین کردار کے کمزور اور گفتار کے غازی ہوتے ہیں : یہ اشارہ ہے منافقین کی طرف۔ جن لوگوں کے کردار کمزور ہوتے ہیں، عموماً وہ گفتار کے بڑے غازی ہوتے ہیں۔ یہ اپنی عملی کمزوریوں پر اپنی چرب زبانی اور خوش گفتاری سے پردے ڈالنے اور مخاطب کی نیک نیتی اور کریم النفسی سے فائدہ اٹھا کر اس کو اپنے طرز عمل کے بارے میں مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مدینہ کے منافقین میں بھی ایک گروہ ایسے لوگا کا تھا۔ یہ لوگ کھاتے پیتے، سہل پسند، تن آسان اور چرب زبان تھے۔ شکلیں اچھی، لباس صاف ستھرے، مجلسی آداب میں مشاق لیکن دل کے بودے اور عمل کے چور تھے۔ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اسلام کی حمایت میں آسمان و زمین کے قلابے ملاتے لیکن جب وہاں سے ہٹتے تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اسلام کی مخافت کی راہ میں ہوتی۔ انہی لوگوں کی تصویر سورة منافقون میں ان الفاظ میں کھینچی گئی ہے“ وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ : اور جب تم ان کو دیکھتے ہو تو ان کی شکلیں تمہیں اچھی لگتی ہیں اور اگر وہ بات کرتے ہیں تو ان کی چرب زبانی کی وجہ سے تم ان کی بات سنتے ہو (لیکن حقیقت میں یہ) لکڑی کے کندوں کی مانند ہیں جن کو ٹیک لگا دی گئی ہو، یہ ہر خطرے کو اپنے ہی اوپر سمجھتے ہیں، اصلی دشمن یہی ہیں، پس ان سے بچ کر رہو۔ اللہ انہیں ہلاک کرے، یہ کس طرح اوندھے ہوئے جاتے ہیں ”(منافقون :4)۔ یعنی ان کے پلے ہوئے جسم اور پالش کی ہوئی شکلیں بظاہر دل کو لبھاتی ہیں اور ان کی چکنی چپری باتیں جو یہ تمہیں خوش کرنے کے لیے کرتے ہیں، حمایت اسلام کے جوش میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں اس وجہ سے تمہیں دل کش معلوم ہوتی ہیں اور تم ان کی یہ باتیں سنتے ہو، لیکن حقیت میں یہ اندر سے بالکل کھوکھلے ہیں۔ ان کے سینوں میں نہ دل ہیں، نہ ایمان نہ اسلام۔ یہ بالکل لکڑی کے کھوکھلے کندوں کے مانند ہیں جن کو گویا لباس پہنا کر دیواروں سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا گیا ہے۔ دولت ایمان سے محروم ہونے کے سبب سے یہ انتہا درجہ کے بزدل ہیں اس وجہ سے یہ ہر خطرے کو اپنے ہی اوپر آتا دیکھتے ہیں اور اپنی اس بزدلی کو اپنی چکنی چپڑی باتوں کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تمہاری توجہ ہٹانے کے لیے تو دوسروں کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں کہ وہ اسلام کے لیے خطرہ ہیں لیکن اسلام کے لیے حقیقی خطرہ خود ان کے نفاق اور ان کی بزدلی کی طرف سے ہے اس وجہ سے ان کی طرف سے پوری طرح ہوشیار رہو۔ بعینہ یہی بات اس زیر بحث آیت میں فرمائی گئی ہے کہ جہاں تک ان کی باتوں کا تعلق ہے یہ دل کو بڑی موہ لینے والی ہوتی ہیں لیکن یہ ساری باتیں ملمع کی ہوئی ہیں اور اس ملمع کی یہ مصنوعی آب و تب چند روزہ ہے۔ اس دنیا میں بیشک وہ ان جھوٹے موتیوں سے لوگوں کو جل دینے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن عنقریب وہ دن آنے والا ہے جب جھوٹے اور سچے اور کھرے اور کھوٹے میں امتیاز ہوجائے گا اور ان کے چہرے کی یہ پر فریب نقاب اتر جائے گی۔ وَيُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِهٖ (اور وہ اپنے دل کی نیت پر خدا کو گواہ ٹھہراتا ہے)۔ خدا کو گواہ ٹھہرانے کے معنی خدا کی قسم کھانے کے ہیں۔ منافق کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو معتبر ثابت کرنے کے لیے بات بات پر قسم کھاتا ہے۔ اس کے پاس چونکہ کردار کی حجت نہیں ہوتی اس وجہ سے ہر قدم پر قسم کو بطور دلیل پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جھوٹا آدمی، اپنی نفسیاتی کمزوری کی وجہ سے، سمجھاتا ہے کہ مخاطب اس کی بات اس وقت تک باور نہیں کرے گا جب تک وہ اس کو قسم کھا کر یقین نہ دلائے۔ ایک راستباز اور صاحب کردار اپنے عمل پر اعتماد کرتا ہے اور جب اس پر کوئی گرفت ہوتی ہے تو وہ اپنے عمل ہی کی دلیل سے اس کی مدافعت کرتا ہے لیکن ایک منافق کے پاس چونکہ عمل کا سہارا نہیں ہوتا اس وجہ سے جب اس پر کوئی گرفت ہوتی ہے تو وہ قسم کو اپنی ڈھال بناتا ہے اور اسی کے سہارے لوگوں کی گرفت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ سورة منافقون میں منافقین کے اس کردار کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے“إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (1) اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (2): جب تمہارے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ خوب جانتا ہے کہ بیشک آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ بیشک یہ منافق بالکل جھوٹے ہیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اس طرح وہ اللہ کے راستہ سے رک گئے ہیں۔ بہت ہی بری ہے وہ حرکت جو یہ کر رہے ہیں ”(منافقون :1-2)۔ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ ، خصام خصم کی جمع ہے اور اَلَد کے معنی شدید الخصومۃ کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو ان کی باتیں تمہارے سامنے بڑی چکنی چپڑی ہوتی ہیں لیکن ان کے دلوں کے اندر تمہارے اور اسلام کے خلاف نہایت شدید قسم کا بغض و حسد بھرا ہوا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف سورة منافقون میں“ ھم العدو فاحذرہم : اصلی دشمن وہی ہیں، ان سے بچ کے رہو ”کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔
Top