Kashf-ur-Rahman - An-Noor : 51
اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں كَانَ : ہے قَوْلَ : بات الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اِذَا : جب دُعُوْٓا : وہ بلائے جاتے ہیں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَنْ : کہ۔ تو يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی وَاُولٰٓئِكَ : اور وہ هُمُ : وہی الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
مخلص مسلمانوں کی بات تو بس یہ ہے کہ جب ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف اس غرض سے بلایا جاتا ہے کہ رسول ان کے مابین فیصلہ کردے تو وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور قبول کیا اور یہی لوگ ہی حقیقی فلاح پانے والے
(51) مخلص مسلمانوں کی بات تو بس یہ ہے کہ جب ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف اس غرض سے بلایاجاتا ہے کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کردے تو وہ انبساط قلب کے ساتھ یہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور قبول کیا اور یہی لوگ حقیقی فلاح پانے والے ہیں۔ یعنی منافقین کی حالت تو معلوم ہوچکی اس کے مقابلے میں ایمان والوں کی یہ حالت ہے کہ جب ان کو فصل خصومات کے سلسلے میں طلب کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رسول تمہارے مقدمہ کا فیصلہ کرے گا تو یہ اہل ایمان سمعنا واطعنا کہتے ہوئے دوڑتے چلے آتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ دین و دنیا میں فلاح پانے والے ہیں۔
Top