Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 160
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَثِیْرًاۙ
فَبِظُلْمٍ : سو ظلم کے سبب مِّنَ : سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : جو یہودی ہوئے (یہودی) حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر طَيِّبٰتٍ : پاک چیزیں اُحِلَّتْ : حلال تھیں لَهُمْ : ان کے لیے وَبِصَدِّهِمْ : اور ان کے روکنے کی وجہ سے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَثِيْرًا : بہت
تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو حلال تھیں ان کو حرام کردیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر خدا کے راستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے۔
تتمہ ذمائم یہود۔ قال اللہ تعالی، فبظلم من الذین۔۔۔ الی۔۔۔ عظیما۔ گزشتہ آیات میں یہود کی نافرمانیوں اور سرکشیوں کو بیان فرمایا اور اب ان آیات میں بھی ان کی چند نافرمانیوں اور سرکشیوں کا ذکر کرتے ہیں مثلا سود کھانا اور رشوت لینا اور خدا کی راہ سے روکنا اور لوگوں کا مال ناحق اپنے تصرف میں لانا اور ان شرارتوں کے علاوہ ان بعض عقوبتوں اور سزاؤں کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ جو دنیا میں ان پر نازل ہوئیں من جملہ ان سزاؤں میں سے ایک سزایہ تھی کہ بہت سی حلال چیزیں ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر حرام کردی گئیں جیسا کہ سورة انعام کی آیت میں اس کی تفصیل ہے، وعلی الذین ھادوا۔۔۔ الی۔۔۔ لصادقون۔ آیت۔ یعنی ان پر حلال چیزوں کے حرام ہونے کی علت وہی ان کی سرکشی اور ظلم اور زیادتی اور سود خوری اور رشوت ستانی وغیرہ وغیرہ ہے رہا یہ امر کہ یہ چیزیں کس زمانہ میں اور کسی نبی کے عہد میں یہود پر حرام ہوئیں سو کتب تفسیر میں اس کی تصریح نہیں غالبا یہ چیزیں حضرت موسیٰ کے بعد مختلف زمانوں میں حرام ہوئیں جیسے جیسے یہود کی شرارت بڑھتی گئی حرام ہوتی گئیں۔ واللہ اعلم پس خلاصہ کلام یہ کہ یہودیوں کے عظیم ظلم اور زیادتی کی وجہ سے جس کی کچھ تفصیل پہلے بیان کی جاچکی ہے اور کچھ آئندہ آتی ہے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں حرام کردیں جو پہلے ان کے لیے حلال کی گئی تھیں یعنی جب یہود کے ظلم و زیادتی اور عناد اور سرکشی کی کوئی حد نہ رہی تو اللہ نے ان کو یہ سزا دی کہ جو چیزیں پاک اور حلال تھیں وہ ان پر حرام کردیں تاکہ رزق کا دائرہ تنگ ہوجائے اور ان کی سرکشی ٹوٹے اور بسبب ان کے روکنے کے خدا کی راہ سے بہتوں کو یعنی ہم نے ان پر پاک چیزوں کو ان کے ظلم کے سبب سے حرام کیا اور نیز اس لیے بھی حرام کیا کہ وہ بہتوں کو خدا کی راہ سے روکتے تھے اور بسبب ان کے سود لینے کے حالانکہ ان کو اس کی ممانعت کی گئی تھی اور بسبب اس کے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق کھالیتے تھے اور ان وجوہ کی بناء پر ہم نے حلال چیزیں ان پر حرام کردیں یہ تو دنیا کی سزا تھی اور آخرت میں ہم نے ان کے لیے جو انمیں سے کافر ہیں دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے پس عام حالت تو اہل کتاب کی یہی ہے جو بیان کی گئی لیکن ان میں سے جو علم میں پختہ اور مضبوط ہیں جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے رفقاء جن کی ان بشارتوں پر نظر ہے جو انبیاء سابقین نے نبی آخر الزمان کے ظہور کی دی ہیں سو یہ لوگ اور دیگر مسلمان ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو آپ کی طرف اتاری گئی اور اس کتاب پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور خاص کر وہ لوگ جو نماز کو قائم رکھتے ہیں اور وہ قابل صد آفرین ہیں اور وہ لوگ جو زکوٰۃ دیتے ہیں وہ بھی اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو آپ پر اترا ہے اور آپ سے پہلے نبیوں پر جو اترا ہے اور وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور پچھلے دن پر یعنی اللہ کی واحدانیت پر قیامت کی تصدیق کرنے والے ہیں اور امبداء اور معاد کو امانتے ہیں یہ بھی اس چیز پر جو آپ پر اور پچھلے پیغمبروں پر اتری ہے ایمان لاتے ہیں ایسے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم دیں گے جو ان کے وہم گمان سے کہیں بالا ہوگا۔ (ف 1) والمقمین الصلاۃ پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ قواعد نحویہ کے مطابق والمقیمون ہونا چاہیے تھا کیونکہ معطوف علیہ مرفوع ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب چند مرفوعات کا بطور عطف ذکر ہوتا ہے اور ان میں سے ایک چیز سب سے اشرف ہوتی ہے تو اہل عرب اس کو اپنے کلام میں بطور مداح یا بطور اختصاص منصوب لاتے ہیں جو امدح یا اخص ہوتا ہے اسی قاعدہ کے مطابق اس جگہ والمقین منصوب لایا گیا اور مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں میں اوصاف مذکورہ پائے جاتے ہیں اگرچہ وہ اوصاف سب کے سب نہایت عمدہ ہیں مگر نماز ان میں سے خصوصیت سے قابل ذکر ہے اور اس وجہ سے شاہ عبدالقادر نے والمقیمین الصلاۃ کا ترجمہ اس طرح فرمایا اور آفرین نماز قائم رکھنے والوں کو، اور شاہ ولی اللہ نے اس طرح ترجمہ فرمایا ومدح می کنم برپا داردندگان نماز را، باپ اور بیٹے کے ترجموں میں اشارہ ہے اس طرف کہ والمقیمین الصلاۃ منصوب علی المدح والا اختصاص ہے۔ 2) ۔ واخذھم الربو وقدنھوا عنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت موسویہ میں بھی سود حرام تھا۔ لطائف ومعارف اللہ جل شانہ نے ان آیات میں یہود کے قبائح اور فضائح کو بیان کیا اور خاص طور پر ان کے اس قول کی تردید کی اور تکذیب کی کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا کہ ان کا یہ قول بالکل غلط ہے وہ نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے بلکہ اس کے برعکس اللہ نے حضرت عیسیٰ کو بےمثال عزت و رفعت عطا کی کہ ان کو آسمان پر اٹھا لیا کما قال تعالیٰ وما قتلوہ، یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ۔ اور اس کے علاوہ حق تعالیٰ نے ان آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ایک دوسری پیش آنے والی عظیم الشان عزت و شوکت کی خبر دی کہ وہ قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور اس وقت ان کی شان و شوکت وجاہ جلال کو دیکھ کر اہل کتاب میں سے ہر شخص حضرت عیسیٰ پر ان کی موت سے پہلے ضرور ایمان لے آئے گا پھر قیامت کے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر گواہی دیں گے اب ہم اس اجمال کے بعد مضامین مذکورہ بالا کی قدرے تفصیل اور تشریح کرنا چاہتے ہیں تاکہ ناظرین کرام کے لیے موجب ہدایت وطمانینت ہو۔ اس سلسلہ میں مناسب بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے دلائل وبراہین سے اس امر کو واضح کردیا جائے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قطعا مقتول اور مصلوب نہیں ہوئے بلکہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے جیسا کہ اللہ نے خبر دی ہے وماقتلوہ وماصلبوہ اور وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ۔ اور اللہ نے جو خبر دی ہے وہی حق اور صدق ہے ومن اصدق من اللہ قیلا۔ آیت۔
Top