Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 34
وَّ كَانَ لَهٗ ثَمَرٌ١ۚ فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا
وَّكَانَ : اور تھا لَهٗ : اس کے لیے ثَمَرٌ : پھل فَقَالَ : تو وہ بولا لِصَاحِبِهٖ : اپنے ساتھی سے وَهُوَ : اور وہ يُحَاوِرُهٗٓ : اس سے باتیں کرتے ہوئے اَنَا اَكْثَرُ : زیادہ تر مِنْكَ : تجھ سے مَالًا : مال میں وَّاَعَزُّ : اور زیادہ باعزت نَفَرًا : آدمیوں کے لحاظ سے
اور اس کا کچھ اور بھی مال تھا تو (ایک مرتبہ ترنگ میں آکر) وہ اپنے ساتھی سے بات کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں تجھ سے مال میں بھی بہت زیادہ ہوں، اور جتھے کے اعتبار سے بھی تجھ سے کہیں زیادہ طاقتور ہوں،
66۔ اور اس کیلئے اور مال بھی تھا :۔ یعنی اس شخص کے پاس ان دو باغوں کے علاوہ اور کبھی کئی طرح کا مال تھا اور ثمر کا اطلاق مال پر بھی ہوتا ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس انگوروں اور کھجوروں کے علاوہ اور بھی طرح طرح کے پھل تھے۔ حضرات مفسرین کرام نے دونوں مطلب بیان کئے ہیں۔ (روح، ابن کثیر، مراغی، محاسن، وغیرہ ) ۔ بہرکیف اپنے اس مال ودولت کی کثرت کی بناء پر اس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا کہ میں تم سے کہیں بہتر ہوں۔ سو رب تعالیٰ کی ایسی نعمتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ ایسا شخص اپنے رب کے حضور سراپا شکروسپاس بن جاتا اور اپنے ہر بن مو سے اس واہب مطلق کا شکرادا کرتا۔ اور اس طرح وہ نعمت اس کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ اور وسیلہ بن جاتی۔ مگر اس نے کفر وانکار اور ناسپاسی کا ارتکاب کرکے اس کو اپنے لئے باعث وبال بنادیا اور اس طرح فوز دارین کی راہ سے منہ موڑ کر اس نے مہالک کے راستے کو اپنایا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح سے اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین ! 67۔ دنیا دار شخص کے کبر و غرور کا حال :۔ سو اس منکر و متکبر شخص نے اپنے مومن ساتھی کے مقابلے میں اظہار تکبر کرتے ہوئے کہا کہ میں تم سے مال میں بھی زیادہ ہوں اور جتھے کے لحاظ سے بھی۔ لہذا میں تم سے بہتر ہوں کہ تم مال میں بھی مجھ سے کم ہو اور جتھا اور پارٹی کے اعتبار سے بھی میرے مقابلے میں کمزرو ہو۔ اور روایات کے مطابق اور محوی کلام الہی کے بموجب اس کے مومن ساتھی نے جب اس کو ازراہ نصیحت و خیرخواہی دین و ایمان کی بات کی۔ اس کو کفران نعمت اور ناشکری کے انجام سے خبردار کیا۔ اور اس کو آخرت اور وہاں کی باز پرس کی یاددہانی کرائی تو اس نے اس کے جواب میں اپنی ترنگ اور تکبر میں اس کو اس طرح جواب دیا اور حق و ہدایت کی بات ماننے اور کلمہ نصیحت و خیرخواہی قبول کرنے کی بجائے اس نے اس سے بحث شروع کردی کہ تم مجھے کیا نصیحت کرسکتے ہو۔ جبکہ تم میرے برابر کے بھی نہیں ہو کہ میرے پاس مال ودولت بھی تم سے زیادہ ہے اور میں جتھا اور پارٹی کے لحاظ سے بھی تم سے کہیں بڑھ کر عزت و عظمت رکھتا ہوں۔ سو میں صحیح راستے پر اور بالکل ٹھیک جارہا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اور یہی حال ابناء دنیا کا کل تھا، اور یہی حال انکا آج بھی ہے الا ماشاء اللہ۔
Top