Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 200
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا١ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ
فَاِذَا : پھر جب قَضَيْتُمْ : تم ادا کرچکو مَّنَاسِكَكُمْ : حج کے مراسم فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَذِكْرِكُمْ : جیسی تمہاری یاد اٰبَآءَكُمْ : اپنے باپ دادا اَوْ : یا اَشَدَّ : زیادہ ذِكْرًا : یاد فَمِنَ النَّاسِ : پس۔ سے۔ آدمی مَنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي : میں اَلدُّنْیَا : دنیا وَمَا : اور نہیں لَهٗ : اس کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت مِنْ خَلَاقٍ : کچھ حصہ
پھر جب تم پورے کر چکو اپنے حج کے ارکان تو قیام منیٰ کے دوران اپنے باپ دادوں کے مفاخر و مآثر بیان کرنے کے بجائے تم لوگ یاد کرو اپنے اللہ کو جیسا کہ تم نے یاد کیا کرتے تھے اپنے باپ دادا کے مفاخر کو بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر یاد کرو اس وحدہ لا شریک کو مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی کوتاہ نظری سے دنیائے فانی کا ہی سوال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو دنیا میں ہی دے دے جو کچھ دینا ہے ایسوں کو دنیا میں تو اس کی حکمت و مشیت کے مطابق جو کچھ ملنا ہوا مل جائے گا مگر ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا3
557 آباؤ اجداد کی بجائے اللہ کو یاد کرنے کی ہدایت و ارشاد : سو تم لوگ دل و جان سے یاد کرو اللہ کو تاکہ اس طرح تم دارین کی سعادتوں سے بہرہ ور ہو سکو، کہ اللہ اپنے خالق ومالک کی یاد دلشاد انقلاب آفریں اور حیات بخش سعادت ہے۔ اور اس سے محرومی موت ہے۔ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ جبکہ اپنے باپ دادوں کے تذکروں اور ان کے مفاخر گنوانے سے جھوٹی نخوت اور تکبر کے سوا تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا، کہ وہ دنیا سے کفر ہی کی حالت میں گئے، اور کفر پر مرنے والے باپ دادوں سے انتساب پر فخر کرنا اپنی ہلاکت و تباہی میں اضافے کا باعث ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو فخر کی چیز یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ کون حق و ہدایت کی دولت بےمثال و لازوال سے زیادہ بہرہ مند اور مالا مال تھا۔ بہرکیف قرآن حکیم نے انکو ارشاد فرمایا کہ اپنے باپ دادا کے مفاخر بیان کرنے کے غلو مشاغل کو ترک کرکے اللہ کے ذکر کو اپناؤ تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کہ اللہ تعالیٰ کی یاد دلشاد دلوں کی زندگی اور اس سے محرومی دلوں کی موت ہے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 558 ذکر خداوندی کی عظمت شان : سو ارشاد فرمایا گیا پس تم لوگ ذکر اس اللہ کا کرو جس کی نعمتوں اور رحمتوں و عنایتوں کا کوئی کنارہ اور ٹھکانا نہیں۔ اور اس کی یاد دلشاد میں خود تمہارا اپنا ہی بھلا ہے، اور اس کے عبید اور بندے ہونے کے اعتبار سے یہ اس کا تم پر حق بھی ہے۔ سو ذکر خداوندی ایک عظیم الشان نعمت اور جلیل القدر عبادت ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس تم لوگ ہمیشہ اور ہر حال میں اور دل و جان سے اس کی یاد دلشاد سے سرشار رہو ۔ اَللّھُمّ فَخُذْنَا بِنَواصِیْنَا اِلٰی مَا فِیْہ حَبُّکَ وَرِضَاکَ بِکُل حَالٍ مِنَ الاَحْوَال " ۔۔ سو ذکر اور یاد خداوندی دلوں کی دنیا کو آباد اور زندہ کرنے والی ایک عظیم الشان اور بےمثال عبادت ہے۔ اور یہ ایسی عظیم الشان اور بےمثال عبادت ہے کہ انسان اس سے ہر حال میں اور ہر جگہ اور ہر وقت سرشار ہوسکتا ہے۔ اس میں نہ کوئی رکاوٹ نہ کوئی مشکل۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل۔ 559 اصل معاملہ مشیئت خداوندی پر ہے : یعنی دنیا کا ملنا بھی ان کی مرضی و خواہش پر نہیں، بلکہ ہماری مرضی اور مثیئت پر موقوف ہے۔ ہم جس کو چاہیں، اور جتنا اور جو چاہیں، اور جیسا چاہیں عطاء کریں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { عَجَّلْنَا لَہٗ فِیْہَا مَا نَشَآئُ لِمَنْ نُّرِیْدُ } ۔ (بنی اسرائیل : 18) ۔ سو اصل چیز مشیئت ومرضی خداوندی ہے۔ سب کچھ اسی کے تابع ہے۔ اس کی کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اسی کی مشیئت ومرضی سے ہوتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ مگر ابنائ دنیا اس ایمان و یقین سے محرومی اور اس حقیقت سے اپنی بیخبر ی کے باعث دنیا کے متاع فانی اور حطام زائل ہی کو اپنا مقصد حیات اور مطمح نظر بنائے ہوئے ہیں، اور اسی بناء پر انہوں نے زمانہ جاہلیت میں حج جیسی مقدس عبادت کو ایک تجارتی میلے کی شکل میں بدل کر رکھ دیا تھا، اور اسی بیماری کے مریض اور اس کے جراثیم کے حامل دور حاضر کے وہ لوگ ہیں جو حج کو ایک سالانہ کانفرنس کے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ حج کی اصل روح " ہجرت الی اللہ " ہے، اس کے دنیوی فوائد محض ضمنی حیثیت رکھتے ہیں۔ سو اس عبادت مقدسہ کی روح اور اس کے اصل مقصد کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ وباللہ التوفیق - 560 طالبان دنیا کیلئے آخرت کی محرومی : کیونکہ آخرت انہوں نے مانگی ہی نہیں، ان کی ساری تگ و دو بس دنیا اور اس کے متاع فانی ہی تک محدود رہی، اور آخرت کی حقیقی اور ابدی زندگی کو وہ بھول بیٹھے تھے، اس لئے وہاں ان کیلئے دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات کے علاوہ سورة بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا آیت کریمہ میں ہی ارشاد فرمایا گیا { ثُمَّ جَعَلْنَا لَہ جَہَنَّمَ یَصْلٰہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا } (بنی اسرائیل۔ 18) " یعنی دنیا کے بعد آخرت کے اس ابدی جہاں میں ایسے لوگوں کو جہنم کے اندرداخل ہونا ہوگا، ذلیل و خوار ہو کر ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور یہی ہے وہ سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ جس جیسا دوسرا کوئی خسارہ نہیں ہوسکتا، اور جس کی تلافی وتدارک کی بھی پھر کوئی صورت ممکن نہیں ہوگی اور یہی ہے سب سے بڑا خسارہ ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ جَلَّ وَعَلَا -
Top