Dure-Mansoor - Al-Baqara : 201
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : بھلائی وَّفِي الْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں حَسَنَةً : بھلائی وَّقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو دنیا میں بہترین عطا فرمائیے اور آخرت میں بہتری عنایت کیجئے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیے
(1) ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذا قضیتم مناسککم “ سے مراد ہے ” حجکم “ یعنی تمہارا حج۔ (2) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذا قضیتم مناسککم “ سے مراد ہے ” حجکم “ یعنی تمہارا حج۔ (3) عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذا قضیتم مناسککم “ سے مراد ہے خونوں کا بہانا (اور) لفظ آیت ” فاذکر واللہ کذکرکم اباء کم “ سے مراد ہے قربانی کے دن عرب کے لوگوں اپنے آباؤ اجداد کے کاموں پر فخر کرتے تھے جب (حج سے) فارغ ہوجاتے تھے۔ تو ان کو اس جگہ اللہ کے ذکر کا حکم دیا گیا۔ (4) بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مشرکین (مکہ) حج (کے ایام) میں بیٹھ کر اپنے آباؤ اجداد کے دنوں کو یاد کیا کرتے تھے اور اپنے نسبوں کو شمار کیا کرتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے زمانہ اسلام میں اپنے رسول پر (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” فاذکروا اللہ کذکرکم اباء کم وا اشد ذکرا “۔ (5) ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور الضیاء نے المختارہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اہل جاہلیہ موسم (حج) میں ٹھہر جاتے تھے ان میں سے ایک آدمی کہتا تھا میرا باپ کھانا کھلاتا تھا اور (لوگوں کے) بوجھ اٹھاتا تھا اور برداشت کرتا تھا اپنے آباؤ اجداد کے کاموں کے علاوہ اور ان کا ذکر نہیں ہوتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” فاذکروا اللہ کذکرکم اباء کم او اشد ذکرا “ (6) ابن ابی حاتم اور طبرانی نے عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ جب حج سے فارغ ہوجاتے تھے تو اپنے آباہ اجداد پر فخر کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت ” فاذکروا اللہ کذکرکم اباء کم “۔ (7) ابن جریر اور ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب حج کے احکام پورے کرلیتے تھے تو جمرہ کے پاس ٹھہر جاتے تھے تو اپنے آباؤ اجداد کو یاد کرتے تھے اور ایام جاہلیت میں اپنے کارناموں کو یاد کرتے تھے اور اپنے آباؤ اجداد کے کاموں کو یاد کرتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حج کے موسم میں ذکر اللہ میں کثرت کرنا (8) الفاکہی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں اپنے آباؤ اجداد کو یاد کرتے تھے اور ان میں سے ایک کہتا تھا میرا باپ کھانا کھلایا کرتا تھا دوسرا کہتا تھا کہ میرا باپ تلوار سے جنگ کرتا تھا۔ تیسرا کہتا کہ میرا باپ ماتھے کے بال کاٹ دیتا تھا۔ تو یہ (آیت) نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” فاذکروا اللہ کذکرکم اباء کم “۔ (9) امام وکیع اور ابن جریر نے سعید بن جبیر و عکرمہ رحمہما اللہ دونوں سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں کا تذکرہ کرتے تھے جب عرفات میں ٹھہرتے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” فاذکروا اللہ کذکرکم اباء کم “ (10) وکیع عبد بن حمید نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ جاہل لوگ جب منی میں آتے تھے تو اپنے آباؤ اجداد اور اپنی مجالس پر آپس میں فخر کرتے تھے کوئی کہتا کہ میرے باپ نے اس طرح اور اس طرح کیا اور کوئی کہتا میرے باپ نے اس طرح اور اس طرح کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فاذکروا اللہ کذکرکم اباء کم “ (11) ابن ابی حاتم نے عطا بن أبی رباح (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فاذکروا اللہ کذکرکم اباء کم اواشد ذکرا “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ ایک بچے کے بارے میں کہ وہ زبان کھولتا ہے تو اپنے باپ اور اپنی ماں کو پکارتا ہے (فرمایا اللہ کو یاد کرو) ۔ (12) ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” کذکرکم اباء کم “ کے بارے میں پوچھا گیا کہ انسان پر ایک دن ضرور آتا ہے جس میں وہ اپنے باپ کو یاد نہیں کرتا (تو اللہ تعالیٰ یہ تشبیہ کیوں دی کہ اللہ کو باپ کی طرح یاد رکھے ابن عباس ؓ نے فرمایا ایسا نہیں ہے کہ لیکن اس کا یہ مطلب ہے کہ جیسا اللہ کی نافرمانی کی جائے تو اللہ کے لئے زیادہ ناراض ہو بنیست اس ناراضگی کے۔ جب تیرے والدین کا برائی کے ساتھ ذکر کیا جائے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدنیا “ (الآیہ) (13) امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ دیہاتی لوگ موقف کی طرف آتے اور کہتے تھے اے اللہ اس (سال کو بارش والا سال بنا دے اور سرسبزی والا سال بنا دے اور اچھی اولاد والا سال بنا دے اور اچھی آخرت کا کچھ بھی ذکر نہ کرتے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت لفظ آیت ” فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدنیا وما لہ فی الاخرۃ من خلاق “ (یعنی دنیا و آخرت کی بھلائی مانگتے تھے) پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ بھی آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” اولئک لہم نصیب مما کسبوا، واللہ سریع الحساب (202) “ (14) امام طبرانی نے عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ جب مشعر الحرام کے پاس کھڑے ہوتے تھے تو دعا کرتے تھے اور ان میں سے ایک دعا کرتے ہوئے کہتا تھا اے اللہ مجھے اونٹ عطا فرمائیے اور دوسرا کہتا تھا اے اللہ مجھے بکریاں عطا فرمائیے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدنیا “ الی قولہ لفظ آیت ” واللہ سریع الحساب “ تک۔ دور جاہلیت کا طواف (15) ابن جریر نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدنیا “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ لوگ اللہ کے گھر کا ننگے ہو کر طواف کرتے تھے اور یہ دعائیں کرتے تھے۔ اے اللہ ہم کو پانی پلا۔ اور ہم کو ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما اور ہم کو صالحین کی طرف پھیر دے۔ (16) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ یوں کہتے تھے لفظ آیت ” ربنا اتنا رزقا ونصرا “ (اے ہم کو رزق عطا فرما اور ہماری مدد فرما) اور اپنی آخرت کے لئے کچھ بھی سوال نہ کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “۔ (17) ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابو یعلی نے حضرت أنس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے لفظ آیت ” اللہم ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار (201) “۔ (18) ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابو یعلی، ابن حبان، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الشعب میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں میں سے ایک آدمی کی طرف تشریف لے گئے (تو دیکھا کہ وہ آدمی (سوکھ کر) برندے کے پر نوچے ہوئے بچہ کی طرح ہو رہا ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا گیا تو نے اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کے بارے میں دعا کی تھی اس نے کہا ہاں میں نے یوں کہا تھا مجھے آخرت میں سزا نہ دیجئے۔ بلکہ وہ سزا مجھے دنیا میں دے دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ تو اس کی طاقت نہیں رکھتا ہے تو نے ایسا نہیں کہا لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “ اس آدمی نے یہ دعا کی تو اس کو اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرما دی۔ (19) ابن ابی شیبہ، بخاری نے الادب میں اور ابن ابی حاتم نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ثابت ؓ نے ان سے فرمایا کہ تیرے بھائی اس بات کو محبوب رکھتے ہیں کہ تو ان کے لئے دعا کرے۔ تو انہوں نے یہ دعا فرمائی۔ لفظ آیت ” اللھم اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “ پھر اس کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا تم ارادہ کرتے ہو کہ میں تمہارے لئے تمام امور کا ذکر کروں جب تم کو اللہ تعالیٰ دنیا میں حلال عطا فرما دیں گے۔ اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما دیں گے اور تم کو جہنم کے عذاب سے بچا دیں تو گویا تم کو ساری خیر عطا فرما دی۔ (20) امام شافعی، ابن سعد، ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، نے تاریخ میں، ابو داؤد، نسائی، ابن خزیمہ، ابن الجاود، ابن حبان، طبرانی، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے الشعب میں عبد اللہ بن سائب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ فرماتے ہوئے سنا لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “۔ (21) ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں رکن یمانی پر نہیں گزرا مگر میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ اس پر (بیٹھا ہوا) آمین کہہ رہا ہے۔ سو تم اس پر گزرو تو کہو۔ لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “۔ (22) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک فرشتہ رکن یمانی پر مقرر ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا وہ کہتا ہے آمین آمین سو تم یہ دعا مانگو لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “۔ دعاء پر فرشتوں کا آمین (23) ابن ماجہ اور الجندی نے فضائل مکہ میں عطا بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ ان سے رکن یمانی کے بارے میں پوچھا گیا اور وہ طواف میں تھے انہوں نے بتایا کہ مجھ سے ابوہریرہ ؓ نے بیان فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اس پر ستر فرشتے مقرر کئے گئے ہیں جو شخص کہے لفظ آیت ” اللہم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدنیا والاخرۃ “ اور ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “ تو فرشتے کہتے ہیں آمین۔ (24) الازرقی نے ابن ابی صحیح (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کا طواف میں اکثر کلام یہ ہوتا تھا لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “۔ (25) ابن ابی شیبہ، عبد اللہ بن احمد نے الزوائد میں حبیب بن صہبان کاہلی (رح) سے روایت کیا کہ میں اور حضرت عمر بن خطاب ؓ طواف کر رہے تھے ان کی صرف یہ دعا تھی لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “۔ (26) عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ مستحب ہے کہ ایام تشریق میں لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “ پڑھی جائے۔ (27) عبد بن حمید نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ جو بھی اپنے گھر کی طرف لوٹنے لگے تو یہی دعا مانگے لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “۔ (28) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ اس دن ان جگہوں میں ہم تین قسم تھے رسول اللہ ﷺ مؤمنوں اور اہل کفر اور اہل نفاق (جیسے فرمایا) لفظ آیت ” فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدنیا وما لہ فی الاخرۃ من خلاق “ اس آیت میں ان کا تذکرہ ہے کہ ان میں سے کچھ صرف دنیا کے لئے حج کرتے ہیں اور اس کو طلب کرنے کے لئے حج کرتے ہیں اور آخرت کا ارادہ نہیں کرتے۔ اور نہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور دوسرے وہ جو دنیا و آخرت دونوں کا سوال کرتے ہیں (جیسے فرمایا) لفظ آیت ” ومنھم من یقول ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “ اور تیسری قسم کا تذکرہ اس آیت لفظ آیت ” ومن الناس من یعجبک قولہ فی الحیوۃ الدنیا “ میں ہے (بقرہ آیت 204) (29) امام احمد اور ترمذی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! کونسی دعا افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے رب سے معافی کا اور عافیت کا سوال کر دنیا میں اور آخرت میں پھر وہ دوسرے دن آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! کونسی دعا افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اپنے رب سے معافی اور عافیت کا سوال کر دین میں دنیا میں اور آخرت میں پھر وہ تیسرے دن آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! کون سی دعا افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا جس میں تو اپنے رب سے معافی اور عافیت کا سوال کرے پھر وہ چوتھے دن آیا اور کہا یا رسول اللہ ! کون سی دعا افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اپنے رب سے معافی اور عافیت کا سوال کر دنیا میں اور آخرت میں جب یہ دونوں چیزیں دنیا میں تجھ کو دے دی جائیں گی پھر آخرت میں بھی عطا کی جائیں تو کامیاب ہوجائے گا۔ (30) عبد الرزاق نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد عافیت ہے اور لفظ آیت ” وفی الاخرۃ حسنۃ “ سے بھی عافیت مراد ہے۔ (31) ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ذہبی نے فضل العلم میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں ھسن (رح) سے لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ لفظ آیت ” حسنۃ فی الدنیا “ سے علم اور عبادات مراد ہے اور لفظ آیت ” فی الاخرۃ “ سے جنت مراد ہے۔ (32) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” حسنۃ الدنیا “ سے مال مراد ہے اور لفظ آیت ” حسنۃ الاخرۃ “ سے جنت مراد ہے۔ (33) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ “ سے دنیا میں پاکیزہ رزق اور علم نافع مراد ہے۔ (34) ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ حسنات میں سے نیک صالحہ عورت بھی ہے۔ (35) ابن المنذر نے سالم بن عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ “ میں حسنۃ سے ثنا یعنی تعریف مراد ہے۔ (36) ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اولئک لہم نصیب مما کسبوا “ سے مراد ہے نیک اعمال ہیں۔ (37) ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واللہ سریع الحساب “ سے مراد ہے سریع الاحساء یعنی جلدی گننے والا۔ (38) شافعی نے الام میں، عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ نے المصنف میں، عبد بن حمید، ابن المنذر، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو بطور مزدور کے پیش کیا اپنی قوم کی خدمت کے لئے اس شرط پر کہ وہ مجھے سوار کرکے لے جائیں گے۔ اور (پھر) میں ان سے اپنی اجرت اس بات پر کم کردی کہ وہ میرے لئے دعا کریں گے جبکہ میں ان کے ساتھ حج کروں گا کیا میرے لئے یہ عمل جائز ہے ؟ انہوں نے فرمایا تو ان لوگوں میں سے ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” اولئک لہم نصیب مما کسبوا واللہ سریع الحساب “ (39) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں سفیان ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عبد اللہ ؓ کے اصحاب اس (آیت) کو (یوں) پڑھتے تھے لفظ آیت ” اولئک لہم نصیب مما اکتسبوا “۔
Top