Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 30
وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْهِ نَارًا١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے گا ذٰلِكَ : یہ عُدْوَانًا : سرکشی (زرد) وَّظُلْمًا : اور ظلم سے فَسَوْفَ : پس عنقریب نُصْلِيْهِ : اس کو ڈالیں گے نَارًا : آگ وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
اور جو کوئی ایسا کرے گا زیادتی اور ظلم کے ساتھ، تو ہم اس کو جھونک دیں گے ایک بڑی ہی ہولناک آگ میں، اور ایسا کرنا اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں،
72 آتش دوزخ کی ہولناکی سے تحذیر۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو کوئی ایسا کرے گا زیادتی وظلم کے ساتھ تو ہم اس کو جھونک دیں گے ایک بڑی ہی ہولناک آگ میں۔ یعنی تنوین تعظیم و تہویل کیلئے ہے " اَ یْ ہَائِلَۃ شَدِیْدُ الْعَذَاب " (محاسن التاویل) ۔ اور ظاہر ہے کہ دوزخ کی اس سے بڑھ کر ہولناک اور خوفناک آگ اور کون سی ہوسکتی ہے ؟ جو دنیا کی ہماری اس آگ سے ستر گنا زیادہ سخت ہوگی ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے منع فرمودہ اور حرام کردہ امور کے ارتکاب کا نتیجہ و انجام بہت برا ہے۔ " ذالک " کا مشارٌالیہ جیسا کہ ظاہر اور متبادر ہے، وہی امور ہیں جن کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے۔ یعنی خودکشی کا ارتکاب اور دوسروں کا مال ناحق طور پر مار کھانا ۔ والعیاذ باللہ ۔ لیکن اس میں دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ اس کا مشارٌالیہ وہ تمام اوامرو ارشادات ہوں جن کا ذکر اس سورة کریمہ کے شروع سے لیکر یہاں تک فرمایا گیا ہے۔ (معارف القرآن وغیرہ) ۔ " عدوان " سے مراد حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ اور " ظلم " سے مراد کسی پر ناحق دست درازی کرنا ہے۔ (معارف وغیرہ) ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو ایسا کرے گا اس کو ہم ایک بڑی ہی ہولناک آگ میں جھونک دیں گے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ اپنی عنایت وپناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 73 اللہ تعالیٰ کی شان عدل و انصاف کا تقاضا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسا کرنا اس رب ذوالجلال کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں کہ یہ اس کے عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ وہ قادر مطلق ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ رحمن و رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ " قہّار و جبّار " اور " عزیز و ذو انتقام " بھی ہے۔ اور اس کی ان صفات علیا اور اسمائ حسنیٰ کا تقاضا یہی ہے کہ وہ کفر و شرک کے علمبرداروں اور اپنے باغیوں اور سرکشوں کو ان کے کئے کی پوری سزا دے۔ تاکہ عدل وا نصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور ہر کوئی اپنے کئے کرائے کا پورا پورا پھل پا سکے۔ نیک اپنی نیکی کا، اور برا اپنی برائی کا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اس لیے کسی کو اس دھوکے اور شبہ میں نہیں پڑنا چاہیئے کہ وہ رحمن و رحیم اپنے بندوں کو کس طرح عذاب میں ڈالے گا، کہ وہ رحمن و رحیم کے ساتھ ساتھ عزیز وقہار بھی ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ -
Top