Madarik-ut-Tanzil - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا
77: یہ آیت ابی بن خلف کے متعلق نازل ہوئی۔ جبکہ اس نے ایک پرانی ہڈی لی اور آپ ﷺ کے سامنے اپنے ہاتھ سے اس کو ریزہ ریزہ کر کے کہنے لگا۔ اے محمد ﷺ کیا تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ہڈی کو ریزہ ریزہ ہونے کے بعد زندہ کر دے گا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جی ہاں اور تمہیں اٹھائے گا۔ اور جہنم میں داخل فرمائے گا۔ ] واحدی اسباب النزول : 246[ اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَاْنُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ (کیا آدمی کو یہ معلوم نہیں کہ ہم نے اس کو نطفہ سے پیدا کیا) جو مرد کی پیشاب والی نالی سے نکلتا ہے۔ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ (پس وہ اعلانیہ اعتراض کرنے لگا) مبیناس نے جھگڑا کھلے طور پر کیا یعنی وہ اپنے اصل کی ذلت اور حقارت پر قائم ہے کہ اپنے رب سے جھگڑا پر اتر آیا اور اس کی مردوں کو زندہ کرنے والی قدرت کا انکار کردیا کہ ریزہ ریزہ ہونے کے بعد ہڈیاں کیونکر زندہ ہوسکتی ہیں۔ پھر اس کا جھگڑا اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت میں ہے جو اس پر سب سے زیادہ لازم اور ملصق ہے کہ یہ خود مردہ سے پیدا شدہ ہے۔ اور یہ اپنے مرنے کے بعد اس کے اٹھائے جانے کا انکار کر رہا ہے۔ اور یہ مکابرہ کی انتہاء ہے۔ ( کہ اپنے اوپر گزرنے والی اتنی بڑی بداہت کا انکار کرنے لگا) (مترجم)
Top