Madarik-ut-Tanzil - Yaseen : 76
فَلَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ١ۘ اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ
فَلَا يَحْزُنْكَ : پس آپ کو مغموم نہ کرے قَوْلُهُمْ ۘ : ان کی بات اِنَّا نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں مَا يُسِرُّوْنَ : جو وہ چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو يُعْلِنُوْنَ : وہ ظاہر کرتے ہیں
تو ان کی باتیں تمہیں غمناک نہ کردیں یہ جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمیں سب معلوم ہے
تسلیٔ رسول ﷺ : 76: فَلاَ یَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ (تو ان کی باتیں آپ کے لئے آزردگی کا باعث نہ بنیں) ۔ قراءت : نافع نے یُحْزِنْکَ ، حزنہ واحزنہ سے پڑھا ہے۔ مطلب یہ بنے گا۔ آپ ان کی تکذیب و ایذاء اور جفاء و ظلم کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ (بلاشبہ ہم سب جانتے ہیں جو یہ دل میں رکھتے ہیں) یعنی ان کی عداوت وَمَا یُعْلِنُوْنََ (اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں) ۔ اور ہم ان کو اس پر سزا دینے والے ہیں۔ پس آپ کو چاہیے کہ ان کی اس وعید سے تسلی حاصل کریں اور ان کی صورت حال کا استحضار فرمائیں تاکہ غم و رنج کا ازالہ ہو۔ تردید ِقول : جس نے یہ خیال جمایا ہے کہ جس نے اَنَّا نعلم فتحہ سے پڑھ دیا اس کی نماز فاسد ہوگئی اور اگر اس کے معنی کا اعتقاد کرلیا تو اس نے کفر کیا۔ یہ خیال غلط ہے۔ کیونکہ اس کو لام تعلیل کے حذف پر محمول کرنا ممکن ہے۔ اور یہ قرآن مجید میں بہت ہے۔ اور اشعار میں کثرت سے موجود ہے اور ہر کلام میں پایا جاتا ہے۔ اور تلبیہ رسول اللہ ﷺ میں اسی طرح پایا جاتا ہے۔ اَنَّ الْحَمد والنعمۃ لک۔ ] رواہ البخاری و المسلم : 1549، 1184[ ائمہ رحمہم اللہ میں سے امام ابوحنیفہ (رح) نے کسرہ اور امام شافعی (رح) نے فتحہ پڑھا اور دونوں کا کلام تعلیل ہے۔ اگر تم کہو اگر مفتوح کو قولھمؔ سے بدل بنائیں گویا اس طرح کہا گیا فلا یحزنک انا نعلم مایسرون وما یعلنون تو اس کا غلط ہونا ظاہر ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ یہ معنی تو مک سورة کے ہوتے ہوئے بھی قائم ہے جبکہ تم اس کو قول کا مفعول بنائو۔ پس یہ واضح ہوگیا۔ کہ حزنؔ کا تعلق اللہ تعالیٰ کے عالم ہونے کے ساتھ ہے اور اس کا عدم تعلق کا دارومدار اِنَّ کے مکسور و مفتوح ہونے سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کا دارومدار تمہارے مقدر ماننے پر ہے۔ پس تم فرق کرو گے اگر تم اَنَّ کو فتحہ سے پڑھو گے تو تعلیل کا معنی مقدر مانو گے۔ بدل کا معنی مقدر نہ مانو گے۔ جیسا کہ تم فرق کرو گے جبکہ اِنَّ کو کسرہ سے پڑھو گے۔ تو تعلیل کا معنی مقدر مانو گے۔ مفعولیت کا معنی مقدر نہیں مان سکتے۔ پھر اگر تم کسرہ یافتحہ کی تقدیر مانو اور اس سے بقول قائل اتنی بڑی مصیبت آن پڑتی ہو کہ اس سے کفر لازم آجاتا ہے حالانکہ اس میں صرف رسول اللہ ﷺ کو ان پر غم کرنے کی ممانعت کی گئی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کفار کی ظاہری و باطنی حالت کو جاننے والے ہیں۔ اور آپ کے حزن کی نہی آپ کے حزن کا اثبات نہیں بنتا۔ جیسا کہ اس قول میں ہے۔ فلا تکونن ظھیرًا للکافرین ] القصص : 86[ اور ولا تکونن من المشرکین ] الانعام : 14[ اسی طرح فلاتدع مع اللہ الھًا آخر ] القصص : 88[ ( میں نہی نہ کرنے سے شرک وغیرہ کا اثبات لازم آتا ہے۔ پس دونوں میں بڑا فرق ہے فافہم)
Top