Mafhoom-ul-Quran - Al-Kahf : 30
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًاۚ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور نہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک اِنَّا : یقیناً ہم لَا نُضِيْعُ : ہم ضائع نہیں کریں گے اَجْرَ : اجر مَنْ : جو۔ جس اَحْسَنَ : اچھا کیا عَمَلًا : عمل
اور جو ایمان لائے اور کام بھی نیک کرتے رہے تو ہم نیک عمل کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔
مؤمنوں کے انعام تشریح : ذرا آنکھیں بند کر کے تصور کریں کیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے رب العلمین نے جنت کا۔ کون ہے جو اس خوبصورت ہمیشہ والی زندگی کے لیے اس عارضی زندگی کا سب کچھ قربان نہ کر دے گا۔ ” کسی حکیم اور دانا شخص سے پوچھا گیا کہ آپ کا مال کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے ظاہر کو اوصاف جمیلہ (بہترین کردار) سے آراستہ کرنا اور جو چیز لوگوں کے پاس ہے اس کی توقع نہ رکھنا، میرا سرمایہ اور مال ہے۔ “ (ازگلستان قناعت صفحہ 82) مزید لکھتے ہیں : آج کل مسلمان توکل علی اللہ کے وصف (صفت) سے یا تو بالکل محروم ہیں یا یہ وصف ان میں نہایت کم ہے۔ ہمارے سلف صالحین میں یہ وصف بطریق اکمل (بہت زیادہ) موجود ہوتا تھا۔ اور یہی وصف انسان کو دنیا کی محبت سے دور اور آخرت کی محبت کے قریب کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو قناعت ہی جنت کا راستہ دکھاتی ہے کیونکہ یہ بیشمار اخلاقی برائیوں سے بالکل بچا کر تقویٰ کی راہ پر لگا دیتی ہے گویا تقویٰ ہی جنت کی کنجی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کام کاج چھوڑ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مال کی طلب اور مستقبل کی فکر تمہارے اوپر اس قدر سوار نہ ہوجائے کہ اللہ سے روز آخرت سے، اور جنت و دوزخ کے خیال سے ہی غافل ہوجاؤ۔ دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دے بیٹھو۔ بس یہی غلط ہے۔ چاندی، سونے اور بال بچوں کا نام دنیا نہیں۔ دنیا تو اللہ سے غافل ہوجانے کا نام ہے۔ بیشک اللہ کا ذکر دلوں کو سکون دیتا ہے اور سکون روح کو تازگی اور جسم کو توانائی دیتا ہے۔
Top