Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 182
فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
فَمَنْ : پس جو خَافَ : خوف کرے مِنْ : سے مُّوْصٍ : وصیت کرنے والا جَنَفًا : طرفداری اَوْ اِثْمًا : یا گناہ فَاَصْلَحَ : پھر صلح کرادے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان فَلَآ اِثْمَ : پس نہیں گناہ عَلَيْهِ : اس پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
البتہ جس کسی کو وصیت کرنے والے سے متعلق کسی بےعنوانی یا گناہ کا علم ہوجائے،645 ۔ وہ ان لوگوں کے آپس میں صلح کرادے،646 ۔ تو اس پر کوئی گناہ نہیں،647 ۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑا مغفرت کرنے والا ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے،648 ۔
645 ۔ (اور وہ اس بنا پر از راہ اخلاص وخیر خواہی وصیت میں تبدیلی کردے، جس سے اس بےضابطگی یا معصیت کی اصلاح ہوجائے) (آیت) ” خاف “۔ خوف عربی میں ہمیشہ اندیشہ اور ڈر ہی کے معنی میں نہیں آتا، بلکہ کبھی علم کے معنی میں بھی آتا ہے اور یہاں یہی معنی مراد ہیں۔ اے فمن توقع وعلم وھذا فی کلامھم شائع (کشاف) والخوف والخشیۃ العلم (کبیر) ومعنی خاف توقع وعلم (روح) اے قد ظہر لہ من احوال الموصی ما یقلب معہ علی ظنہ انہ یرید الجور وصرف المیراث عن الوارث (جصاص) جنفا۔ جنف کہتے ہیں نادانستہ غلطی، یا بےضابطگی کو، مراد ہے سہو یا خطائے فہم سے گونہ زیادتی۔ الجنف الخطاء (ابن جریر عن ابن عباس ؓ الجنف الخطاء من حیث لا یعلم بہ (کبیر) میلا عن الحق بالخطاء (کشاف) (آیت) ” اثما “۔ یعنی دانستہ غلطی۔ کھلی ہوئی حق تلفی جس پر گناہ کا اطلاق ہوسکے۔ الاثم العمد (ابن جریر، عن ابن عباس ؓ الاثم ھو العمد (کبیر) 646 ۔ (مضمون وصیت میں ترمیم کرکے، اور وارثوں کی حق تلفیوں کو دور کرکے) (آیت) ” بینھم “ میں ضمیر جمع غائب وارثوں کی جانب ہے۔ اے بین الموصی لھم (روح) الکنایۃ عن الورثۃ (قرطبی) یعنی وصیت اگر بےضابطہ ہے یا خلاف قاعدہ شرعی ہے، اور کوئی شخص وارثوں کے درمیان وقوع نزاع یا احتمال نزاع ہی دیکھ کر مضمون وصیت میں ایسی ترمیم کردے جس سے حق تلفیوں کی اصلاح ہوجائے اور وارثوں میں باہم مصالحت ہوجائے۔ بعض فقہاء نے اس حکم کے ماتحت وسعت دے کر کہا ہے کہ حکم صرف وصی اور گواہان وصیت اور حاکم کے ساتھ مخصوص نہیں، امت کا ہر فرد اس پر عمل کرسکتا ہے۔ فمن خاف من سائر الناس من موص میلا عن الحق وعدولا الی الجور فالواجب علیہ ارشادہ الی العدل والصلاح (جصاص) الخطاب لجمیع المسلمین (ابن العربی) اس لیے کہ اس حکم کا تعلق باب امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے ہے اور وہ ساری امت پر فرض ہے۔ ولا یختص بذلک الشاہد والوصی والحاکم دون سائر الناس لان ذلک من باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر (جصاص) لان اصلاح الفساد فرض علی الکفایۃ (ابن العربی) فقہاء نے اس آیت سے یہ بھی استنباط کیا ہے کہ غلبہ ظن کے بعد رائے وعمل کا اجتہاد جائز ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ وصیت کرنے والے کی طرف سے ظلم و زیادتی کا اندیشہ تو ظن غالب ہی کے حکم میں رہے گا۔ وفیھا الدلالۃ علی جواز اجتھاد والرای والعمل علی غالب الظن لان الخوف من المیل یکون فی غالب ظن الخائف (جصاص) وفی ھذا دلیل علی الحکم بالظن (ابن العربی) 647 ۔ (اس تبدیل و ترمیم مضمون وصیت کے باب میں) بلکہ وہ تو اور مستحق اجر وثواب کا ہوگا۔ لانہ تبدیل باطل الی حق (مدارک) 648 ۔ اللہ تو گنہ گاروں تک کے حق میں غفور ورحیم ہے۔ چہ جائیکہ یہ شخص جو گنہگا رہے بھی نہیں بلکہ اپنی سعی اصلاح میں تو مطیع حکم اور مستحق اجر ہے۔ (آیت) ” غفور “۔ یعنی گناہوں کا بخشنے والا ، (آیت) ” رحیم “۔ یعنی خطا کاروں کے حال پر رحم کرنے والا۔
Top