Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 31
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور اللہ نے آدم کو نام سکھلادیئے کل کے کل113 ۔ پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔114 ۔ پھر فرمایا بتلاؤ تو ان کے نام اگر تم سچے ہو۔115 ۔
:113 ۔ یعنی آدم کو اشیاء کائنات کے اسماء اور آثار و خواص کا علم دے دیا۔ ادم۔ یہی سب سے پہلے بشر تھے، اسی لیے ابوالبشر کہلاتے ہیں۔ اور خلیفہ اللہ کے اولین مصداق۔ جنت سے جب زمین پر آئے، تو غالبا دجلہ وفرات کے دو آبہ میں آباد ہوئے، جو اب ملک عراق کہلاتا ہے، توریت میں تین صاحبزادوں کا نام آتا ہے۔ ہابیل ، ، قابیل، شیث (علیہ السلام) ۔ توریت ہی کی حسب روایت عمر 930 سال کی پائی۔ عربی میں ان کا یہ نام کس مناسبت سے پڑا ؟ کسی نے کہا کہ زمین کی جلد (ادیم) سے پیدا ہوئے، اس لیے آدم کہلائے۔ کسی نے کہا کہ اپنی جلد کی سرخی کی بنا پر۔ خلق ادم من ادیم الارض فتسمی ادم (ابن جریر۔ عن سعید بن جبیر) قیل سمی بذلک لکونہ جسدہ من ادیم الارض وقیل بسمرۃ فی لونہ (راغب) اسماء۔ اسم کا مفہوم عربی میں اردو کے نام سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اسم وہ ہے جس کے ذریعہ سے کوئی چیز جانی جائے، پہچانی جائے۔ اسم الشیء علامتہ (قاموس) الاسم مایعرف بہ ذات الشیء (راغب) اور یہ شناخت ممکن نہیں جب تک اعراض، خواص، آثار، کا علم بھی ساتھ ساتھ نہ ہو۔ اسی طرح اہل لغت نے بھی تشریح میں اس کا لحاظ رکھ لیا ہے۔ قال ابن سیدہ الاسم ھو اللفظ الموضوع علی الجوھر اوالعرض للتمییز اے لیفصل بہ بعضہ عن بعض (تاج) اسم کے ساتھ اگر مسمی کا علم نہ ہوا تو اسم محض ایک آواز کانوں تک رہے گی۔ اور ذہن کے سامنے کوئی مفہوم نہ پیدا ہوگا۔ علامہ راغب نے اسی لیے اس پر شرح وبسط سے کلام کرکے آخر میں کہا ہے، ان معرفۃ الاسماء لاتحصیل الا بمعرفۃ المسمی و حصول ؔ صورتہ فی الضمیر (کہ اسم کی معرفت بغیر مسمی کی معرفت اور ذہن میں اس کی تصویر کے ہو نہیں سکتی) اور ایک دوسرے امام لغت نے اس کی دادان الفاظ میں دی ہے۔ ھو کلام نفیس (تاج) اور بعضوں نے کہا ہے کہ اسم مرادف ہے ذات شے اور عین شے کے۔ یقال ذات ونفس وعین واسم بمعنی (قرطبی) یہ تو لفظی معنی ہوئے۔ آیت کی تفسیر میں محققین نے مراد معلومات اشیا سے لی ہے۔ اور اسما کے ساتھ مسمیات اور ذوات و خواص واشیاء کو شامل کیا ہے۔ اور اشیاء کے اسماء سے مرادان کے آثار و خواص کا علم لیا ہے۔ فالمراد الانواع الثلاثۃ من الکلام وصورۃ المسمیات فی ذوا تھا (راغب) علم ادم مسمیات الاسماء (کشاف) الھمہ معرفۃ ذوات الاشیاء وخواصھا واسماءھا و اصول العلوم وقوانین الصناعات وکیفیۃ الا تھا (بیضاوی) علمہ صفات الاشیاء ونعو تھا وخواصھا (کبیر) صاحب تفسیر مظہری نے کہا کہ مراد اسماء سے اسماء الہی ہیں۔ انہیں کا علم اجمالی کا مل آپ کو مل گیا تھا، اور ہر اسم وصفت کے ساتھ ایسی مناسبت تامہ آپ کو پیدا ہوگئی تھی کہ آپ جس کسی اسم یا صفت کی طرف توجہ کرتے وہ اسم یا صفت فورا آپ پر متجلی ہوجاتی۔ مثلا جب اسم پاک الاول کی تجلی آپ پر ہوئی تو ہرگز ری ہوئی چیز آپ پر منکشف ہوگئی۔ اسی طرح جب اسم پاک الاخر کی تجلی ہوئی تو ہر آنے والی چیز معلوم ہوگئی، اور اسی پر قیاس سارے اسماء الہی کا کیا جاسکتا ہے۔ اللہ اکبر ! یہ مقام ہے انسان کی فضیلت کبری کا۔ حیف ہے کہ یہ خلیفۃ اللہ دیوتا پرستی، ملائکہ پرستی میں مبتلا ہوجائے ! 114 ۔ (تاکہ انسان کی اعلی صلاحیت اور منصب خلافت الہی سے اس کی مناسبت فرشتوں پر بھی ظاہر ہوجائے) (آیت) ” عرضھم “ سوال یہ ہے کہ کیا چیز اب فرشتوں کے سامنے پیش کی جارہی ہے ؟ اگر چیزوں کے محض نام مراد ہوتے تو لفظ قرآنی عرضھا ہوتا۔ ضمیر ھم ذوی العقول کے لیے ہے اور غیر ذوی العقول ضمنا وتبعا اس میں شامل ہوجائیں گے۔ یہ دلیل ہے اس پر کہ پیش صرف نام نہیں ہورہے تھے بلکہ اصل موجودات۔ گویا پہلے صورت مثالی سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام مخلوقات کے نام اور خواص سے اطلاع بخشی گئی، پھر خود ان مخلوقات وموجودات کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ عرض الخلق علی الملئکۃ (ابن جریر ، ، عن ابن عباس وابن مسعود ؓ وغیرھما من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض تلک الاشیاء علی الملئکۃ (ابن جریر۔ عن قتادۃ) اے عرض المسمیات۔ (کشاف) المراد بہ ذوات الاشیاء اومدلولات الالفاظ (بیضاوی) تقدیر کلام یوں تھی۔ اسماء المسمیات۔ مضاف الیہ حذف کردیا گیا۔ کہ مضاف اس کی وضاحت کے لیے کافی ہے۔ (بیضاوی) 115 ۔ (اپنے اس گمان میں کہ تم ہر منصب کی اہلیت اور ہر خدمت کے ساتھ مناسبت رکھتے ہو) خطاب فرشتوں سے ہورہا ہے۔ اسمآء پر حاشیہ ابھی اوپر گزر چکا۔ مراد یہاں بھی محض نام نہیں۔ خواص وآثار بھی مراد ہیں۔ صدقین۔ صدق سے مراد یہاں ارادی سچائی اور راست گفتاری نہیں کہ اس کے خلاف کا تو فرشتوں میں احتمال ہی نہیں، بلکہ مراد محض ان کے دعوی کا صحیح ہونا یا ان کے خیال کا مطابق واقعہ ہونا ہے۔ صدق کا اطلاق لغت عربی میں اردو کی ” سچائی “ سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ وہ جس طرح ارادی راست گفتاری کے لیے آیا ہے اسی طرح اصابت رائے وصحت خیال کے لیے بھی۔ وقد یستعمل الصدق والکذب فی کل مایحق ویحصل فی الاعتقاد (راغب) والصدق ھو الصواب (بحر) صدق وکذب۔ عربی کے ان دو لفظوں کے صحیح مفہوم پر نظر نہ ہونے سے اردوخوان طبقہ قرآن و حدیث سے متعلق کتنی ہی غلط فہمیوں میں مبتلا ہوگیا ہے۔ مرشد تھانوی مدظلہ نے فرمایا کہ مدار خلافت مجاہدۂ اعمال نہیں بلکہ علم وفہم ہے بشرطیکہ بدعملی نہ ہو اور اسی لیے مشایخ طریقت عطائے خلافت کے وقت امی کی زیادہ رعایت کرتے ہیں۔
Top