Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 160
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَثِیْرًاۙ
فَبِظُلْمٍ : سو ظلم کے سبب مِّنَ : سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : جو یہودی ہوئے (یہودی) حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر طَيِّبٰتٍ : پاک چیزیں اُحِلَّتْ : حلال تھیں لَهُمْ : ان کے لیے وَبِصَدِّهِمْ : اور ان کے روکنے کی وجہ سے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَثِيْرًا : بہت
سو یہود کی (ایسی ہی) زیادتیوں کے باعث ہم نے ان پر بہت سی چیزیں جو ان پر حلال تھیں حرام کردیں،407 ۔ اور اس سبب سے بھی کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکتے تھے،408 ۔
407 ۔ جس طرح افراد کے نفس سرکش کی اصلاح کی ایک صورت یہ ہے کہ بعض مباحات سے بھی اسے روک دیا جائے، اسی طرح جب قوم کا مزاج اعتدال سے منحرف ہوجاتا ہے تو اس کے لیے بھی مناسب صورت یہی ہوتی ہے کہ جن جائز چیزوں کی وہ عادی تھی، ان سے اسے محروم کردیا جائے ” بظلم “ میں با سببیہ ہے۔ اس سے یہ صاف نکل آیا کہ امت اسرائیلی پر بعد کو جو کچھ بھی سختیاں ہوئیں، خود انہی کی زیادتیوں کی بدولت ہوئیں، بلاوجہ نہیں ہوئیں، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ معاصی کے سبب سالک سے واردات کا قبض اسی کے مشابہ ہے۔ 408 ۔ یہود کی قومی فرد جرم کی یہ دوسری دفعہ ہے۔ یعنی خود اپنی جانوں پر تو وہ ظلم کر ہی رہے تھے، ان کی گمراہی متعدی بھی تھی۔ دوسروں کو بھی بھٹکا رہے تھے، (آیت) ” کثیرا “ کثیر کے ایک معنی تو یہی ہیں کہ وہ بہت لوگوں کو راہ حق سے روک دیتے تھے۔ دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کی روک یا گمراہ کرنے کی خصلت بہت زائد تھی، تیسرے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ مدت طویل تک روک تھام کرتے رہے۔ غرض کثرت کا تعلق کمیت وکیفیت اور زمانہ تینوں سے ہوسکتا ہے۔ ای جمعا عظیما من الناس اوضدا کثیرا وقدرۃ بعضھم زمانا کثیرا۔ (بحر)
Top