Mazhar-ul-Quran - Al-Ankaboot : 4
اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا١ؕ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ
اَمْ حَسِبَ : کیا گمان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَعْمَلُوْنَ : کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : برے کام اَنْ : کہ يَّسْبِقُوْنَا : وہ ہم سے باہر بچ نکلیں گے سَآءَ : برا ہے مَا يَحْكُمُوْنَ : جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں
کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ یہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے۔ جو خیال یہ کرتے ہیں برا ہے
ام حسب الذین یعلمون السیات ان یسبقونا . کیا بدکاریاں کرنے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری گرفت سے وہ نکل جائیں گے۔ بدکاریوں سے مراد ہے کفر اور معاصی کیونکہ عمل کا لفظ جس طرح اعضاء کے افعال کو شامل ہے اسی طرح دلوں کے فعل کو بھی شامل ہے۔ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا کہ وہ ہم سے آگے بڑھ جائیں گے اور ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔ ام منقطعہ ہے اور اول کلام سے اضراب (اعراض) کو ظاہر کر رہا ہے۔ اول حسب کا مفہوم ہے ایمان کا امتحان نہ ہونے کا گمان اور دوسرے حسب کا مفہوم ہے گناہوں کی سزا نہ پانے کا گمان۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اول گمان کرنے والے مؤمن تھے اور دوسرا خیال کافروں کا تھا۔ میں کہتا ہوں : ام متصلہ بھی ہوسکتا ہے ‘ اس سے مقصود ہے دونوں گمانوں کا ابطال۔ مطلب اس طرح ہوگا : اے اہل ایمان ! تم یہ خیال نہ کرنا کہ تمہاری آزمائش نہیں کی جائے گی۔ مصائب میں مبتلا کر کے تمہارا امتحان ضرور لیا جائے گا تاکہ تم کو اونچے مراتب تک پہنچایا جائے اور تمہارے دشمنوں کو بھی یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں عذاب نہیں دے گا۔ ان کو ضرور عذاب دیا جائے گا ‘ دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں (قتل و قید کی صورت میں) اور آخرت میں براہ راست خدا کی طرف سے (دوزخ کی صورت میں) ۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مسلمانوں کو مصائب میں مبتلا کر کے آزمائش ضرور کی جائے گی اور نتیجہ میں ان کو غلبہ حاصل ہوگا۔ سآء ما یحکمون . برا ہے وہ فیصلہ جو یہ لوگ کر رہے ہیں (کہ ہمارے ہاتھ سے چھوٹ کر نکل جائیں گے اور ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے ‘ مترجم) ۔
Top