بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں ، وہ جس نے اتاری ہے اپنے بندے پر کتاب ، اور نہیں رکھی اس (کتاب) میں کوئی کجی ۔
(نام اور کوائف) اس سورة مبارکہ میں اصحاب کہف والرقیم کا واقعہ بیان ہوا ہے اس لیے اس سورة کا نام ہی سورة الکہف ہے ، اس سورة کا زمانہ نزول بھی قریب قریب وہی ہے جو سورة بنی اسرائیل کا ہے گویا یہ سورة بھی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی اس سورة مبارکہ کی ایک 110 سو دس آیات اور بارہ رکوع ہیں ، یہ سورة 1567 کلمات اور 6460 حروف پر مشتمل ہے ۔ (گذشتہ سورة کے ساتھ ربط) یہ سورة مبارکہ گذشتہ سورة بنی اسرائیل کے ساتھ مربوط ہے گذشتہ سورة کی آیت روح کے متعلق مفسرین کرام کا یہ بیان نقل کیا جا چکا ہے کہ مشرکین مکہ نے یہودیوں کے ایما پر حضور ﷺ سے تین سوال کیے تھے ، جن میں سے ایک روح ، دوسرا اصحاب کہف اور تیسرا ذوالقرنین کے متعلق تھا ، یہود ومشرکین کا خیال تھا کہ آپ ﷺ ان سوالات کا جواب نہیں دے سکیں گے تو ان کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے لیے موقع میسر آجائے گا ، مگر اللہ تعالیٰ نے ان تینوں سوالوں کے جواب دے کر مخالفین کے منہ بندکر دیے ۔ گذشتہ سورة کی ابتداء میں واقعہ معراج کا ذکر ہے جب کہ آگے چل کر روح کا بیان ہے ، ان دونوں واقعات کو بھی آپس میں مناسبت ہے اس لیے انہیں ایک سورة میں بیان کیا گیا ہے جس طرح واقعہ معراج انسانی فہم وعقل سے بالاتر ہے ، اسی طرح روح کی حقیقت کو بھی انسانی عقل سے دریافت نہیں کیا جاسکتا ، یہ ان دونوں میں مماثلت ہے ، دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ تیسری اور چوتھی صدی کے مشہور منطقی ابن سینا کے بقول ۔ حبطت الیک من المحل الارجع ورقاء ذات تعزز وتمنع ۔ روح تو ایک کبوتری کی مثال کی مثال ہے جو اونچے مقام سے آئی ہے اور بڑی عزت اور حفاظت والی ہے اور معراج کے واقعہ میں حضور ﷺ کو اس مادی دنیا سے عروج حاصل ہوا اور آپ عالم بالا میں روح کے مقام حظیر ۃ القدس تک پہنچے تو اس طرح واقعہ معراج اور روح کو آپس میں گہری مناسبت ہے ۔ روح کا جواب تو سابقہ سورة میں آگیا ، اب باقی دو سوالوں کا جواب اس سورة مبارکہ میں آرہا ہے یعنی اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے واقعات یہودیوں کا دعوی تھا کہ وہ بڑے عالم فاضل ہیں اور آسمانی کتابوں کا علم جانتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے گذشتہ سورة میں یہ کہہ کر ان کا منہ بند کردیا ، (آیت) ” وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے لہذا تم اپنے علم پر مت اتراؤ ، اب اسی سورة میں ایک تیسرا واقعہ موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا بھی بیان ہوا ، یہ واقعہ بھی انسان کی کم علمی پر دلالت کرتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) سے ایک نہایت ہی معمولی درجہ کی لغزش ہوگئی تھی جس کی بناء پر اللہ نے فرمایا تھا کہ تم سفر اختیار کرو ، اور دو دریاؤں کے سنگم پر ہمارے ایک بندے سے جا کر ہلو ، آپ کی تربیت مقصود تھی ، لہذا آپ نے بڑا لمبا سفر اختیار کیا اور بڑی مشقت برداشت کی اور اس طرح اللہ نے آپ کو امتحان میں ڈال دیا ، اس سورة میں یہ واقعہ اجمالا بیان کیا گیا ہے تاہم صحیحین میں حضور ﷺ نے اس کی تمام جزئیات بیان کردی ہیں ۔ (مضامین سورة ) دیگر مکی سورتوں کی طرح اس سورة مبارکہ میں بھی چار بنیادی حقائق ، توحید ، رسالت ، معاد اور قرآن پاک کی حقانیت کی بیان کیا گیا ہے ، اصحاب کہف ، اور ذوالقرنین کے واقعات کے علاوہ اس سورة میں یاجوج ماجوج کا واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے اور اشارتا دجال کے خروج کا ذکر بھی آگیا ہے اس کے علاوہ مومن اور کافر باغ والوں کا ذکر ہے اس سورة میں موسیٰ اور خضر (علیہ السلام) کا واقعہ بھی ہے جس کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے ۔ اس سورة مبارکہ کی ابتداء نزول قرآن کے ذکر سے ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے ، اس لیے سورة فاتحہ انعام اور فاطر کی طرح اس سورة کو بھی اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے شروع کیا گیا ہے اس کتاب کے انعام الہی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی روح اور جسم دونوں کی تکمیل ہوتی ہے ، گویا قرآن پاک ان چیزوں کو کھول کر بیان کرتا ہے جن کے ساتھ روح اور جسم کی سعادت وابستہ ہے اس کتاب میں اللہ نے توحید کے اسرار بیان فرمائے ہیں ، خدا تعالیٰ کی تنزیہہ و تقدیس اور اس کی صفات کمال و جلال کا ذکر ہے قضا وقدر کے مسائل بیان ہوئے ہیں ، ملائکہ اور عالم بالا کی تفصیلات واحوال بھی اسی کتاب کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں انسان کو مکلف بنانے والے احکام وقوانین اسی کتاب مقدس میں بیان ہوئے ہیں ثواب اور عتاب کا سلسلہ بیان ہوا ہے اس کتاب میں دعوت الی التوحید کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے جو کسی دوسری آسمانی کتاب میں نہیں ملتا ۔ اس سورة مبارکہ میں شکر گزاروں اور ناشکر گزاروں کی مثالیں بھی بیان کی گئی ہیں گذشتہ سورة میں بھی اللہ نے اپنے شکر گزار بندوں حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت داؤد (علیہ السلام) اور خود حضور خاتم النبیین ﷺ کی شکر گزاری کا تذکرہ فرمایا تھا ، جب کہ اس سورة میں اصحاب کہف ، ذوالقرنین ، موسیٰ اور حضرت (علیہ السلام) اور باغ والے مومن کا ذکر ہوا ہے بہرحال ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی فوز و فلاح کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس کا تعلق اپنے خالق ومالک کے ساتھ درست رہے اگر یہ تعلق درست نہیں ہے تو کبھی فلاح نصیب نہیں ہو سکتی ، غرضیکہ یہ سب باتیں اور اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں اس سورة مبارکہ میں آرہی ہیں ۔ (ہماری اور دجالی تہذیب) اس سورة میں دجال کے خروج کا ذکر آرہا ہے تو اس لحاظ سے دجالی تہذیب کا بیان خالی از دلچسپی نہیں ہوگا قرب قیامت میں سائنسی ترقی انتہائی عروج پر ہوگی ، اس دور کو مولانا مناظر احسن گیلانی ہماری تہذیب (DONKEY CULTURE ڈن کی کلچر) سے تعبیر کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ جس طرح گدھے کے پیش نظر صرف دو چیزیں ہوتی ہیں یعنی پیٹ اور شہوت ، اسی طرح موجودہ تہذیب کی منتہائے مقصود بھی یہی دو چیزیں ہیں اس دنیا میں ایک طرف کارل مارکس کا فلسفہ ہے کہ دنیا میں مسئلہ صرف پیٹ کا ہے ، اور کچھ نہیں ، اس بناء پر اس نے مزدور طبقے کو گمراہ کرکے کمیونزم کی راہ ہموار کی ہے اور دوسری طرف یورپ کا فرائیڈ ہے جس نے جنسی نفسیات (SEXUALISM سیکشولزم) پر ہی سار زور بیان صرف کر کے دنیا کو اول وآخر اسی چیز کو سمجھ لیا ہے تو اس طرح گویا آج کی ہماری تہذیب کے پیش نظر صرف پیٹ ہے یا شہوت ۔ بہرحال جب یہ حماری تہذیب اپنے انتہائی عروج پر ہوگی تو اس وقت دجال کا خروج ہوگا اور دجالی تہذیب شروع ہوجائے گی ، دجال اپنے زمانے میں وہ تمام کام بغیر آلات کے انجام دے گا جو اس وقت سائنس دان اور انجنیئر آلات کے ذریعے انجام دیتے ہیں حدیث میں دجال کے گدھے کا ذکر بھی آتا ہے ، وہ چالیس دن میں گدھے پر سوار ہو کر تمام روئے زمین کا گشت کرے گا ، خدائی کا دعوی کرے گا ، اس کے پاس خزانے ہونے گے جس کو چاہے گا دے گا ، وہ جسے چاہے گا زندہ رکھے گا ، اور جسے چاہے گا ہلاک کر دے گا ، اس کے ہاتھ پر بڑے بڑے کرشمے ظاہر ہوں گے جن کی وجہ سے وہ خدائی کا دعوی کرے گا اور لوگ اس کے پیچھے لگ جائیں گے دجال جب چاہے گا بارش برسا دے گا اور جب چاہے گا زمین سے خزانے نکال دے گا ، آج زمین سے مع دنیات لوہا ، کوئلہ ، سونا ، چاندی ، گیس ، تیل وغیرہ نکالنے کے لیے بڑی بڑی مشینوں کے ذریعے سخت محنت کرنا پڑتی ہے ، مگر دجال بغیر آلات کے آنا فانا یہ چیزیں نکال کر دکھا دیگا ، وہ زمین سے کہے گا ” اخرجی کنوزک “ یعنی اپنے خزانے باہر نکال دے تو وہ فورا اگل دے گی ، بہرحال یہاں پر ضمنا حماری تہذیب اور دجالی تہذیب کا ذکر بھی ہوگا ۔ (فضائل سورة ) مستدرک حاکم میں صحیح حدیث کا مضمون یہ ہے ” من قراء سورة الکھف یوم الجمعۃ اضآء لہ من النور مابینہ وبین الجمعتین “۔ جس شخص نے جمعہ کے دن سورة کہف کی تلاوت کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوسرے جمعے تک نور ہی نور بنا دے گا بعض روایات میں آتا ہے کہ جس جگہ پر اس سورة کی تلاوت کرے گا ، وہاں سے مکہ مکرمہ تک اس کے لیے نور ہی نور ہوگا ، بعض روایات میں آتا ہے کہ ایسے شخص کے لیے زمین سے آسمان تک روشنی ہی روشنی ہوگی ۔ ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے ” من حفظ عشرایت من اول سورة الکہف عصم من فتنۃ الدجال “ یعنی جو شخص سورة کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کر کے انہیں ورد بنالے گا ، وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ ہوجائے گا ، ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ جب دجال کو دیکھو تو اس کے سامنے سورة کہف پڑھو ، وہ تمہیں شر نہیں پہنچا سکے گا ، دوسری روایت میں ہے ” من قراء العشر الاخرۃ عصم من فتنۃ الدجال “ جس شخص نے سورة کہف کی آخری دس آیتیں پڑھیں وہ فتنہ دجال سے محفوظ رکھا جائے گا ، ترمذی شریف کی ایک روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ، ” من قرا ثلاث ایت من اول الکہف عصم من فتنۃ الدجال “۔ جس شخص نے سورة کہف کی ابتدائی تین آیتیں پڑھیں وہ بھی دجال کے فتنہ سے مامون ہوگا ، یہ ادنی درجہ ہے لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ کم از کم جمعہ کے دن ان کو ورد زبان بنا لے ، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص (آیت) ” قل لق کان البحر “۔ ۔۔ سے لیکر سورة کہف کی آخری دو آیات سونے سے پہلے پڑھ لے گا ، وہ جب چاہے گا اللہ اسے نیند سے بیدار کر دیگا ، (نزول کتاب کی نعمت) جیسا کہ پہلے عرض کیا ، اس کتاب حکیم کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے ہوتی ہے (آیت) ” الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتب “ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، یعنی شکر اور تعریف کا مستحق وہی اللہ ہے جس نے اپنے کامل بندے پر کتاب نازل فرمائی اور کتاب بھی ایسی (آیت) ” ولم یجعل لہ عوجا “۔ کہ اس میں کسی قسم کی کجی نہیں رکھی عبارت صاف اور سلیس ہے کلام فصیح وبلیغ اور اس کی تعلیم انقلابی ہے ، یہ افراط وتفریط سے پاک اعتدال پسند کلام ہے ہر زمانے کے ہر انسان اور ہر زبان بولنے والے پر اس کا یکساں اطلاق ہوتا ہے ، یہ عقل سلیم کے عین مطابق ہے ، اور اس میں کوئی ایچ پیچ نہیں ہے یہ کتاب حقائق حقہ اور ثابتہ پر مشتمل ہے اور اس میں کوئی تعارض نہیں پایا جاتا ، حقیقت یہ ہے کہ حقیقی کتاب کہلانے کی مستحق یہی کتاب ہے کیونکہ (آیت) ” لاریب فیہ “۔ اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ (یہ کتاب قیم ہے) فرمایا اس کتاب مبین کی پہلی صفت تو یہ بیان ہوئی کہ اس میں کوئی کجی نہیں اور دوسری صفت یہ ہے کہ یہ کتاب ” قیما “ یعنی مستقیم ہے جو کہ صراط مستقیم کی تشریح و توضیح بیان کرتی ہے ، بعض کہتے ہیں کہ قیم کا معنی یہ ہے کہ اس میں کوئی تعارض اور تناقض نہیں پایا جاتا بلکہ یہ بالکل سیدھی کتاب ہے یہ بھی اس کے منزل من اللہ ہونے کی دلیل ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” ولوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا “۔ (النسائ 82) اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی غیر کا کلام ہوتا تو لوگ اس میں یقینا بہت زیادہ اختلاف اور تعارض پاتے مگر ایسا نہیں ہے ، یہ ایسا معجز کلام ہے کہ تمام انس وجن مل کر اس جیسی ایک سورة بھی نہیں پیش کرسکتے یہ کتاب قیم یعنی سیدھی ، محکم اور اختلاف سے پاک ہے ۔ بعض قیم کی تشریح اس طرح بیان کرتے ہیں ” قیما بمصلح العباد “ یعنی یہ اللہ کے بندوں کی مصلحتوں کو قائم کرنے والی کتاب ہے بعض کہتے ہیں کہ قیم کا معنی محافظ اور نگران ہے یعنی اللہ کی یہ آخری کتاب سابقہ تمام کتب سماویہ کی محافظ اور نگران ہے یعنی اللہ کی یہ آخری کتاب سابقہ تمام کتب سماویہ کی محافظ اور نگران ہے ، ان کی تمام صحیح باتوں کو تسلیم کرتی ہے اور ناجائز طریقے سے شامل کی گئی غلط باتوں کا انکار کردیتی ہے ، یہ کتاب انسان کے دینی اور دنیاوی ہر دو اقسام کے مقاصد کو قائم کرتی اور ان کے بارے میں صحیح صحیح تعلیم دیتی ہے ۔ (مقصد نزول کتاب) فرمایا ہم نے یہ کتاب اپنے بندے پر نازل فرمائی جس میں کوئی کجی نہیں ہے یہ قیم ہے ، اور اس کے نزول کا مقصد یہ ہے (آیت) ” لینذر باسا شدیدا من لدنہ “۔ تاکہ وہ بندہ اس سخت گرفت سے لوگوں کو ڈرائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہے اللہ تعالیٰ نے یہ کامل ترین بندے پر اتاری ہے ، یہ کتاب انسانیت کی روحانی اور مادی تکمیل کا ذریعہ ہے ، لہذا جو بھی اس پر ایمان لائے گا وہ خود بھی عالم اور کامل بن جائے گا اور پھر دوسروں کی تکمیل کا بھی ذریعہ بنے گا ، اسی لیے فرمایا کہ اس کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ کفر ، شرک ، معاصی ، اور تکذیب کے مرتکبین کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا جائے ، (مومنین کے لیے بشارت) فرمایا اس کتاب کے نزول کا دوسرا مقصد یہ ہے (آیت) ” ویبشرالمؤمنین “۔ وہ اللہ کا بندہ اہل ایمان کو خوشخبری بھی سنا دے (آیت) ” الذین یعلمون الصلحت “۔ جو فکر کی طہارت کے بعد نیک اعمال انجام دیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض نماز ، روزہ زکوۃ اور حج ، صدقہ خیرات ، جہاد ، قربانی پر عامل ہوتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لیے بشارت ہے (آیت) ” ان لھم اجرا حسنا “۔ کہ بیشک ان کے لیے بہت اچھا بدلہ ہے ، سورة یونس میں اس طرح بیان کیا گیا ہے (آیت) ” ان لھم قدم صدق عندربھم “۔ ان کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں سچائی کا پایہ ہے اور یہ ایسا بہتر بدلہ ہے (آیت) ” ماکثین فیہ ابدا “۔ کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور وہاں سے کبھی بھی نکالے نہیں جائیں گے ، دنیا کی نعمتوں کے زائل ہونے کا تو ہر وقت خطرہ ہوتا ہے ، ایک شخص آج دولت مند ہے توکل قلاش بھی ہو سکتا ہے ، آج صحت مند ہے تو کل بیمار بھی ہو سکتا ہے مگر اہل ایمان کی نعمتوں میں نہ کمی آئے گی اور نہ ان کے چھن جانے کا خطرہ ہوگا ، بقول سعدی صاحب (رح) دنیا کی ہر نعمت کو استعمال کرو کیونکہ ایک دن نعمت بھی ختم ہوجائے گی اور انسان خود بھی باقی نہیں رہے گا ، مگر آخرت میں خطرے والی کوئی بات نہیں ہوگی ، نہ موت کا خطرہ نہ نعمت کے چھن جانے کا ڈر اسی لیے فرمایا کہ اہل ایمان کو خوشخبری سنا دو کہ آخرت میں ان کے لیے اچھا بدلہ ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔
Top