بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
شکر کا سزاوار ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اس نے کوئی کج پیچ نہیں رکھا
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ۔ سابق سورة بنی اسرائیل جس مضمون پر ختم ہوئی تھی (ملاحظہ ہوں آیات 105 تا 111) اسی مضمون سے اس سورة کا آغاز فرمایا۔ قرآن کی صورت میں جو نعمت عظمی اہل عرب پر نازل ہوئی تھی یہ اس کے حق کا اظہار ہے کہ یہ نعمت شکر کی موجب ہونی چاہیے نہ کہ کفر کی۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو اس کی ناقدری کریں اور اس کی تکذیب کے لیے نت نئے بہانے تلاش کریں۔ قرآن کی سنت : وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا۔ قَيِّمًا، یہ اس کتاب کی صفت ہے کہ اس کتاب میں خدا نے کوئی کج پیچ نہیں رکھا ہے۔ نہ بیان کے اعتبار سے نہ معنی کے اعتبار سے۔ زبان اس کی عربی مبین ہے اور رہنمائی اس کی اس صراط مستقیم کی طرف ہے جس کے مستقیم ہونے کے دلائل عقل و فطرت اور آفاق وانفس کے ہر گوشے میں موجود ہیں اور قرآن نے ان کو اتنے گوناگون طریقوں سے بیان کردیا ہے کہ کوئی عقل سے کام لینے والا ان کے سمجھنے سے قاصر نہیں رہ سکتا۔ صرف وہی ان سے محروم رہیں گے جو عقل سے کام نہیں لے رہے۔ قرآن کی یہی صفت سورة بنی اسرائیل میں بھی بیان ہوئی ہے۔ " ان ھذا القران یھدی للتی ھی اقوم : بیشک یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سیدھا ہے "۔
Top