Mufradat-ul-Quran - Al-Ankaboot : 61
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا
فَلَمَّا : پھر جب بَلَغَا : وہ دونوں پہنچے مَجْمَعَ : ملنے کا مقام بَيْنِهِمَا : دونوں کے درمیان نَسِيَا : وہ بھول گئے حُوْتَهُمَا : اپنی مچھلی فَاتَّخَذَ : تو اس نے بنا لیا سَبِيْلَهٗ : اپنا راستہ فِي الْبَحْرِ : دریا میں سَرَبًا : سرنگ کی طرح
جب انکے ملنے کے مقام پر پہنچے تو اپنی مچھلی بھول گئے تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بنا لیا
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِہِمَا نَسِيَا حُوْتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَہٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا۝ 61 بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے حوت قال اللہ تعالی: نَسِيا حُوتَهُما[ الكهف/ 61] ، وقال تعالی: فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ [ الصافات/ 142] ، وهو السّمک العظیم، إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] ، وقیل : حاوتني فلان، أي : راوغني مراوغة الحوت . ( ح وت ) الحوت بڑی مچھلی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ نَسِيا حُوتَهُما[ الكهف/ 61] تو اپنی مچھلی بھول گئے فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ [ الصافات/ 142] پھر مچھلی نے ان کو نگل لیا ۔ اس کی جمع حیتان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] اس وقت کے ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں ۔ اور مچھلی چونکہ رخ بدلتی رہتی ہے اس لئے کہا جاتا ہے حاوتنی فلان اس نے مجھے مچھلی کی طرح ہو کا دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ سرب السَّرَبُ : الذّهاب في حدور، والسَّرَبُ : الْمَكَانُ الْمُنْحَدِرُ ، قال تعالی: فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَباً [ الكهف/ 61] ، يقال : سَرَبَ سَرَباً وسُرُوباً «2» ، نحو مرّ مرّا ومرورا، وانْسَرَبَ انْسِرَاباً كذلك، لکن سَرَبَ يقال علی تصوّر الفعل من فاعله، وانْسَرَبَ علی تصوّر الانفعال منه . وسَرَبَ الدّمع : سال، وانْسَرَبَتِ الحَيَّةُ إلى جُحْرِهَا، وسَرَبَ الماء من السّقاء، وماء سَرَبٌ ، وسَرِبٌ: متقطّر من سقائه، والسَّارِبُ : الذّاهب في سَرَبِهِ أيّ طریق کان، قال تعالی: وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ [ الرعد/ 10] ، والسَّرْبُ : جمع سَارِبٍ ، نحو : رکب وراکب، وتعورف في الإبل حتی قيل : زُعِرَتْ سَرْبُهُ ، أي : إبله . وهو آمن في سِرْبِهِ ، أي : في نفسه، وقیل : في أهله ونسائه، فجعل السِّرْبُ كناية، وقیل : اذهبي فلا أنده سِرْبَكِ «3» ، في الکناية عن الطّلاق، ومعناه : لا أردّ إبلک الذّاهبة في سربها، والسُّرْبَةُ : قطعة من الخیل نحو العشرة إلى العشرین . والْمَسْرَبَةُ : الشّعر المتدلّي من الصّدر، السَّرَابُ : اللامع في المفازة کالماء، وذلک لانسرابه في مرأى العین، وکان السّراب فيما لا حقیقة له کا لشّراب فيما له حقیقة، قال تعالی: كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً [ النور/ 39] ، وقال تعالی: وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ فَكانَتْ سَراباً [ النبأ/ 20] ( س ر ب ) السرب ( مصدر ن ) اس کے اصل معنی نشیب کی طرف جانے کے ہیں اور ( اسم کے طور پر ) نشیبی جگہ کو بھی سرب کہہ دیتے ہیں قرآن میں ہے ؛فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَباً [ الكهف/ 61] تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا رستہ بنا لیا ۔ سرب ( ن ) سربا و سروبا ( جیسے مر مرا و مرورا ) اور انسرب ( انفعال ) کے ایک ہی معنی آتے ہیں لیکن سرب بالذات فاعل سے فعل صادر ہونے پر بولا جاتا ہے اور انسرب کبھی انفعالی معنی کے لحاظ سے بولا جاتا ہے یعنی وہ فعل جو دوسرے سے متاثر ہوکر کیا جائے ۔ سرب الدمع ( س) آنسو رواں ہونا ۔ انسرب الحیۃ الی حجرھا سانپ کا اپنے بل میں اتر جانا اسی طرح سرب ( س ) الماء من السقاء کے معنی مشکیزے سے پانی ٹپکنا کے ہیں اور وہ پانی جو مشکیزے سے ٹپک رہا ہو اسے ماء سرب و سرب کہتے ہیں ۔ السارب کسی راستہ پر ( اپنی مرضی سے ) چلا جانے والا ۔ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ [ الرعد/ 10] یا رات کو کہیں چھپ جائے یا دن ( کی روشنی ) میں کھلم کھلا چلے پھرے ۔ سارب کی جمع سرب آتی ہے ۔ جیسے رکب و راکب اور عرف میں اونٹوں کے گلہ کو سرب کہا جاتا ہے ۔ مثلا محاورہ ہے ۔ زعرت سربہ اس کے اونٹ ڈر کر متفرق ہوگئے ( یعنی بد حال ہوگیا ) اور ھو آمن فی سربہ ( وہ خوش حال ہے ) میں سرب کے معنی نفس کے ہیں اور بعض نے کنایتہ اہل و عیال مراد لیا ہے ۔ اسی سے کنایہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ اذهبي فلا أنده سِرْبَكِ : جاؤ تجھے طلاق ہے اور اصل معنی یہ ہے کہ تمہارے اونٹ جدھر جانا چاہیں آزادی سے چلے جائیں میں انہیں نہیں روکونگا ۔ السربۃ : دس سے کے لے کر بیس تک گھوڑوں کی جماعت کو سربۃ ، ، کہا جاتا ہے ۔ المسربۃ ( بضمہ را ) سینہ کے درمیان کے بال جو نیچے پیٹ تک ایک خط کی صورت میں جلے جاتے ہیں ۔ السراب ( شدت گرما میں دوپہر کے وقت ) بیابان میں جو پانی کی طرح چمکتی ہوئی ریت نظر آتی ہے اسے ، ، سراب ، ، کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بظاہر دیکھنے میں ایسے معلوم ہوتی ہے جیسے پانی بہہ رہا ہے پھر اس سے ہر بےحقیقت چیز کو تشبیہ کے طور پر سراب کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل جو چیز حقیقت رکھتی ہوا سے شراب کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً [ النور/ 39] جیسے میدان میں سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھے ۔ وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ فَكانَتْ سَراباً [ النبأ/ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ سراب ہو کر رہ جائیں گے ۔
Top