Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ
: تمام تعریفیں
لِلّٰهِ
: اللہ کیلئے
الَّذِيْٓ
: وہ جس نے
اَنْزَلَ
: نازل کی
عَلٰي عَبْدِهِ
: اپنے بندہ پر
الْكِتٰبَ
: کتاب (قرآن)
وَلَمْ يَجْعَلْ
: اور نہ رکھی
لَّهٗ
: اس میں
عِوَجًا
: کوئی کجی
سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمد ﷺ پر (یہ) کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی۔
آیت نمبر
1
تا
3
قولہ تعالیٰ : الحمدللہ الذی انزل علیٰ عبدہ الکتٰب و لم یجعل لہ عوجاً ط قیماً ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ قریش نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو یہود کے علماء کی طرف بھیجا اور انہوں نے ان دونوں کو کہا : تم ان سے محمد ﷺ کے بارے میں پوچھو ان کے پاس جا کر آپ کی کیفیت اور حالت بیان کرو اور آپ کے قول کے بارے انہیں اطلاع کرو، کیونکہ ان کے پاس پہلے کتاب ہے اور ان کے پاس انبیاء (علیہم السلام) کے بارے وہ علم ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے، پس وہ دونوں نکلے یہاں تک کہ مدینہ طیبہ پہنچ گئے، اور انہوں نے یہودیوں کے علماء سے رسول اللہ ﷺ کے بارے پوچھا، اور ان کے سامنے آپ کے معاملہ کو بیان کیا، اور آپ کے بعض اقوال کے بارے انہیں مطلع کیا، اور انہوں نے انہیں کہا : بلاشبہ تم اہل تورات ہو ہم تمہارے پاس آئے ہیں تاکہ تم ہمیں ہمارے اس صاحب کے بارے میں کچھ آگاہ کرو۔ تو یہودی علماء نے انہیں کہا : تم ان سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھو ہم تمہیں ان کے بارے بتاتے ہیں پس اگر انہوں نے تمہیں ان کے بارے خبر دے دی تو پھر وہ نبی مرسل ہے، اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو جھوٹ گھڑنے والا آدمی ہے، پھر تم اس بارے میں اپنی رائے دیکھ لو، تم ان سے ان نوجوانوں کے بارے میں پوچھوجو پہلے زمانے میں گزر چکے ہیں، ان کا معاملہ کیا تھا ؟ کیونکہ ان کا واقعہ بہت عجیب بات ہے۔ اور پھر تم اس سے اس گھومنے اور چکر لگانے والے آدمی کے بارے میں پوچھوجو زمین کے مشارق و مغارب تک پہنچا، اس کی خبر کیا ہے ؟ اور پھر تم اس سے روح کے بارے سوال کرو، وہ کیا ہے ؟ پس جب وہ تمہیں ان کے بارے بتا دے تو تم اس کی اتباع کروکیون کہ وہ نبی ہے، اور اگر وہ نہ بتائے تو وہ محض جھوٹا آدمی ہے پھر تم اس کے بارے میں جو چاہو کرو۔ پس نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط دونوں قریش کے پاس مکہ مکرمہ آگئے اور آکر بتایا : اے گروہ قریش ! تحقیق ہم تمہارے پاس ایسی چیز لائے ہیں جو تمہارے درمیان اور حضرت محمد ﷺ کے درمیان فرق اور جدائی کر دے گی ..... تحقیق ہمیں یہودی علماء نے حکم دیا ہے کہ ہم ان سے چند چیزوں کے بارے سوال کریں جن کے بارے انہوں نے ہمیں بتا دیا ہے، پس اگر وہ تمہیں ان کے بارے خبر دے دیں تو وہ نبی ہیں، اور اگر نہ دیں تو وہ جھوٹا آدمی ہے، اور تم اس بارے میں اپنی رائے دیکھ لو، چناچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کی : اے محمد ﷺ ہمیں ان جوانوں کے بارے میں بتائیے جو پہلے زمانے میں گزر چکے ہیں۔ تحقیق ان کا قصہ بڑا عجیب ہے، اور اس آدمی کے بارے بتائیے جو چکر کاٹتا رہایہاں تک کہ زمین کے مشارق و مغارب تک جا پہنچا، اور ہمیں روح کے بارے بتایئے وہ کیا ہے ؟ راوی کا بیان ہے : پس رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا :“ جو کچھ تم نے پوچھا ہے میں اس کے بارے کل تمہیں بتاؤں گا۔” اور آپ نے انشاء اللہ تعالیٰ نہ کہا۔ پس وہ آپ سے واپس چلے گئے۔ اور رسول اللہ ﷺ اس بارے میں پندرہ راتوں تک ٹھہرے رہے، انتظار کرتے رہے جو وہ گمان کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں آپ کی طرف کوئی وحی نہ بھیجی اور نہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے، یہاں تک کہ اہل مکہ لوگوں کو بھڑکانے کے لئے بری خبریں اڑانے لگے اور کہنے لگے : محمد ﷺ نے کل ہم سے وعدہ کیا تھا، اور آج پندرہ راتیں گزر چکی ہیں، اور ہم نے صبح اس حال میں کی ہے کہ انہوں نے ہمیں ان چیزوں کے بارے کوئی خبر نہیں دی جن کے بارے ہم نے ان سے سوال کیا تھا، یہاں تک کہ وحی کے رکنے نے رسول اللہ ﷺ کو بھی غمزدہ کردیا، اور آپ پر اس کے بارے اہل مکہ کی گفتگو گراں گزرنے لگی، پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی جانب سے سورة اصحاب کہف لے کر حاضر ہوئے اس میں آپ ﷺ کو ان پر غمزدہ ہونے کی وجہ سے عتاب بھی کیا گیا، اور اس کے بارے آپ کو خبر بھی دی گئی جو انہوں نے آپ سے جوانوں، گھومنے والے آدمی، اور روح کے بارے پوچھا تھا۔ ابن اسحاق نے کہا ہے : میرے سامنے ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو فرمایا : اے جبرائیل ! تو مجھ سے رک گیا یہاں تک کہ برا گمان کیا جانے لگا ” تو جبرائیل امین (علیہ السلام) نے آپ کو عرض کی : وما نتنزل الا بامر ربک له ما بین ایدینا وما خلفنا وما بین ذلک وما کان ربک نسیا۔ (مریم) (اور (جبرائیل ! میرے نبی سے کہو) ہم نہیں اترتے مگر آپ کے رب کے حکم سے، اسی کا ہے جو ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے۔ اور نہیں ہے آپ کا رب بھولنے والا۔ ) پس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی حمد اور اپنے رسول ﷺ کی نبوت کے ذکر کے ساتھ سورت کا آغاز کیا، کیونکہ انہوں نے اسی سے متعلق آپ کا انکار کیا تھا پس ارشاد فرمایا : الحمدلله الذی انزل علیٰ عبدہ الکتب یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اپنے (محبوب) بندے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر کتاب نازل فرمائی، بلا شبہ آپ ﷺ میری طرف سے رسول ہیں، یعنی یہ اس کی تحقیق ہے جو انہوں نے آپ سے آپ کی نبوت کے بارے میں سوال کیا تھا۔ ولم یجعل له عوجا۔ قیماً (اور نہیں پیدا ہونے دی اس میں ذراکجی) یعنی معتدل ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لینذر باساً شدیدًامن لدنه۔ تاکہ ڈرائے دنیا میں اس جلدی آنے والی سزا سے اور آخرت میں عذاب الیم سے، یعنی (وہ سزا اور گرفت) آپ کے اس رب کی طرف سے ہوتی ہے جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا۔ ویبشر المومینین الذین یعملون الصلحت ان لھم اجرًاحسناً ۔ ما کثین فیه ابدًا۔ یعنی وہ دارالخلد (ہمیشہ رہنے والا گھر) ہے وہ اس میں نہیں مریں گے، وہ لوگ جنہوں نے اس بارے آپ کی تصدیق کی جو آپ لے کر آئے ان امور میں سے جن کے سبب غیروں نے آپ کو جھٹلایا، اور انہوں نے اعمال میں سے ان پر عمل کیا جن کے بارے آپ نے انہیں حکم دیا۔ وینذرالذین قالوا اتخذاللہ ولدًا یعنی قریش کو انکے اس قول سے ڈرایا : بیشک ہم فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ مالھم به من علم ولا لابابھم (نہ انہیں اللہ کی (ذات وصفات) کا کچھ علم ہے اور نہ انکے باپ دادا کو) جنہوں نے اپنے فراق اور جدائی کو اور اپنے دین کے عیب اور نقص کو بڑا کردیا۔ کبرت کلمة تخرج من افواھھم (کتنی بڑی ہے وہ بات جو انکے مونہوں سے نکلتی ہے) ۔ مراد انکا یہ قول ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ ان یقولون الا کذباً ۔ فلعلک با خعٌ نفسک علیٰ اٰثارھم ان لم یؤمنو بھذا الحدیث اسفاً (وہ نہیں کہتے ہیں مگر (سر تا سر) جھوٹ۔ تو کیا آپ (فرط غم سے) تلف کردیں گے اپنی جان کو انکے پیچھے اگر وہ اس قرآن کریم پر ایمان نہ لائے افسوس کرتے ہوئے) ۔ یعنی اپنے آپکو ان پر اس وقت غمزدہ کرتے ہوئے جب وہ چیز حاصل نہ ہوجس کی وہ آپ سے امید رکھتے ہیں (آپ اپنی جان کو ضائع کردیں گے) ایسا ہرگز نہ کریں۔ ابن ہشام نے کہا ہے : باخعٌ نفسک یعنی کیا آپ اپنی جان کو ہلاک کردیں گے ؟ (مھلک نفسک) یہ ابو عبیدہ نے مجھ سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح ذوالرمہ نے بھی کہا ہے : الا ایھذا البا خع الوجد نفسہ بشئ نختہ عن یدیہ المقادر اور اس کی جمع باخعون اور بخعۃ ہے۔ اور یہ شعر اس قصیدہ میں ہے اور عرب کہتے ہیں : قد بخعت له نصحی ونفسی، یعنی میں نے اس کے لئے پوری کوشش کی۔ انا جعلناما علی الارض زینۃ لھا لنبلوھم ایھم احسن عملاً (بےشک ہم نے بنایا ان چیزوں کو جو زمین پر ہیں اس کے لئے باعث زینت و آرائش تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔ ) ابن اسحاق نے کہا ہے : یعنی ان میں سے کون ہے جس نے میرے حکم کی اتباع کی ہے اور میری اطاعت کرتے ہوئے عمل کیا ہے۔ و انا لجٰعلون ما علیھا صعیدًا جررًا (اور ہم ہی بنانے والے ہیں ان چیزوں کو جو زمین پر ہیں (ویران کرکے) چٹیل میدان، غیرآباد۔ ) یعنی زمین، اور بیشک جو کچھ اس پر ہے وہ فنا ہونے والا اور ختم ہوجانے والا ہے، اور بلا شبہ لوٹنا میری طرف ہی ہے اور میں ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا دوں گا، پس آپ پریشان نہ ہوں اور نہ وہ آپ کو غمزدہ کرے جو آپ دیکھتے ہیں اور سنتے ہیں۔ ابن ہشام نے کہا ہے : الصعید سے مراد سطح زمین ہے، اور اس کی جمع صعد ہے۔ ذوالرمہ چھوٹے ہرن کا وصف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : کانہ بالضحا ترمی الصید بہ دبابۃ فی عظام الراس خرطوم اور یہ شعر اس کے قصیدہ میں ہے۔ اور الصعید کا معنی الطریق (راستہ) بھی ہے، تحقیق حدیث میں آیا ہے : ایاکم والقعود علی الضعدات (راستوں پر بیٹھنے سے بچو) اور الجذر سے مراد وہ زمین ہے جو کوئی شے نہ اگاتی ہو، اور اس کی جمع اجراز ہے۔ اور کہا جاتا ہے : سنۃٌ جرزٌاور سنون اجرازٌاور یہ وہ سال ہوتے ہیں جن میں کوئی بارش نہ ہو۔ اور ان میں قحط سالی، خشکی اور سختی ہو۔ ذوالرمہ نے اونٹ کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے : طوی النحز والإجزاز ما فی بطونھا فما بقیت إلا لضلوع لجراشع ابن اسحاق نے کہا ہے : پھر اللہ تعالیٰ نے ان نوجوانوں کی خبر کے بیان کی طرف توجہ فرمائی جن کے بارے انہوں نے آپ ﷺ سے سوال کیا تھا۔ پس ارشاد فرمایا : ام حسبت ان اصحٰب الکھف والرقیم کانو من اٰیٰتنا عجباً (کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور رقیم والے ہماری ان نشانیوں میں سے ہیں جو تعجب خیز ہیں۔ ) یعنی تحقیق میری وہ نشانیاں جو میں نے اپنے بندوں میں رکھی ہیں وہ میری ان حجتوں اور دلائل میں سے ہیں جو اس سے زیادہ تعجب خیز ہیں۔ ابن ہشام نے کہا ہے : الرقیم سے مراد وہ کتاب اور تحریر ہے جو ان کی خبر کے با رے لکھی گئی اور اس کی جمع رقم ہے۔ عجاج نے کہا ہے : و مستقر المصف المرقم (لکھا ہوا مصحف رکھنے کی جگہ) اور یہ شعر بحر رجز کے قصیدہ میں سے ہے۔ ابن اسحاق نے کہا ہے : پھر فرمایا : اذ اوی الفتیۃ الی الکھف فقالو ربنا من لدنک رحمة و ھیئ لنا من امرنا رشدا۔ فضربناعلٰی اٰذانھم فی الکھف سنین عددًا۔ ثم بعثنھم لنعلم ای الحزبین احصٰی لما لبثؤا امدًا۔ (یاد کرو) جب پناہ لی ان جوانوں نے غار میں پھر انہوں نے دعا مانگی : اے ہمارے رب ! ہمیں مرحمت فرما اپنی جناب سے رحمت اور مہیا فرما ہمارے لئے اس کام میں ہدایت۔ پس ہم نے بند کر دئیے ان کے کان (سننے سے) اس غار میں کئی سال تک جو گنے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں بیدار کردیا تاکہ ہم دیکھیں کہ ان دو گروہوں میں سے کون صیح شمار کرسکتا ہے اس مدت کا جو وہ (غار میں) ٹھہرے تھے۔ ) پھر فرمایا : نحن نقص علیک نباھم بالحق (اے حبیب ! ) ہم بیان کرتے ہیں آپ سے ان کی خبر ٹھیک ٹھیک) یعنی سچی خبر بیان کرتے ہیں۔ انھم فتیةاٰمنو بربھم وزدنٰھم ھدًی۔ و ربطناعلیٰ قلوبھم اذ قامو فقالو ربنا رب السمٰوٰت والارض لن ندعوا من دونه الٰھا لقد قلنا اذًا شططًا۔ ( بیشک وہ چند نو جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کے (نور) ہدایت میں اضافہ کردیا۔ اور ہم نے مضبوط کردیا ان کے دلوں کو جب وہ راہ حق میں کھڑے ہوگئے تو انہوں نے (برملا) کہ دیا : ہمارا پروردگار وہ ہے جو پروردگار ہے آسمانوں اور زمین کا ہم ہرگز نہیں پکاریں گے اس کے سوا کسی معبود کو (اگر ہم ایسا کریں) تو گویا ہم نے ایسی بات کہی جو حق سے دور ہے۔ ) یعنی انہوں نے میرے ساتھ شرک نہیں کیا جیسا کہ تم نے میرے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن کے بارے تمہیں علم نہیں۔ ابن ہشام نے کہا ہے : الشطط کا معنی غلو کرنا اور حق سے تجاوز کرنا ہے۔ جیسا کہ اعشی بنی قیس بن ثعلبہ نے کہا ہے : اتنتھون ولا ینھی ذری شطط کالطعن یذھب فیه الزیت والفتل اور یہ شعر اسکے قصیدہ میں ہے۔ ابن اسحاق نے کہا ہے : پھر فرمایا : ھٰؤلاء قومنا اتخذوا من دونه اٰلھة لولا یاتون علیھم بسلطٰن بین (یہ ہماری قوم ہے جنہوں نے بنا لیا ہے اسکے سوا غیروں کو (اپنے) خدا، کیوں نہیں پیش کرتے ان (کی خدائی) پر کوئی ایسی دلیل جو روشن ہو۔ ) ابن اسحاق نے کہا ہے : یعنی ایسی حجت جو کامل اور بلیغ ہو۔ فمن اظلم ممن الفترٰی علی اللہ کذبا۔ واذاعتزلتموھم ومایعبدون الا اللہ فاوا الی الکھف ینشرلکم ربکم من رحمتہٖ ویھئ لکم من امر کم فقا۔ وتری الشمس اذاق طلعت تزٰورعن کھفھم ذات الیمین واذاغربت تقرضھم ذات الشمال وھم فی فجوۃ منه۔ (ورنہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھتا ہے۔ اور جب تم الگ ہوگئے ہو ان (کفار) سے اور ان معبودوں سے جنکی پوجا کرتے ہیں اللہ کے سوا، تو اب پناہ لو غار میں پھیلا دے گا تمہارے لئے تمہارا رب اپنی رحمت (کا دامن) اور مہیا کر دے گا تمہارے لئے تمہارے اس کام میں آسانیاں۔ اور جو دیکھے گا سورج کو جب وہ ابھرتا ہے تو وہ ہٹکر گزرتا ہے انکی غار سے دائیں جانب اور جب وہ ڈوبتا ہے تو بائیں طرف کتراتا ہوا ڈوبتا ہے۔ اور وہ (سو رہے) ہیں ایک کشادہ جگہ غار میں۔ ) ابن ہشام نے کہا ہے : تذ اور کا معنی تمیل مائل ہونا (ایک طرف ہونا) اور یہ الزور سے ماخوذ ہے۔ اور ابوالزحف کلبی نے شہر کی صفت بیان کرتے ہوئے کیا ہے : جدب المندی عن ھوانا ازور ینضی المطا یا خمسه العشنزر اور یہ دونوں بیت اس کے ارجوزہ میں ہیں۔ اور تقرضھم ذات الشمال وہ اپنی بائیں جانب سے ان کے پاس سے گزر جاتا ہے اور انہیں چھوڑ دیتا ہے۔ جیسا کہ ذوالرمہ نے کہا ہے : إلی ظعن یقرضن اقواز مشرف شمالا و عن أیمانھن الفوارس اور یہ شعر اس کے قصیدہ میں ہے۔ اور الفجوۃ سے مراد کشادہ جگہ ہے۔ اور اس کی جمع الفجاء ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : البست قومک مخزاۃ و منقصة حتی ابیحوا و حلوا فجوۃ الدار ذٰلک من اٰیت اللہ (سورج کا) یوں (طلوع و غروب) اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے۔ ) یعنی یہ ان پر حجت اور دلیل ہے اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کے امور میں سے اسے پہچانا جنہوں نے انہیں حکم دیا کہ وہ آپ سے ان کے بارے پوچھیں (کہ) ان کے بارے خبر کی تحقیق آپ کی نبوت کی صداقت کی علامت ہے۔ من یھدالله فھوالمھتد۔۔۔۔۔۔ ذراعیه بالوصید (حقیقت یہ ہے) کہ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے تو تو نہیں پائے گا اس سے کوئی مددگار (اور) راہنما، اور (اگر تو دیکھے تو) تو انہیں بیدار خیال کرے گا حالانکہ وہ سو رہے ہیں، اور ہم ان کی کروٹ بدلتے رہتے ہیں (کبھی) دائیں جانب اور (کبھی) بائیں جانب اور ان کا کتا پھیلائے بیٹھا ہے اپنے دونوں بازوان کی دہلیز پر -) ابن ہشام نے کہا ہے : الوصید کا معنی دروازہ ہے ۔ عبسی نے کہا ہے اور اس کا نام عبد بن وہب ہے : بارض فلاۃ لا یسد وصیدھا علی و معروفی بھا غیر منکر اور یہ شعر اس کے اشعار میں ہے۔ اور الوصید کا معنی فناء بھی ہے، (یعنی صحن، گھر کے سامنے کھلی جگہ) اور اس کی جمع وصائد، وصد اور وصدان ہے۔ لواطلعت علیھم لولیت منھم فراداولملئت منھم رعبا۔ وکذلک بعثنٰھم لیتسآ قال قآئل منھم کم لبثتم قالو لبثنا یوما اوبعض یوم قالوا ربکم اعلم بما لبثتم فابعثوٓا احد کم بورقکم ھٰذہٖ الی لمدینۃ فلینظرا ایھا ازکی طعاما فلیا تکم بززق منہ ولیتکطف ولا یشعرن بکم احدا۔ انھم ان یظھروا علیکم یرجموکم اویعیدوکم فی ملتھم ولن تفلحوا اذا ابدا۔ وکذٰلک اعثرنا علیھم لیعلموٓا ان وعد اللہ حق و ان الساعۃ لاریب فیھا اذیتنازعون امرھم فقالوا ابنوا علیھم بنیانا ربھم اعلم بھم قال الذی غلبوا علی امرھم (اگر تو جھانک کر انہیں دیکھے تو ان سے منہ پھیر کر بھاگ کھڑا ہو۔۔۔۔ کہنے لگے وہ لوگ جو غالب تھے اپنے کام پر) یعنی جو ان میں سے اہل سلطنت اور حکمران تھے۔ لنتخذن علیھم مسجدًا (کہ بخدا ہم تو ضروران پر ایک مسجد بنائیں گے۔ ) سیقولون (کچھ کہیں گے) یعنی وہ یہودی علماء جنہوں نے انہیں ان کے بارے سوال کرنے کا حکم دیا۔ ثلٰثة رابعھم کلھم ویقولون ضمسۃ سادسھم کلبھم رجما بالغیب ویقولون سبعۃ وثا منھم کلبھم قل ربی اعلم بعدتھم مایعکمھم الاقلیل فلا تمارفیھم (کہ اصحاب کہف تین تھے چوتھا انکا کتا تھا، کچھ کہیں گے : وہ پانچ تھے چھٹا انکا کتا تھا۔ یہ سب تخمینے ہیں بن دیکھے۔ اور کچھ کہیں گے : وہ سات تھے اور آٹھوں انکا کتا تھا۔ آپ فرمائیے : (اس بحث کو رہنے دو ) میرا رب بہتر جانتا ہے انکے بارے میں اختلاف نہ کرو۔ الا مرآء ظاھرا ولا تسقت فیھم منھم احدا۔ (بجز اسکے کہ سرسری سی گفگتو ہوجائے۔ اور نہ دریافت کرو انکے متعلق (اہل کتاب) میں سے کسی اور سے۔ ) کیونکہ انہیں انکے بارے کوئی علم نہیں۔ ولا تقولن لشایء انی فاعل ذٰلک غدًا۔ الا ان یشاء اللہ واذکر ربک اذا نسیت وقل عسیٰ ان یھدین ربی لا قرب من ھذا رشدا۔ (ہر گزنہ کہنا کسی چیز کے متعلق کہ میں اسے کرنے والا ہوں کل، مگر (یہ کہ ساتھ یہ بھی کہو) اگر چاہا اللہ تعالیٰ نے۔ اور یاد کر اپنے رب کو جب تو بھول جائے۔ (یہ بھی) کہو کہ مجھے امید ہے کہ دکھا دے گا مجھے میرا رب اس سے بھی قریب تر ہدایت کی راہ) یعنی کسی چیز کے متعلق ہر گز نہ کہنا جسکے بارے وہ آپ سے پوچھیں جیسے تم نے اس بارے میں کہا کہ میں تمہیں کل خبر دوں گا، انشاء اللہ تعالیٰ ضرور کہئیے۔ اور اپنے رب کا ذکر کیجئے جب آپ بھول جائیں اور کہئیے : قریب ہے میرا رب اس خبر کے بارے میری راہنمائی فرما دے جسکے بارے تم نے مجھ سے پوچھا ہے ہدایت کی راہ، کیونکہ آپ نہیں جانتے جو کچھ میں اس بارے میں کرنے والا ہوں۔ ولبثوا فی کھفھم ثلث مائة سنین وازدادواتسعاً (اور (اہل کتاب کہتے ہیں کہ) وہ ٹھہرے رہے اپنے غار میں تین سو سال اور زیادہ کئے انہوں نے (اس پر) نوسال) یعنی عنقریب وہ یہ کہیں گے۔ قل اللہ اعلم بما لبثوا ۚلهغیبالسمٰوٰتولارضابصربهواسمعمالھم من دونه من ولی ولا یشرک فی حکمه احدا (آپ فرمائیے : اللہ تعالیٰ بہترجانتا ہے جتنی مدت وہ ٹھہرے، اسی کیلئے (علم) غیب ہے آسمانوں اور زمین کا، وہ بڑادیکھنے والا ہے اور سب باتیں سننے والا ہے، نہیں انکا اسکے سوا کوئی دوست، اور نہیں وہ شریک کرتا اپنے حکم میں کسی کو) یعنی اس پر ان میں سے کوئی شے مخفی نہیں جسکے بارے انہوں نے آپ سے پوچھا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اصحاب کہف کی خبر کے بارے یہ سیرت میں واقع ہے جسے ہم نے ترتیب کے ساتھ ذکر کردیا ہے۔ اور ذوالقرنین کا واقع آگے آ رہا ہے، پھر ہم سورت کے آغاز کی طرف لوٹتے ہیں اور کہتے ہیں : تحقیق الحمدللہ کا معنی پہلے گر چکا ہے۔ اور اخفش، کسائی، فراء، ابوعبیدہ اور جمہور متاولین نے یہ خیال کیا ہے کہ اس سورت کے آغاز میں تقدیم و تاخیر ہے، اور اس کا معنی یہ ہے : الحمدلله الذی أنزل علی عبده الکتاب قیما ولم یجعل له عوجا۔ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اپنے محبوب بندے پر یہ کتاب نازل فرمائی درآنحالیکہ یہ ( معاش ومعاذ کو) درست کرنے والی ہے اور اس میں ذرا کجی نہیں پیدا ہونے دی) اور قیما حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : کلام بغیر تقدیم و تاخیر کے اپنے سیاق پر ہے۔ اور اس کا معنی ہے : و لم یجعل له عوجا و لکن جعلناہ قیما (اور اس میں ذرا کجی نہیں پیدا ہونے دی لیکن ہم نے اسے درست کرنے والا بنایا۔ ) اور حضرت ضحاک (رح) کے قول میں حسن ہے (وہ یہ) کہ قیما کا معنی مستقیم ہے، یعنی یہ کتاب سیدھی اور صیح حکمت کو بیان کرنے والی ہے اس میں کوئی خطا نہیں، نہ اس میں فساد اور نہ کوئی تناقض ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : قیما یعنی یہ ہمیشہ دلائل کے ساتھ درست قرار دینے والی ہے۔ عوجا مفعول بہ ہے۔ اور العوج (عین کے کسرہ کے ساتھ) یعنی دین، رائے، حکم، اور طریق (انداز) میں پائی جانے والی کجی کو کہا جاتا ہے۔ اور عین کے فتحہ کے ساتھ اجسام مثلاً لکڑی اور دیوار وغیرہ میں پائی جانے والی کجی اور ٹیڑھے پن کو کہا جاتا ہے۔ اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور قرآن کریم میں کوئی عوج یعنی عیب نہیں ہے، یعنی اس میں کوئی تناقض اور اختلاف نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ولو کان من عندغیر اللہ لوجد وافیه اختلافاً کثیرا۔ (النساء) اور (اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ) اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے (بھیجا گیا) ہوتا تو ضرور پاتے اس میں اختلاف کثیر) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یعنی اسے مخلوق نہیں بنایا، جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے اس قول باری تعالیٰ میں روایت کیا گیا ہے قراٰنًا عربیًا غیر ذی عوج۔ آپ نے فرمایا : غیر مخلوق۔ اور مقاتل نے کہا ہے : عوجاً کا معنی اختلاف ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : ادوم یودی للصدیق تکرما ولا خیر فیمن کان فی الود اعوجا لینذر باسا شدیدًا یعنی تاکہ محمد ﷺ یا قرآن کریم ڈرائے سخت گرفت سے۔ اور اس میں اضما رہے، یعنی تاکہ (آپ یا قرآن کریم) کافروں کو اللہ تعالیٰ کی سزا سے ڈرائے۔ اور یہ شدید عذاب کبھی دنیا میں ہوتا ہے اور کبھی آخرت میں ہوتا ہے۔ من لدنه یعنی من عندہ۔ (اس کی جانب سے ہے) ابوبکر نے عاصم منلدنه کو دال کے اسکان اور اسے ضمہ کے ساتھ اشمام کرنے اور نون کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے، اور ہا کو یا کے ساتھ ملا دیا ہے۔ اور باقیوں نے لدنه دال کے ضمہ، نون کے اسکان اور ھا کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ جوہری نے کہا ہے : اور لدن میں تین لغات ہیں : لدن لدی اور لد اور کہا ہے : من لدلحییه الی منحورہ المنحور لغوی طور پر المنحر (نتھنے) کے معنی میں ہے۔ قولہ تعالیٰ : و یبشرالمومینین الذین یعملون الصٰلحت ان لھم، ای بان لھم (اور یہ مژدہ سنائے ان اہل ایمان کو جو نیک اعمال کرتے ہیں کہ ان کے بدلے ان کے لئے ہوگی اجرًا حسناً (بہت عمدہ جزا) اور وہ جنت ہے۔ ما کثین وہ ہمیشہ رہیں گے۔ فیه ابدًا یعنی اس کی کوئی انتہا نہیں۔ اور اگر تو دینے کو بیان پر محمول کرے تو پھر ان میں با کی ضرورت نہیں۔ اور اجر حسن سے مراد وہ عظیم ثواب ہے جو جنت تک پہنچا دے گا۔ وینذرالذین قالوا اتخذاللہ ولدًا۔ مالھم به من علم ولا لابائھم کبرت کلمة تخرج من افواھم ان یقولون الا کذبا۔ “ اور تاکہ ڈرائے ان (نادانوں) کو جو یہ کہتے ہیں کہ بنا لیا ہے اللہ نے (فلاں کو اپنا) بیٹا۔ نہ انہیں اللہ ( کی ذات وصفات) کا کچھ علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو، کتنی بڑی ہے وہ بات جو نکلتی ہے ان کے مونہوں سے، وہ نہیں کہتے ہیں مگر (سر تا سر) جھوٹ۔ قولہ تعالیٰ : و ینذرالذین قالوا اتخذاللہ ولدًا اور وہ یہودی ہیں جنہوں نے کہا : حضرت عزیر اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ اور عیسائیوں نے کہا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ اور قریش نے کہا : ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ سورت کے آغاز میں ڈرانے کا ذکر عام ہے، اور یہ ان کے بارے میں خاص ہے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے۔ مالھم به من علم من صلہ ہے، یعنی ہمیں اس قول کے بارے کوئی علم نہیں، کیونکہ وہ اور انہوں نے بغیر دلیل کے یہ کہہ دیا ہے : ولا لابائھم اور نہ ان کے اسلاف کو (کوئی علم ہے) ۔ کبرت کلمة، کلمة بیان ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، یعنی ازروئے قول کے وہ بات بہت بڑی ہے۔ حسن، مجاہد یحییٰ بن یعمر اور ابن ابی اسحاق رحمہم اللہ نے کلمة کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے : أی عظمت کلمة (وہ بات بہت بڑی ہے) مراد ان کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (فلاں کو اپنا) بیٹا بنا لیا ہے۔ اور اس قرأت کی بنا پر اضمار کی کوئی حاجت اور ضرورت نہیں۔ کہا جاتا ہے : کبرالشئ جب کوئی شے عظیم ہوجائے۔ اور کبرالرجل جب آدمی عمر رسیدہ ہوجائے۔ تخرج من افواھھم (جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے) یہ صفت کے محل میں ہے۔ ان یقولون الا کذباً وہ نہیں کہتے ہیں مگر (سر تا سر) جھوٹ۔
Top