Al-Qurtubi - Al-Kahf : 53
وَ رَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَ لَمْ یَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا۠   ۧ
وَرَاَ : اور دیکھیں گے الْمُجْرِمُوْنَ : مجرم (جمع) النَّارَ : آگ فَظَنُّوْٓا : تو وہ سمجھ جائیں گے اَنَّهُمْ : کہ وہ مُّوَاقِعُوْهَا : گرنے والے ہیں اس میں وَلَمْ يَجِدُوْا : اور وہ نہ پائیں گے عَنْهَا : اس سے مَصْرِفًا : کوئی راہ
اور گنہگار لوگ دوزخ کو دیکھیں گے تو یقین کرلیں گے کہ وہ اس میں پڑنے والے ہیں اور اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہ پائیں گے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ورا المجرمون النار اصل رأی ہے یا متحرک تھی جس کا ماقبل مفتوح تھا تو اسے الف سے بدلا، اسی وجہ سے کو فیوں کا خیال ہے کہ رأی کو یا کے ساتھ لکھا جائے۔ بعض بصریوں نے بھی ان کی متابعت کی ہے، لیکن ماہر بصری علماء نے جن میں محمد بن یزید بھی ہے وہ الف کے ساتھ لکھتے ہیں۔ نحاس نے کہا : میں نے علی بن سلیمان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ انہوں نے کہا، میں نے محمد بن یزید کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مضیٰ ، رمیٰ اور تمام یائی حروف کو صرف الف کے ساتھ لکھنا جائز ہے۔ یاء والے اور خط میں واو والے حروف میں کوئی فرق نہیں جیسا کہ لفظ میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اگر یا والے حروف کو یاء کے ساتھ لکھنا واجب ہوتا تو وائو والے حروف کو وائو کے ساتھ لکھنا واجب ہوتا حالانکہ وہ خود ہی اپنے کلیہ کو توڑتے ہیں۔ رمی کو یاء کے ساتھ اور رماہ کو الف کے ساتھ لکھتے ہیں۔ اگر علت یہ ہوتی کہ یہ یاء والے حروف سے ہے تو بھی رماء کو یاء کے ساتھ لکھنا واجب ہوتا پھر وہ ضحاً لکھتے ہیں، جو ضحوۃ کی جمع ہے اور کساً لکھتے ہیں۔ جو کسوۃ کی جمع ہے یہ دونوں وادی سے ہیں یاء سے لکھے گئے ہیں یہ وہ چیز ہے جو اصل پر ثابت نہیں ہوتی۔ فظنوا انھم مواقعوھا۔ یہاں ظن بمعنیٰ یقین اور علم ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : فقلت لھم ظنوا بالفی مدجج یعنی انہوں نے یقین کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : انہوں نے یقین کیا کہ وہ گرنے والے ہیں اس میں۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ آگ کو دور سے دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں۔ اور انہوں نے گمان کیا وہ بھی انہیں پکڑ لے گی۔ حدیث میں ہے ” کافر جہنم کو دیکھے گا اور کمان کرے گا کہ وہ اس کے ساتھ چسپاں ہونے والی ہے، حالانکہ وہ چالیس سال کی مسافت پر ہوگی (1) مواقعہ کا معنی ہے کسی شے کے ساتھ سختی کے ساتھ وابستہ ہوجانا۔ علقمہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فظنوا انھم ملافوھا پڑھا ہے یعنی وہ اس میں جمع ہونے والے ہیں۔ الف کا معنی جمع کرنا ہے۔ ولم یجدوا عنھا مصرفا یعنی وہ نجات کی کوئی جگہ نہ پائیں گے کیونکہ وہ ہر جانب سے ان کا احاطہ کیے ہوئے ہوگی۔ قتبیٰ نے کہا : کوئی پھرنے کی جگہ نہ پائیں گے جس کی طرف وہ پھرجائیں بعض نے فرمایا : کوئی پناہ گاہ نہ پائیں گے جس کی طرف پناہ لیں۔ ان تمام الفاظ کا مفہوم ایک ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے بت اور مورتیاں آگ کو مشرکوں سے پھیرنے کی جگہ نہ پائیں گی۔
Top