Al-Qurtubi - Al-Baqara : 198
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ١۪ وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ١ۚ وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ
لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : اگر تم تَبْتَغُوْا : تلاش کرو فَضْلًا : فضل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب فَاِذَآ : پھر جب اَفَضْتُمْ : تم لوٹو مِّنْ : سے عَرَفٰتٍ : عرفات فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ عِنْدَ : نزدیک الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ : مشعر حرام وَاذْكُرُوْهُ : اور اسے یاد کرو كَمَا : جیسے ھَدٰىكُمْ : اسنے تمہیں ہدایت دی وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم تھے مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے لَمِنَ : ضرور۔ سے الضَّآلِّيْنَ : ناواقف
اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعر حرام (یعنی مزدلفہ) میں خدا کا ذکر کرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا اور اس سے پیشتر تم لوگ (ان طریقوں سے) محض ناواقف تھے
آیت نمبر 198 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جناح اس کا مطلب ہے : گناہ۔ یہ لیس کا اسم ہے ان تبتغوا۔ لیس کی خبر کی حیثیت سے محل نصب میں ہے یعنی فی ان تنتغوا۔ خلیل اور کسائی کے قول پر محل جر میں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حج کو رفث، فسق، جدال سے پاک رکھنے کا حکم دیا تو تجارت کی رخصت دی۔ یعنی اللہ کا فضل تلاش کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں۔ ابتغاء الفضل (فضل کا تلاش کرنا) قرآن میں تجارت کے معنی میں وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ (الجمعہ : 10) اس کی صحت پر دلیل بخاری کی حدیث ہے جو انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے، فرمایا : عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت میں بازار تھے پس لوگ حج کے موسم میں تجارت کرنا گناہ سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم فی مواسم الحج۔ مسئلہ نمبر 2: جب یہ اس آیت میں ثابت ہے، تجارت کا قصد شرک نہیں ہوگا اور مکلف اخلاص سے نہیں نکلے گا جو اخلاص اس پر فرض تھا۔ فقراء کا قول اس کے خلاف ہے۔ حج بغیر تجارت کے افضل ہے تاکہ عبادت دنیا کی آلائشوں سے پاک رہے اور دل عبادت کے علاوہ کسی چیز سے متعلق نہ ہو۔ دارقطنی نے اپنی سنن میں ابو امامہ التیمی سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے حضرت ابن عمر سے کہا : میں اس راستہ میں کرایہ پر جانور دیتا ہوں اور لوگ کہتے ہیں تیرا حج نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر نے کہا : ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے اس کی مثل سوال کیا جو تو نے مجھ سے کیا ہے۔ آپ ﷺ خاموش ہوگئے حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی : لیس علیکم جناح ان تنتغوا فضلا من ربکم۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تیرا حج ہے “۔ فاذا افضتم من عرفت فاذکرو اللہ عند المشعر الحرام واذکروہ کما ھداکم وان کنتم من قبلہ لمن الضالین۔ اس میں سولہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: فاذا افضتم یعنی جب تم چلو۔ کہا جاتا ہے : فاض الاناء۔ جب برتن پھرجائے حتیٰ کہ کناروں سے چھلکنے لگے۔ رجل فیاض، بہت زیادہ عطا کرنے والا۔ زہیر نے کہا۔ وابیض فیاض یدہ غمامۃ علی معتفیہ ما تغب فواضلہ سفید، اس کے ہاتھ طلب گارون پر بادل کی طرح سخاوت کرتے ہیں اس کی عطاء دائمی ہے۔ اور حدیث مستفیض۔ مشہور حدیث۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من عرفت قراء کی جماعت نے عرفت کو تنوین کے ساتھ پڑھا ہے۔ اسی طرح اگر کسی عورت کا نام مسلمات رکھا جائے تو اسے تنوین کے ساتھ پڑھا جائے گا کیونکہ تنوین منصرف اور غیر منصرف کے درمیان فرق کرنے کے لئے نہیں ہے تاکہ تو اسے حذف کرے۔ یہ تو مسلمین میں جو نون ہے اس کے قائم مقام ہے۔ نحاس نے کہا : یہ عمدہ ہے۔ سیبویہ نے عربوں سے، عرفات سے تنوین کا حذف حکایت کیا ہے۔ کہتا ہے : ھذا عرفات یا ھذا ورایت عرفات یا ھذا۔ (تا کہ کسرہ کے ساتھ اور بغیر تنوین کے) جب عربوں نے اسے معرفہ بنایا تو تنوین کو حذف کیا۔ اخفش اور کو فیوں نے تاکہ فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ فاطمہ اور طلحہ کی تا کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے اور انہوں نے بطور استشہاد یہ شعر پڑھا ہے : تنورتھا من اذرعات واھلھا بیثرب ادنی دارھا نظر عال اس میں اذرعات پر فتحہ پڑھا ہے۔ پہلا قول عمدہ ہے، اس میں تنوین وہی ہے جو مسلمات میں ہے کسرہ مسلمین میں یا کے مقابلہ میں ہے اور تنوین، نون کے مقابل ہے۔ عرفات، اسم علم ہے جمع کے ساتھ نام رکھا گیا ہے جیسے اذرعات۔ بعض نے فرمایا : اس کے اردگرد کی وجہ سے اسے عرفات کہا جاتا ہے جیسے ارض سباسب (چٹیل زمین) بعض نے فرمایا : اس جگہ کو عرفات اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ لوگ وہاں ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں۔ بعض نے فرمایا : یہ نام اس لئے رکھا کیونکہ جب ہند میں حضرت آدم علی السلام اترے اور حضرات حواجدہ میں اتریں جو بہت لمبی مدت تلاش کے بعد عرفہ کے دن عرفات میں جمع ہوئے اور ایک دوسرے سے متعارف ہوئے، اس دن کو اسی وہ سے عرفہ کہا جاتا ہے وہ جگہ عرفات کہلائی۔ یہ ضحاک کا قول ہے۔ بعض نے اس کے علاوہ اقوال کہے ہیں جو وارنامناسکنا (البقرہ : 128) کے قول کے تحت گزر چکا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : ظاہر یہ ہے کہ یہ اسم مرتجل ہے جس طرح تمام جگہوں کے نام ہیں۔ عرفۃ یہ نعمان الاراک ہے۔ اس کے متعلق شاعر نے کہا : تزودت من نعمان عود اراکۃ لھند ولکن من بیلغ ھندا میں نے ہند کے لئے عرفات سے سامان لیا لیکن ہند کو کون یہ پہنچائے گا۔ یہ العرف سے ماخوذ ہے جس کا مطلب خوشبو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : عرفھا لھم۔ یعنی اللہ نے اس کو ان کے لئے پاک کیا۔۔۔۔۔ یہ پاک جگہ ہے بخلاف منیٰ کے جہاں جانوروں کی غلاظت اور خون ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کو عرفات کہا جاتا ہے اور وقوف کے دن کو یوم عرفہ کہا جاتا ہے۔ بعض نے کہا : ان دو اسموں کی اصل صبر ہے۔ کہا جاتا ہے : رجل عارف جب کوئی شخص صبر کرنے والا، خشوع کرنے والا ہو۔ ضرب المثل ہے : النفس عروف و ما حمل تھا تتحمل۔ نفس صبر کرنے والا ہے جو تو اس کو برداشت کرائے گا یہ برادشت کرے گا۔ فصبرت عارفۃ لذلک حرۃ یعنی میرا نفس صبر کرنے والا آزاد ہے۔ ذولرمہ نے کہا : عروف لما خطت علیہ المقادر وہ صبر کرنے والا ہے جو اس پر تقدیر نے لکھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر صبر کرنے والا ہے۔ اس اسم کے ساتھ نام رکھا گیا ہے کیونکہ حاجی خضوع و خشوع کا اظہار کرتے ہیں اور دعا پر صبر کرتے ہیں، مختلف مصائب اور تکلیف برداشت کرتے ہیں تاکہ حج کی عبادت کو قائم کریں۔ مسئلہ نمبر 3: اہل علم کا اجماع ہے کہ جو عرفہ کے دن، عرفہ میں زوال سے پہلے ٹھہرا پھر وہاں سے زوال سے پہلے چلا گیا تو اس کا وقوف شمار نہیں ہوگا اور علماء کا اجماع ہے کہ اس کا حج مکمل ہے جو زوال کے بعد ٹھہرا اور رات سے پہلے دن کے وقت چلا گیا مگر امام مالک بن انس نے فرمایا کہ وہ رات کا کچھ حصہ موقف میں گزارے، رہا وہ شخص جو رات کے وقت عرفہ میں ٹھہرا اس کے حج کے مکمل ہونے میں امت کے درمیان اختلاف نہیں ہے اور جمہور کی حجت مطلق یہ ارشاد ہے فاذا افضتم من عرفت اس ارشاد میں دن سے رات کو خاص نہیں فرمایا اور حضرت عروہ من مضرس کی حدیث ہے فرمایا میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جبکہ آپ مزدلفہ میں تھے۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! میں طی کے دو پہاڑوں سے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں، میں نے اپنی سواری کو تھکا دیا ہے اور اپنے نفس کو بھی تھکا دیا ہے اللہ کی قسم میں نے کوئی پہاڑ نہیں چھوڑا مگر میں اس پر ٹھہرا، کیا میرے لئے حج ہے یا رسول اللہ ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمارے ساتھ صبح کی مزدلفہ میں نماز پڑھی اور اس سے پہلے وہ رات یا دن کے وقت عرفات میں آچکا تھا تو اس نے حج کے مناسک پورے کردیئے اور اس کا حج مکمل ہوا۔ اس حدیث کو بہت سے اعمۃ نے نقل یا ہے ان میں سے ابو داؤد، نسائی اور دار قطنی ہیں یہ لفظ وار قطنی کے ہیں۔ ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابوعمر نے کہا حضرت عروہ بن مضرس میں طائی کی حدیث ثابت صحیح ہے۔ اس کو شعبی کے اصحاب میں سے ایک جماعت نے شعبی سے اور انہوں نے عروہ بن مضرس سے روایت کیا ہے۔ ان میں سے اسماعیل بن ابی خالد، داؤد بن ابی ہند، زکریا بن ابی زائدہ، عبداللہ بن ابی السفر اور مطرف ہیں۔ ان سب نے شعبی سے انہوں نے عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام سے روایت کیا ہے۔ امام مالک کی حجت، سنت ثابتہ سے حضرت جابر کی طویل حدیث ہے جس کو مسلم نے نقل کیا ہے۔ اس میں ہے : آپ ﷺ ٹھہرے رہے حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا اور تھوڑی زردی چلی گئی حتیٰ کہ سورج کی ٹکیہ غائب ہوگئی اور آپ ﷺ کے افعال وجوب پر ہیں خصوصا حج کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا : مجھ سے اپنے مناسک حج لے لو۔ مسئلہ نمبر 4: جمہور کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو سورج غروب ہونے سے پہلے عرفات سے چلا گیا اور واپس نہ آیا اس پر حج کی صحت کے ساتھ کیا لازم ہے ؟ حضرات عطا، سفیان ثوری، شافعی، احمد، ابو ثور اور اصحاب رائے وغیرہ نے کہا : اس پر بکری ہے۔ حسن بصری نے کہا : اس پر ہدی ہے۔ ابن جریج نے کہا : اس پر اونٹ ہے۔ مالک نے کہا : اس پر آئندہ سال حج ہے اور ہدی کو وہ آئندہ نحر کرے گا وہ اس شخص کی مانند ہے جس کا حج فوت ہوگیا۔ اگر وہ عرفہ کی طرف لوٹ آیا پھر سورج غروب ہونے کے بعد نکلا تو امام شافعی نے فرمایا : اس پر کوئی چیز نہیں ہے۔ یہی احمد، اسحاق اور داؤد کا قول ہے۔ طبری نے بھی یہی کہا ہے۔ امام ابو حنیفہ، ان کے اصحاب اور ثوری نے کہا : اس سے دم ساقط نہ ہوگا اگرچہ وہ سورج غروب ہونے کے بعد لوٹ آئے یہی ابو ثور کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 5: علماء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو سواری پر قادر ہو اس کے لئے سوار ہو کر عرفہ میں وقوف کرنا افضل ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے عرفہ سے جانے تک سورج کے غروب ہونے کے بعد سواری پر وقوف کیا اور حضرت اسامہ بن زید کو آپ ﷺ نے اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ یہ حضرت جابر اور حضرت علی ؓ کی حدیث میں محفوظ ہے۔ حضرت ابن عباس کی حدیث میں بھی ہے۔ حضرت جابر نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ سوار ہوئے حتیٰ کہ موقف میں آئے اپنی اونٹنی قصواء کا بطن جبل رحمت کے نیچے پتھروں کی طرف کیا اور پیدل چلنے والوں کے راستہ کو سامنے رکھا اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور آپ سورج کے غروب ہونے تک ٹھہرے رہے اور زردی تھوڑی سی چلی گئی حتیٰ کہ سورج کی ٹکیہ غائب ہوگئی اور حضرت اسامہ بن زید کو آپ نے اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ (الحدیث) اگر سواری پر سوار ہونے پر قادر نہ ہو تو اپنے قدموں پر دعا مانگتا ہوا کھڑا ہو جب تک طاقت رکھتا ہے اور کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو تو بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں، سوار ہو کر وقوف کرنے میں مباہات اور حج کی تعظیم ہے۔ ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب۔ (الحج) ابن وہب نے اپنے مؤطا میں کہا : مجھے مالک نے کہا : عرفہ میں وقوف سواری اور اونٹ پر وقوف میں نزدیک کھڑا ہو کر وقوف کرنے سے میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اور جو کھڑا ہو کر وقوف کرے اس کے آرام کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مسئلہ نمبر 6: صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ آپ ﷺ جب عرفہ سے چلے تو تھوڑے تیز چلتے جب کھلی جگہ پاتے تو مزید تیز چلتے۔ ہشام بن عروہ نے کہا : نص، عنق سے زیادہ تیز چلنا ہے۔ اسی طرح حاجیوں کے اماموں اور دوسرے لوگوں کو چلنا چاہئے کیونکہ مزدلفہ کی طرف جلدی چلنا، نماز کی طرف جلدی چلنا ہے اور یہ مسلم ہے کہ مغرب کی نماز اس رات مزدلفہ میں عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، یہ سنت ہے۔ جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر 7: قرآن اور سنت ثابتہ کا عموم ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عرفہ سارا موقف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں یہاں ٹھہرا اور عرفہ سارا موقف ہے۔ اس حدیث کو مسلم وغیرہ نے حضرت جابر کی طویل حدیث سے روایت کیا ہے۔ مؤطا امام مالک میں ہے انہیں یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عرفہ سارا موقف ہے اور بطن عرنہ سے بلند رہو۔ اور مزدلفہ سارا موقف ہے اور بطن محسر سے بلند رہو۔ (یعنی ان میں نہ ٹھہرو) اسی طرح حفاظ ثقات اور اہل حدیث میں سے اثبات لوگوں نے جعفر بن محمد کی حدیث سے نقل کیا ہے جو انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے۔ ابو عمر نے کہا : فقہاء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جس نے وادی عرفہ میں وقوف کیا۔ ابن منذر نے مالک سے ان کا قول ذکر یا ہے کہ وہ شخص بکری دے اور اس کا حج مکمل ہے۔ یہ روایت خالد بن نزاد نے مالک سے روایت کی ہے، ابو المصعب نے کہا کہ وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے وقوف کیا ہی نہیں اور اس کا حج فوت ہے اس پر آئندہ سال حج ہے جب وہ بطن عرنہ میں ٹھہرا ہو۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے، فرمایا : جو وادی عرنہ سے چلا اس کا حج نہیں یہ ابن قاسم اور سالم کا قول ہے ابن منذر نے یہ قول امام شافعی سے روایت کیا ہے۔ ابن منذر نے کہا : میں بھی یہی کہتا ہوں کہ وہ اس جگہ پر نہ ٹھہرے جہاں رسول اللہ ﷺ نے نہ ٹھہرنے کا حکم دیا ہے۔ ابن عبد البر نے کہا : عرفہ سے بطن عرنہ کی استثناء ایسی نہیں ہے جس کی حجت لازم ہو، نہ نقل کی جہت سے اور نہ اجماع کی جہت سے، اور جو ابو المصعب کے مذہب پر چلتے ہیں انکی حجت یہ ہے کہ عرفہ کا وقوف فرض ہے اس پر اجماع ہے اور یہ معین جگہ میں ہے۔ پس اس کی ادائیگی یقین کیساتھ ہی ہوگی اور اختلاف کے ہوتے ہوئے یقین نہیں ہوتا بطن عرنہ راء کے فتحہ اور راء کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ یہ عرفہ کی مسجد کے مغربی جانب ہے حتیٰ کہ بعض علماء نے فرمایا : عرفہ کی مسجد کی مغربی دیوار اگر گرے گی تو وہ بطن عرنہ میں گریگی۔ الباجی نے ابن جبیب سے روات کیا ہے کہ عرنہ حل میں ہے اور عرفۃ حرم میں ہے ابو عمر نے کہا : رہی بطن محسر تو وکیع نے ذکر کیا ہے ہمیں سفیان نے بتایا انہوں نے ابو زبیر سے انہوں نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ بطن محسر میں تیز چلے مسئلہ نمبر 8: نو ذی الحجہ کو عرفہ کے علاوہ دوسری مساجد میں اہل عرفہ سے تشبیہ اختیار کرتے ہوئے جمع ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شعبہ نے قتادہ سے انہوں نے حسن سے روایت کیا ہے، فرمایا : سب سے پہلے حضرت ابن عباس نے یہ بصرہ میں کیا یعنی نویں ذی الحجہ کے دن لوگوں کا بصرہ کو عرفہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے دیکھا جبکہ لوگ ان کے پاس جمع تھے۔ اثرم نے کہا : میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا : میں امید کرتا ہوں اس میں کوئی حرج نہیں کئی لوگوں نے ایسا کیا ہے۔ حسن، بکر، ثابت اور محمد بن عرفہ کے دن مسجد میں حاضر ہوتے تھے۔ مسئلہ نمبر 9: نویں ذی الحجہ کی فضیلت : نویں کے دن کی بہت بڑی فضیلت ہے اور بہت بڑا ثواب ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ بڑے بڑے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور نیک اعمال کو اس میں کئی گنا کیا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : نویں کے دن کا روزہ گزشتہ اور باقی سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اس کو ” الصحیح “ میں نقل کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : افضل دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور اس میں سے افضل وہ ہے جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کہا : لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ دار قطنی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عرفہ کے دن سے زیادہ اللہ تعالیٰ کسی دن میں آگ سے زیادہ لوگوں کو آزاد نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے لائق قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے مباہات فرماتا ہے، جو انہوں نے ارادہ کیا اسے بیان فرماتا ہے۔۔۔۔ اور مؤطا میں عبیداللہ بن کریز سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شیطان عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن ذلیل و حقیر، دھتکارا ہوا اور غصہ میں نہیں دیکھا جاتا یہ نہیں ہوتا مگر اس لئے کہ جو رحمت کا نزول اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے گناہوں سے تجاوز دیکھتا ہے۔ مگر بدر کے دن جو اس نے (مسلمانوں کے لئے فرشتوں کی مدد) دیکھی (تو اتنا ہی پریشان و ذلیل ہوا تھا) پوچھا گیا : یا رسول اللہ ! بدر کے دن شیطان نے کیا دیکھا تھا ؟ فرمایا : اس نے جبریل کو دیکھا کہ وہ فرشتوں کی صفوں کو جنگ کے لئے ترتیب دے رہا ہے۔ ابو عمر نے کہا : یہ حدیث ابو النضر اسماعیل بن ابراہیم عجلی نے مالک سے انہوں نے ابراہیم بن ابی عیلہ سے انہوں نے طلحہ بن عبیداللہ بن کریز سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے۔ اور حدیث میں عن ابیہ کسی اور نے کہیں کہا اور یہ کچھ نہیں ہے۔ صحیح وہ ہے جو مؤطا میں ہے۔ ترمذی الحکیم نے ” نوادرالاصول “ میں ذکر کیا ہے اپنی مسند سے عباس بن مرداس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے لئے عرفہ کے پچھلے پہر مغفرت اور رحمت کی دعا مانگی اور بہت زیادہ دعا مانگی اور اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا : میں نے تیری دعا قبول کرلی مگر جو بعض پر ظلم کیا۔ ان کے جو گناہ میرے اور ان کے درمیان ہیں میں نے وہ معاف کردیئے۔ حضور ﷺ نے عرض کی : یا رب ! تو قادر ہے کہ تو اس مظلوم کو اس پر جو ظلم کیا گیا ہے اس سے زیادہ بہتر جزا عطا فرما دے اور تو اس ظالم کو معاف فرمادے تو اس وقت کوئی جواب نہ دیا جب مزدلفہ کی صبح تھی تو آپ نے دعا میں مزید اجتہاد و کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا : میں نے انہیں بھی معاف کردیا۔ رسول اللہ ﷺ مسکرائے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ! آپ ایسے وقت میں مسکرائے ہیں جس وقت آپ پہلے کبھی نہیں مسکرائے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اللہ کے دشمن ابلیس پر ہنسا ہوں جب اسے علم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے بارے میری بات قبول کرلی ہے تو وہ ویل اور موت کو پکارنے لگا اور اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا اور بھاگنے لگا۔ ابو عبد الغنی حسن بن علی نے کہا : ہمیں عبد الرزاق نے بتایا انہوں نے کہا : ہمیں مالک نے بتایا انہوں نے ابو الزناد سے انہوں نے اعرج سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب عرفہ کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ خالص حاجی کو معاف کردیتا ہے اور جب مزدلفہ کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ تاجروں کو معاف فرما دیتا ہے اور جب منیٰ کا دن ہوتا ہے تو اونٹوں والوں کو معاف فرما دیتا ہے جب جمرہ عقبہ کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سوال کرنے والوں کو معاف کردیتا ہے اور جو مخلوق موقف میں لا الہ الا اللہ کہنے والوں میں سے موجود ہوتی ہے اسے معاف فرما دیتا ہے۔ ابو عمر نے کہا : یہ حدیث مالک کی حدیث سے غریب ہے اور محفوظ نہیں ہے مگر اسی سند سے۔ ابو عبد الغنی نے کہا : میں اسے نہیں جانتا اور اہل علم رغبت اور فضائل والی احادیث میں سختی کرتے تھے۔ مسئلہ نمبر 10: اہل علم نے نویں ذی الحجہ کا روزہ مستحب قرار دیا ہے مگر عرفات کے مقام پر نہیں۔ ائمہ نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عرفہ کا روزہ نہ رکھا اور حضرت ام الفضل نے آپ کو دودھ کا پیالہ بھیجا تو آپ نے نوش فرما لیا۔ فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے، فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ حج کیا اور آپ نے عرفہ کے دن روزہ نہ رکھا تھا اور حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ حج کیا اور انہوں نے یہ روزہ نہ رکھا تھا۔ حضرت عمر ؓ کے ساتھ حج کیا اور انہوں نے یہ روزہ نہ رکھا تھا۔ اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے۔ وہ افطار کو پسند فرماتے تھے تاکہ دعا پر قوت حاصل کرے۔ بعض اہل علم نے عرفہ کا روزہ رکھا۔ حضرت ابن عمر سے پہلی حدیث کی مثل مسند سے مروی ہے اور اس کے آخر میں ہے حضرت عثمان کے ساتھ میں نے حج کیا اور انہوں نے روزہ نہیں رکھا، میں نہ خود روزہ رکھتا ہوں نہ اس کا حکم دیتا ہوں نہ اس سے منع کرتا ہوں۔ یہ حدیث حسن ہے۔ یہ ابن منذر نے ذکر کیا ہے۔ عطا نے عرفہ کے دن کے روزہ کے متعلق فرمایا : میں سردیوں میں روزہ رکھتا ہوں اور گرمیوں میں نہیں رکھتا ہوں۔ یحییٰ انصاری نے فرمایا : عرفہ کے دن فطرواجب ہے۔ حضرت عثمان بن ابو العاصی، حضرت ابن زبیر اور حضرت عائشہ ؓ عرفہ کا روزہ رکھتے تھے۔ ابن منذر نے کہا : عرفہ کے دن عرفات میں میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں روزہ نہ رکھنا محبوب ہے اور عرفات کے علاوہ عرفہ کا روزہ رکھنا محبوب ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب عرفہ کے دن کے روزہ کے بارے پوچھا گیا، یہ ” گزشتہ اور باقی سال کا کفارہ ہے “۔ اور ہم نے عطا سے روایت کیا ہے، فرمایا : جس نے عرفہ کے دن روزہ افطار کیا تاکہ دعا پر قوت حاصل کرے تو اس کے لئے روزہ دار کے اجر کا مثل اجر ہوگا۔ مسئلہ نمبر 11: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاذکرواللہ عند المشعر الحرام یعنی مشعر حرام کے پاس دعا اور تلبیہ کے ساتھ اللہ کا ذکر کرو، اس کو جمع کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں مغرب و عشاء کی نمازیوں کو جمع کیا جاتا ہے۔ یہ قتادہ کا قول ہے۔ بعض نے فرمایا : کیونکہ اس میں حضرت آدم (علیہ السلام) ، حضرت حواء علیھا السلام کے ساتھ ملے تھے۔ اذدلف الیھا کا مطلب ہوتا ہے وہ اس کے قریب ہوا اسی وجہ سے اس کو مزدلفہ کہا جاتا ہے اور یہ کہنا بھی جائز ہے کہ اس میں موجود لوگوں کے فعل کی وجہ سے اس کو مزدلفہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے قریب ہوتے ہیں۔ یعنی وہ اس میں ٹھہرنے کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں اس کو مشعر کہا جاتا ہے۔ یہ شعار سے مشتق ہے جس کا معنی علامت ہے، کیونکہ یہ حج، نماز اور رات گزارنے کی علامت ہے اور اس کے پاس دعا حج کے شعائر میں سے ہے اور حرمت کی صفت اس کی حرمت کی وجہ سے لگائی گئی ہے۔ مسئلہ نمبر 12: یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب اور عشاء کی نماز مزدلفہ میں اکٹھی پڑھی۔ اہل علم کا اجماع ہے اور کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حاجی کے لئے مغرب و عشاء کی نماز کو جمع کرنا ہے اور اس کے متعلق اختلاف ہے جس نے مزدلفہ میں پہنچنے سے پہلے نماز پڑھی۔ امام مالک نے کہا : جو امام کے ساتھ ٹھہرے اور امام کے ساتھ نکلے تو وہ نماز نہ پڑھے حتیٰ کہ مزدلفہ آئے اور یہاں دونوں نمازیں اکٹھی پڑھے اور اس پر انہوں نے اس ارشاد سے استدلال کیا جو نبی کریم ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید کو فرمایا تھا ” نماز آگے ہے “۔ ابن حبیب نے کہا : جس نے مزدلفہ میں آنے سے پہلے بغیر عذر کے نماز پڑھی تو وہ نماز کا اعادہ کرے جب اسے علم ہو، یہ اس شخص کی مانند ہے جس نے زوال سے پہلے نماز پڑھی کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : الصلاۃ امامک (نماز آگے ہے) یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اشہب نے کہا : اس پر اعادہ نہیں ہے مگر جب اس نے شفق کے غیب ہونے سے پہلے نماز پڑھی ہو، وہ صرف عشاء کی نماز کا اعادہ کرے۔ یہی امام شافعی کا قول ہے۔ قاضی ابو الحسن نے اس کی تائید کی ہے اور اس نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ یہ دو نمازین مزدلفہ میں جمع کرنا سنت ہے اور ان کی صحت کے لئے یہ شرط نہیں ہے، یہ استحباب کے معنی پر ہے جیسے ظہر اور عصر کو عرفہ میں جمع کرنا ہے۔ ابن منذر نے اس قول کو اختیار کیا ہے اور انہوں نے یہ قول عطا بن رباح، عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد، سعید بن جبیر، احمد، اسحاق، ابو ثور اور یعقوب سے حکایت کیا ہے اور امام شافعی سے حکایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : وہ نماز نہ پڑھے حتیٰ کہ مزدلفہ میں آئے اگر مزدلفہ پہنچنے سے پہلے نصف رات گزر چکی ہو تو دونوں نمازیں پڑھے۔ مسئلہ نمبر 13: جس نے جلدی کی اور شفق کے غروب ہونے سے پہلے مزدلفہ پہنچ گیا تو ابن حبیب نے کہا : جو شفق کے غروب ہونے سے پہلے جلدی پہنچا اس کی نماز نہیں، نہ امام کی نماز ہے اور نہ کسی اور کی حتیٰ کہ شفق غائب ہوجائے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : نماز آگے ہے۔ پھر شفق کے غروب ہونے کے بعد مزدلفہ میں نماز پڑھی اس اعتبار سے اس نماز کا وقت شفق کے غائب ہونے کے بعد ہے۔ پس شفق کے غائب ہونے سے پہلے اس کو ادا کرنا جائز نہیں۔ اگر اس کا وقت شفق کے غائب ہونے سے پہلے ہوتا تو اس وقت سے مؤخرنہ کی جاتی۔ مسئلہ نمبر 14: جو امام کے جانے کے بعد عرفہ میں آیا یا جس کو عذر لاحق ہوا جو امام کے ساتھ ٹھہرا تھا تو ابن المواز نے کہا : جو امام کے بعد ٹھہرا وہ ہر نمازیں اکٹھی پڑھے جب شفق غائب ہوجائے۔ ابن القاسم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو امام کے بعد ٹھہرا، اگر اسے رات کے تیسرے حصہ میں مزدلفہ پہنچنے کی امید ہو تو وہ نماز کو مؤخر کرے حتیٰ کہ مزدلفہ پہنچ جائے ورنہ ہر نماز کو اپنے وقت پر پڑھے۔ ابن المواز نے مزدلفہ تک نماز کو مؤخر کرنے کو کہا جو امام کے ساتھ ٹھہرے نہ کہ کسی دوسرے شخص کے لئے۔ امام مالک نے وقت کی رعایت کی ہے، مکان کی نہیں۔ ابن القاسم نے نماز کے لئے محتار وقت اور مکان کا اعتبار کیا ہے۔ جب مختار وقت کے فوت ہونے کا خوف ہو تو مکان کا اعتبار باطل ہوجائے گا اور مختار وقت کی رعایت اولیٰ ہے۔ مسئلہ نمبر 15: علماء کا مزدلفہ میں نماز کی ہیئت میں دو اعتبار سے خلاف سے اختلاف ہے : اذان اور اقامت کے اعتبار سے کیا ان کا جمع کرنا متصل ہوگا یا کسی عمل سے ان کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا یا ان کے درمیان عمل جائز ہے، مثلاً سواریوں کا اتارنا وغیرہ۔ رہی اذان اور اقامت، ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں کیا مگر یہ بالا جماع ظہر کے پہلے وقت میں ادا کی جائیں گی۔ ابو عمر نے کہا : امام مالک نے جو کہا اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی کوئی مرفوع حدیث نہیں جانتا لیکن حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے۔ ابن منذر نے حضرت ابن مسعود کا بھی زائد ذکر کیا ہے۔ نظری جہت سے اس بات میں امام مالک کی حجت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ اور عرفہ کی نمازوں میں سنت قائم فرمائی کہ ان دونوں نمازوں کا ایک وقت ہے جب ان کا وقت ایک ہے اور ہر نماز اپنے وقت پر پڑھی جائے گی تو کوئی نماز دوسری سے اذان اور اقامت کے اعتبار سے اولیٰ نہ ہوگی کیونکہ ان میں سے کوئی ایک بھی اس کا تقاضا نہیں کرتی۔ یہ نماز اپنے وقت میں پڑھی گئی ہے اور جو نماز اپنے وقت پر پڑھی گئی ہو اس کی سنت یہ ہے کہ اس کے لئے اذان دی جائے اور جماعت کے لئے تکبیر کہی جائے اور یہ واضح ہے۔ واللہ اعلم دوسرے علماء نے کہا : ان میں سے پہلی نماز اذان اور اقامت کے ساتھ پڑھی جائے اور دوسری نماز بغیر اذان اور اقامت کے پڑھی جائے۔ علماء نے کہا : حضرت عمر نے دوسری کا حکم دیا تھا کیونکہ لوگ شام کے کھانے کے لئے جدا جدا ہوگئے تھے۔ پس آپ نے اذان دلوائی تاکہ وہ لوگوں کو جمع کریں۔ علماء نے کہا : اسی طرح ہم کہتے ہیں جب لوگ امام سے کھانے وغیرہ کے لئے جدا ہوگئے تو آپ نے مؤذنین کو حکم دیا کہ وہ اذان دیں تاکہ لوگ جمع ہوجائیں۔ جب اذان دی تو اقامت بھی کہی۔ علماء نے کہا : یہ وہ معنی ہے جو حضرت عمر سے مروی ہے۔ عبدالرحمن بن یزید کی حدیث ذکر کی۔ فرمایا : حضرت ابن مسعود عشاء کا کھانا مزدلفہ میں دو نمازوں کے درمیان میں کھاتے تھے اور دوسری سند میں ہے ہر نماز کو اذان اور اقامت کے ساتھ پڑھا۔ یہ عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : دونوں نمازیں ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ مزدلفہ میں اکٹھی پڑھی جائیں گی اور ان درمیان کوئی چیز نہ ہوگی۔ حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے اور یہی ثوری کا قول ہے۔ عبدالرزاق اور عبدالمالک بن صباح نے ثوری سے انہوں نے سلمہ بن کہیل سے انہوں نے حضرت سعید بن جبیر سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کیا مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں اور عشاء کی دو رکعتیں پڑھیں ایک اقامت کے ساتھ۔ دوسرے علماء نے کہا : مزدلفہ میں مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ جمع کرے۔ یہ علماء اس روایت پر عمل کرتے ہیں جو ہشیم نے یونس بن عبید سے انہوں نے سعید بن جبیر سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نماز کو مزدلفہ میں جمع کرتے تھے اور ان کے درمیان کچھ نہیں کرتے تھے۔ اس کی مثل حضرت خزیمہ بن ثابت کی حدیث سے مرفوع روایت مروی ہے لیکن وہ قوی نہیں ہے۔ جو زجانی نے محمد بن حسن سے انہوں نے امام ابو یوسف سے انہوں نے امام ابوحنیفہ سے حکایت کیا ہے کہ دونوں نمازیں ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا کی جائیں گی۔ مغرب کے لئے اذان دی جائے گی اور عشاء کے لئے صرف تکبیر کہی جائے گی۔ یہی نظریہ امام طحاوی کا ہے کیونکہ حضرت جابر کی حدیث اس کی دلیل ہے۔ یہ پہلا قول ہے اور اسی پر اعتماد ہے۔ بعض علماء نے کہا : بغیر اذان کے دونوں اقامتوں کے ساتھ ادا کی جائیں گی اور یہ جن علماء نے کہا ان میں سے امام شافعی، ان کے اصحاب اور اسحاق ہیں اور امام احمد کا ایک قول یہی ہے۔ یہ سالم بن عبداللہ، قاسم بن کا قول ہے۔ ان علماء نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو عبدالرزاق نے معمر سے انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے سالم سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مزدلفہ آئے تو مغرب و عشاء کی نمازوں کو جمع کیا مغرب کی تین اور عشاء کی دو رکعتیں پڑھیں ہر ایک کے لئے ایک تکبیر کہی اور ان کے درمیان کوئی نوافل نہ پڑھے۔ ابو عمر نے کہا : حضرت ابن عمر سے آثار اس قول کے بارے میں زیادہ ثابت ہیں جو اس باب میں مروی ہیں لیکن یہ تاویل کا احتمال رکھتے ہیں اور حضرت جابر کی حدیث میں اختلاف نہیں ہے اور یہ اولیٰ ہے۔ اس مسئلہ میں نظر کو کوئی دخل نہیں ہے اس میں صرف اتباع ہے۔ مسئلہ نمبر 16: نماز کے علاوہ دونوں نمازوں کے درمیان کسی عمل کے ساتھ فاصلہ کرنا۔ حضرت اسامہ بن زید سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مزدلفہ میں آئے تو اترے، وضو کیا اور مکمل وضو کیا پھر نماز کے لئے تکبیر کہی گئی، آپ نے مغرب کی نماز پڑھی پھر ہر شخص نے اپنی منزل میں اپنے اونٹ کو بٹھایا پھر تکبیر کہی گئی تو پھر آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی اور دونوں نماز دوں کے درمیان کوئی نماز نہ پڑھی۔ ایک روایت میں ہے ” اور صحابہ نے سامان نہ کھولا حتیٰ کہ عشاء کی تکبیر ہوئی آپ نے نماز پڑھائی پھر سامان کھولا “ ہم نے ابھی ذکر کیا ہے کہ حضرت ابن مسعود سے دونوں نمازوں کے درمیان فاصلہ کرنے کا جواز ہے۔ امام مالک سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو مزدلفہ میں آیا کیا وہ پہلے نماز پڑھے یا نماز کو مؤخر کرے حتیٰ کہ سواری سے سامان اتارے ؟ سامان خفیف ہو تو کوئی حرج نہیں کہ نماز سے پہلے اس کو اتار دے اور رہی سازوسامان والی سواریاں ان کو بٹھانے اور ان کا سامان اتارنے کا نظریہ نہیں رکھتا، اسے چاہئے کہ پہلے نمازیں پر ہے پھر سواری سے سامان اتارے۔ اشہب نے اپنی کتب میں لکھا ہے کہ اس کے لئے نماز سے پہلے سواری سے اتارنا جائز ہے اور مغرب کی نماز پڑھ کر سامان اتارنا میرے نزدیک محبوب ہے جب تک کہ اس کی طرف مجبور نہ ہو۔ مثلاً سواری پر بوجھ زیادہ ہو یا عذر ہو۔ رہا دونوں نمازوں کے درمیان نفل پڑھنا تو ابن منذر نے کہا : اس میں علماء کا اختلاف نہیں جانتا کہ سنت یہ ہے کہ جمع کرنے والا دونوں نمازوں کے درمیان نفل نہیں پڑے گا۔ حضرت اسامہ کی حدیث میں ہے ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔ مسئلہ نمبر 17: جمہور علماء کے نزدیک مزدلفہ میں رات گزارنا حج کا رکن ہے جو شخص مزدلفہ میں دسویں کی رات نہیں گزارتا اور مزدلفہ میں نہیں ٹھہرتا اس پر جو واجب ہوگا اس کے متعلق اختلاف ہے۔ امام مالک نے کہا : جس نے مزدلفہ میں رات نہیں گزاری اس پر دم ہے اور جو رات کا اکثر حصہ ٹھہرا اس پر کچھ واجب نہیں ہے کیونکہ امام مالک اور ان کے اصحاب کے نزدیک مزدلفہ میں دسویں کی رات گزارنا سنت مؤکدہ ہے فرض نہیں ہے۔ اسی طرح کا قول عطا، زہری، قتادہ، سفیان ثوری، احمد، اسحاق، ابو ثور اور اصحاب الرائے کا ہے اس شخص کے بارے میں جس نے رات نہیں گزاری۔ امام شافعی نے فرمایا : اگر مزدلفہ سے نصف رات کے بعد نکل گیا تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں اور اگر نصف رات سے پہلے نکل گیا اور واپس نہ آیا تو فدیہ دے گا اور فدیہ ایک بکری ہے۔ حضرات عکرمہ، شعبی، نخعی، حسن بصری نے کہا : مزدلفہ میں وقوف فرض ہے اور جس سے مزدلفہ کا وقوف فوت ہوجائے تو اس کا حج فوت ہوجائے گا اور وہ اپنے احرام کو عمرہ کا احرام بنادے گا۔ یہ حضرت ابن زبیر سے مروی ہے اور یہ اوزاعی کا قول ہے اور ثوری سے اس کی مثل مروی ہے۔ اور ان سے اصح قول یہ مروی کہ مزدلفہ کا وقوف سنت مؤکدہ ہے۔ حماد بن ابی سلیمان نے کہا : جس سے مزدلفہ سے چلنا فوت ہوگیا اس کا حج فوت ہوگیا، وہ عمرہ کرکے احرام کھول دے اور آئندہ سال حج کرے اور انہوں نے ظاہر کتاب وسنت سے حجت پکڑی ہے۔ کتاب اللہ میں ارشاد ہے : فاذآ افضتم من عرفٰت فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام۔ اور سنت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس نے مزدلفہ کا ٹھہرنا پایا پھر وہ لوگوں کے ساتھ ٹھہرا حتیٰ کہ وہ وہاں سے چلا تو اس نے حج پالیا اور جس نے مزدلفہ کا ٹھہرنا نہیں پایا اس کے لئے حج نہیں ہے۔ یہ ابن منذر نے ذکر کیا ہے۔ دارقطنی نے عروہ بن مضرس سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا جبکہ آپ مزدلفہ میں تھے۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ کیا میرے لئے حج ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمارے ساتھ وقوف کیا حتیٰ کہ ہم یہاں سے چل پڑے اور اس سے پہلے وہ عرفات سے رات یا دن کے وقت نکل چکا ہے تو اس کا حج مکمل ہے اور وہ مناسک حج ادا کرچکا ہے۔ امام شعبی نے فرمایا : جو مزدلفہ میں نہیں ٹھہرا وہ اس احرام کو عمرہ کا احرام بنادے اور جس نے جمہور کے لئے حجت پکڑی اس نے یہ جواب دیا کہ آیت میں وقوف کے وجوب اور رات گزارنے پر کوئی حجت نہیں ہے کیونکہ آیت میں یہ مذکور نہیں ہے آیت میں صرف اس کا ذکر ہے اور علماء کا اجماع ہے کہ جب سورج دسویں کے دن طلوع ہوجاتا ہے تو مزدلفہ میں وقوف کا وقت فرت ہوجاتا ہے اور جو سورج کے طلوع ہونے سے پہلے وقوف کو پالیتا ہے تو وہ وقوف کو پالیتا ہے یہ اجماع ان لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ یہ فرض ہے اور جو کہتے ہیں کہ یہ سنت ہے اور رہی حضرت عروہ بن مضرس کی حدیث اس کے بعض طرق میں عرفہ میں وقوف کا بیان ہے مزدلفہ میں رات گزارنے کا بیان نہیں ہے۔ اس کی مثل حضرت عبدالرحمٰن بن یعمر الدیلی کی حدیث ہے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفہ میں حاضر تھا۔ اہل نجد میں سے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے انہوں نے حج کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حج عرفہ (میں وقوف ہے) جو اسے مزدلفہ کی رات سے فجر طلوع ہونے سے پہلے پالے تو اس کا حج مکمل ہوا۔ اس حدیث کو نسائی نے روایت کیا ہے۔ فرمایا : ہمیں اسحاق بن ابرہیم نے بتایا فرمایا : ہمیں وکیع نے بتایا فرمایا : ہمیں سفیان ثوری نے بتایا انہوں نے بکیر سے انہوں نے عطا سے انہوں نے عبدالرحمن بن یعمر الدیلی سے روایت کیا، فرمایا : میں حاضر تھا، پھر انہوں نے مذکورہ حدیث ذکر کی۔ اس کو ابن عیینہ نے بکیر سے انہوں نے عبدالرحمٰن بن یعمرالدیلی سے، کہا میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : حج عرفات ہے جس نے فجر کے طلوع ہونے سے پہلے وقوف کو پالیا اس نے حج کو پالیا اور منیٰ کے دن تین ہیں جس نے دو دنوں میں جلدی کی اس پر کوئی گناہ نہیں اور جس نے تاخیر کی اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اور عروہ کی حدیث میں ہے ” جس نے ہماری اس نماز جیسی نماز پڑھی “۔ آپ نے مزدلفہ میں نماز فوت ہوجائے تو اس کا حج مکمل ہے۔ جب امام کے ساتھ نماز میں حاضر ہونا حج کی اصل میں سے نہیں ہے تو اس جگہ کا وقوف جس میں نماز ہوتی ہے وہ بدرجہ حج کی اصل میں سے نہیں ہوگا۔ علماء نے فرمایا : اس حدیث کی وجہ سے یہ فرض متحقق نہیں ہوتا مگر خاص عرفہ میں۔ مسئلہ نمبر 18: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذکروہ کما ھدٰئکم تاکید کے لئے امر کو دربارہ ذکر کیا جیسے تو کہتا ہے ارم ارم (تیر مار، تیرمار) بعض علماء نے فرمایا : پہلا حکم مشعر حرام کے پاس ذکر کرنے کا حکم ہے اور دوسرا ذکرکا حکم اخلاص کے حکم پر ذکر کا حکم ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : دوسرے سے مراد نعمت کا شمار کرنا ہے اور اس کے شکر کا حکم ہے پھر انہیں ان کی گمراہی کی حالت یا دلائی تاکہ انعام کی قدد ظاہر ہو۔ فرمایا : وان کنتم من قبلهٖ لمن الضآلین، کما میں کاف مصدر محذوف کی صفت ہے اور ما مصدریہ یا کافہ ہے۔ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عمدہ ذکر کرو جس طرح اس نے تمہیں عمدہ ہدایت دی اور اسے یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا کہ تم کیسے اس کا ذکر کرو، اس سے عدول نہ کرو۔ ان مخففہ من ثقیلہ ہے۔ اس کی دلیل خبر پر لام کا دخول ہے۔ یہ سیبویہ کا قول ہے۔ فراء نے کہا : ان نافیہ بمعنی ما ہے اور لام بمعنی الا ہے۔ جیسے شاعر نے کہا : ثکلتک امک ان قتلت لمسلما حلت علیک عقوبة الرحمن تیری ماں تجھ پر روئے تو قتل نہیں کرے گا مگر کسی مسلمان کو تو تجھ پر رحمن کی سزا ہوگی۔ یا ان بمعنی قد ہے یعنی قد کنتم۔ یہ تین اقوال ہیں۔ قبلهٖ میں ضمیر ھدیٰ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ بعض نے فرمایا : قرآن کی طرف لوٹ رہی ہے یعنی تم قرآن کے انزال سے پہلے نہیں تھے مگر گمراہ۔ اگر تو چاہے تو اس کو نبی کریم ﷺ کی طرف لوٹا دے اگرچہ پہلے آپ کا ذکر نہیں ہے۔ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے۔ واللہ اعلم۔
Top