Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 197
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ١ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ
اَلْحَجُّ
: حج
اَشْهُرٌ
: مہینے
مَّعْلُوْمٰتٌ
: معلوم (مقرر)
فَمَنْ
: پس جس نے
فَرَضَ
: لازم کرلیا
فِيْهِنَّ
: ان میں
الْحَجَّ
: حج
فَلَا
: تو نہ
رَفَثَ
: بےپردہ ہو
وَلَا فُسُوْقَ
: اور نہ گالی دے
وَلَا
: اور نہ
جِدَالَ
: جھگڑا
فِي الْحَجِّ
: حج میں
وَمَا
: اور جو
تَفْعَلُوْا
: تم کروگے
مِنْ خَيْرٍ
: نیکی سے
يَّعْلَمْهُ
: اسے جانتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
وَتَزَوَّدُوْا
: اور تم زاد راہ لے لیا کرو
فَاِنَّ
: پس بیشک
خَيْرَ
: بہتر
الزَّادِ
: زاد راہ
التَّقْوٰى
: تقوی
وَاتَّقُوْنِ
: اور مجھ سے ڈرو
يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ
: اے عقل والو
حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے تو حج (کے دنوں) میں نہ تو عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑے اور نیک کام جو تم کرو گے وہ خدا کو معلوم ہوجائے گا اور زاد راہ (یعنی راستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زادِراہ (کا) پرہیزگاری ہے اور (اے) اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو
پچھلی آیت کی بقیہ تفسیر مسئلہ نمبر
3
: علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تمتع جائز ہے جیسا کہ تفصل آگے آئے گی اور حج افراد جائز ہے اور حج قرآن بھی جائز ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے تمام صورتوں کو پسند فرمایا اور کسی صحابی کے حج کی کون سی صورت کا احرام باندھا تھا اور حج کی ان صورتوں میں افضل صورت کیا ہے ؟ کیونکہ اس کے متعلق وارد احادیث مختلف ہیں، بعض علماء نے فرمایا : جن میں سے امام مالک بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج مفرد کیا تھا اور حج افراد، حج قرآن سے افضل ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے، فرمایا : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جو تم میں سے حج اور عمرہ کا احرام باندھنا ہے وہ ایسا کرے اور جو صرف حج کا احرام باندھنا چاہے وہ حج کا احرام باندھنا چاہے وہ حج کا احرام باندھ لے اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ عمر کا احرام باندھ لے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے حج کا احرام باندھا اور آپ کے ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی احرام باندھا، اور بعض لوگوں نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا، بعض نے صرف عمرہ کا احرام باندھا اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ اس حدیث کو ایک جماعت نے ہشام بن عروہ عن ابیه عن عائشہ ؓ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے۔ بعض نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے حج کا احرام باندھا ہے۔ یہ اختلاف کے مقام پر نص ہے یہ ان علماء کی حجت ہے جنہوں نے حج افراد کا قول کیا اور اس کو افضل فرمایا، امام محمد بن حسن نے امام مالک سے روایت کیا ہے، فرمایا : جب نبی کریم ﷺ سے دو مختلف احادیث مروی ہوں اور ہمیں خبر پہنچے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے ان میں سے ایک حدیث پر عمل کیا اور دوسری کو ترک کیا تو اس میں دلالت ہے کہ حق وہ ہے جس پر ان دونوں نے عمل کیا۔ اور ابو ثور نے افراد کو پسند کیا اور اسے حج تمتع اور حج قرآن پر فضیلت دی۔ یہ امام شافعی کا مشہور قول ہے اور دوسرے علماء نے حج تمتع افضل ہے یہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر کا مذہب ہے اور یہی امام احمد کا قول ہے۔ یہ امام شافعی کا قول ہے دار قطنی نے کہا : امام شافعی نے کہا : میں نے افراد کو پسند کیا۔ تمتع بھی اچھا ہے ہم اسے ناپسند نہیں کرتے اور جنہوں نے حج تمتع کو فضلیت دی انہوں نے مسلم کی حضرت عمران بن حصین سے مروی حدیث سے حجت پکڑی ہے۔ انہوں نے فرمایا : تمتع کی آیت کتاب اللہ میں نازل ہوئی (یعنی حج تمتع کے بارے میں آیت) ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اس کا حکم دیا پھر کوئی آیت نازل نہ ہوئی جس نے متعۃ الحج کی آیت کو منسوخ کردیا ہو اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع نہیں فرمایا حتیٰ کہ آپ کا وصال ہوگیا۔ پھر ایک شخص نے اپنی رائے سے کہا جو کہا۔ ترمذی نے روایت کیا ہے کہ ہمیں قتیبہ بن سعید نے بتایا انہوں نے مالک بن انس سے انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے سعید بن ابی وقاص، ضحاک بن قیس سے معاویہ بن ابی سفیان کے حج کرنے کے سال سنا ان دونوں نے حج تمتع کا ذکر کیا۔ ضحاک بن قیس نے کہا : حج تمتع نہیں کرے گا مگر وہ جو اللہ کے حکم سے جاہل ہوگا۔ سعد نے کہا : اے میرے بھتیجے ! تو نے میری بات کی۔ ضحاک نے کہا : حضرت عمر بن حطاب اس سے منع کرتے ہیں۔ حضرت سعد نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے حج تمتع کیا تھا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ حج تمتع کیا تھا، یہ حدیث صحیح ہے۔ ابن اسحاق نے زہری اور انہوں نے سالم سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں حضرت ابن عمر کے ساتھ مسجد میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک شامی شخص آپ کے پاس آیا اس نے حج تمتع کے بارے میں پوچھا۔ حضرت ابن عمر نے کہا : خوبصورت عمل ہے۔ اس شخص نے کہا : تمہارا باپ اس سے منع کرتا ہے۔ حضرت ابن عمر نے کہا : تجھ پر افسوس میرا باپ اس سے اگر منع کرتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے حج تمتع کیا تھا اور اس کا حکم بھی فرمایا تھا۔ میں اپنے باپ کے قول پر عمل کروں یا رسول اللہ ﷺ کے حکم پر عمل کروں ؟ تو مجھ سے اٹھ جا۔ اس روایت کو دراقطنی نے نقل کیا ہے۔ یہ حدیث ابو عیسیٰ ترمذی نے صالح بن کیسان عن شھاب عن سالم کے سلسلہ سے نقل کی ہے۔ لیث عن طاؤس ابن عباس کے سلسلہ سے روایت کی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر، حضرت عثمان نے حج تمتع کیا تھا سب سے پہلے حج تمتع سے حضرت معاویہ نے منع کیا تھا۔ یہ حدیث حسن ہے۔ ابوعمر نے کہا : لبث بن ابی سلیم ضعیف ہے۔ حضرت عمر اور حضرت عثان سے مشہور ہے کہ وہ دونوں حج تمتع سے منع کرتے تھے اگرچہ اہل علم کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ وہ تمتع جس سے حضرت عمر نے منع کیا تھا اور جس پر مارا تھا وہ حج کو فسخ کرکے عمرہ کرنا ہے۔ رہا پہلے عمرہ کرنا اور پھر حج کرنا اس سے حضرت عمر منع نہیں کرتے تھے اور جنہوں نے حضرت عمر کے حج تمتع سے منع کرنے کو صحیح کہا ہے ان کا خیال ہے کہ آپ حج تمتع سے اس لئے منع فرماتے تھے تاکہ بیت اللہ میں لوگ سال میں دو یا زیادہ مرتبہ آئیں تاکہ موسم حج کے علاوہ بھی زائرین کی اس میں کثرت رہے۔ آپ نے اہل حرم پر رفق و مہربانی داخل کرنے کا ارادہ کیا تھا تاکہ حضرت ابراہیم کی دعا ثابت ہوجائے فاجعل افئدۃ من الناس تھویٓ الیھم۔ (ابراہیم :
37
) دوسرے کئی علماء نے فرمایا : حضرت عمر نے حج تمتع سے اس منع فرمایا تھا کیونکہ آپ نے دیکھا کہ لوگ آسانی اور رخصت کی وجہ سے حج تمتع کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ پس آپ کو حج افراد اور حج قرآن کے ضیاع کا اندیشہ ہوا جبکہ وہ دونوں حج کی وجہ سے حج تمتع کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ پس آپ کو حج افراد اور حج قرآن کے ضیاع کا اندیشہ ہوا جبکہ دو دونوں حج بھی نبی کریم ﷺ کی سنت ہیں۔ امام احمد نے حج تمتع کے اختیار پر نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے حجت پکڑی ہے ” اگر مجھے اپنے معاملہ کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں ہدی ساتھ نہ لے آتا اور حج کے احرام کو عمرہ بنا دیتا۔ اس حدیث کو ائمہ نے نقل کیا ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : حج قرآن افضل ہے، ان میں امام ابوحنیفہ اور ثوری ہیں۔ یہی قول مزنی کا ہے۔ انہوں نے فرمایا : کیونکہ اس میں انسان دو فرض اکٹھے ادا کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ اسحاق کا قول ہے، اسحاق نے کہا : رسول اللہ ﷺ حج قرآن کرنے والے تھے۔ یہ حضرت علی بن ابی طالب کا قول بھی ہے اور حضرت علی نے حج قرآن کو پسند کیا ہے اور اس کو فضیلت دی ہے۔ انہوں نے اس روایت سے حجت پکڑی ہے جو بخاری نے حضرت عمر ؓ سے روایت کی ہے، فرمایا : میں نے وادی عقیق میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ” اس رات میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اس نے کہا : اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور حج وعمرہ کرو۔ “ ترمذی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے : لبیک بعمرۃ وحجة۔ یعنی آپ نے عمرہ اور حج کی نیت سے تلبیہ کہا۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ ابوعمر نے کہا : انشاء اللہ حج افراد افضل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ حج مفرد کرنے والے تھے۔ اسی وجہ سے ہم نے کہا : حج افراد افضل ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کے حج افراد کے متعلق ہوتا ہے۔ ابو جعفر نحاس نے کہا : حج افراد کرنے والے کو متمع سے زیادہ تھکاوٹ ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے احرام پر باتی رہتا ہے۔ اس لئے اس میں ثواب زیادہ ہے اور احادیث کے اتفاق کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حج تمتع اور قرآن کا حکم دیا تو یہ کہنا جائز ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج تمتع اور قران کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : نادٰی فرعون فی قومهٖ (زخرف :
51
) ۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا : ہم نے رجم کیا اور رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا حالانکہ آپ ﷺ نے رجم کا حکم فرمایا تھا میں کہتا ہوں : آپ ﷺ کے حج میں ظاہر حج قرآن ہے آپ قرآن کرنے والے تھے اس کی وجہ حضرت عمر اور حضرت انس کی مذکررہ احادیث ہیں اور صحیح مسلم میں بکر سے انہوں نے حضرت انس سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو حج اور عمرہ کا اکٹھا تلبیہ کہتے ہوئے سنا۔ بکر نے کہا میں نے انہیں حضرت ابن عمر کا قول بیان کیا۔ حضرت انس نے کہا : تم ہمیں شمار نہیں کرتے مگر بچے ! نبی کریم ﷺ نے عمرہ کا احرام باندھا اور صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا اور نبی کریم ﷺ نے احرام نہ کھولا اور ان صحابہ نے بھی احرام نہ کھولا جنہوں نے یدی ساتھ لائی تھئ اور باقی لوگوں نے احرام کھول دیا تھا۔ بعض اہل علم نے کہا : رسول اللہ ﷺ حج قران کرنے والے تھے۔۔ جب آپ قران کرنے والے تھے تو آپ نے حج اور عمرہ کیا تھا۔ اس طرح احادیث متفق ہوگئیں۔ نحاس نے کہا : سب سے بہتر وہ ہے جو کہا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ جس نے آپ کو دیکھا اس نے کہا : آپ نے عمرہ کیا پھر حج کا احرام باندھا، بعض نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے افراد کیا پھر کہا : لبیک بحجة وعمرۃ جس نے آپ سے یہ سنا اس نے کہا : آپ نے قران کیا۔ پس احادیث متفق ہوگئیں اور اس پر دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ سے کسی نے یہ روایت نہیں کیا کہ آپ نے فرمایا ہو میں نے حج مفرد کیا اور تمتع نہیں کیا اور آپ سے یہ صحیح مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : میں نے حج قران کیا۔ جیسا کہ نسائی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھ سے پوچھا تو نے کیسا احرام باندھا ؟ میں نے عرض کی : میں نے آپ کے احرام جیسا باندھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں ہدی ساتھ لایا ہوں اور حج قران کا احرام باندھا ہے۔ حضرت علی نے فرمایا اور آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا : اگر مجھے اپنے معاملہ کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں بھی ایسا کرتا جیسا تم نے کیا ہے لیکن میں ہدی ساتھ لایا ہوں اور میں نے حج قران کا احرام باندھا ہے۔ حضرت حفصہ ؓ سے ثابت ہے، فرمایا : میں نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ لوگوں کو کیا ہے کہ انہوں نے اپنے عمرہ کا احرام کھول دیا ہے اور آپ نے احرام نہیں کھولا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے اپنے سر پر گوند لگائی ہوئی ہے اور میں ہدی ساتھ لایا ہوں میں احرام نہیں کھولوں گا حتیٰ کہ میں قربانی کرلوں گا۔ یہ حدیث بیان کرتی ہے کہ آپ ﷺ حج قران کرنے والے تھے، اگر آپ حج تمتع یا حج مفرد کرنے والے ہوتے تو آپ ہدی کے نحر کی وجہ سے نہ روکتے۔ میں کہتا ہوں : نحاس نے جو یہ کہا ہے کہ کسی سے یہ مروی نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہو کہ میں نے حج افراد کیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت گزرچکی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : میں حج کا احرام باندھتا ہوں اور مسلم کی حضرت ابن عمر سے روایت ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے عمرہ کیا پھر حج کا احرام باندھا تو میں حج کا احرام باندھتا ہوں کے ارشاد میں حج مفرد پر دلیل باقی نہ رہی اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد کہ میں نے حج قران کیا باقی رہا اور حضرت انس جو آپ ﷺ کے خادم تھے فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو لبیک بحجة وعمرۃ معا کہتے ہوئے سنا۔ یہ جملہ حق قران پر نص صریح ہے کسی تاویل کا احتمال نہیں رکھتا۔ دراقطنی نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے حج اور عمرہ کو جمع کیا کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ اس کے بعد آپ دوبارہ حج کرنے والے نہیں۔ مسئلہ نمبر
4
: جب حج مفرد، تمتع اور قران کے بارے قول گزرچکا ہے کہ یہ سب بالا جماع جائز ہیں اور حج تمتع کی علماء کے نزدیک چار صورتیں ہیں : ایک صورت ایسی ہے جس پر اجماع ہے اور تین صورتیں مختلف فیہا ہیں۔ رہی وہ صورت جو مجتمع علیہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی۔ یعنی انسان حج کے مہنیوں میں میں عمرہ احرام باندھے۔ اس کا بیان آگے آئے گا اور وہ شخص آفاق ہو، مکہ مکرمہ میں آیا ہو، عمرہ سے فارغ ہوگیا ہو پھر مکہ میں اسی حج شروع کرنے تک بغیر احرام کے رہا ہو، اپنے گھر کی طرف واپس نہ گیا ہو یا باہر سے آنے والوں کے میقات کی طرف جانے سے پہلے اسی کیفیت میں رہا ہو۔ جب وہ اس طرح کرے گا تو وہ متمتع ہوگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وہ واجب کیا ہے جو متمتع پر واجب کیا ہے اور یہ میسر ہدی ہے۔ وہ اس ہدی کو ذبح کرے گا اور منیٰ یا مکہ کے مساکین کو کھلائے گا۔ اگر ہدی نہ پائے تو تین روزے رکھے گا اور سات روزے اپنے شہرواپس آکر رکھے گا۔ جیسا کہ آگے آئے گا اور مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس پر دسویں کا روزہ نہیں ہے اور ایام تشریق کے روزوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ اس حج تمتع پر علماء متقدمین ومتأخرین کا اجماع ہے۔ اس کی آٹھ شروط ہیں : (
1
) حج وعمرہ کا جمع کرنا (
2
) ایک سفر میں ہونا (
3
) ایک سال میں ہونا (
4
) حج کے مہینوں میں ہونا (
5
) عمرہ کا پہلے کرنا (
6
) دونوں کو یہ ملانا بلکہ عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد حج کا احرام باندھنا (
7
) عمرہ اور حج ایک شخص کی طرف سے ہونا (
8
) اہل مکہ کے علاوہ سے ہونا۔ ان شروط میں غور کر جو ہم نے تمتع کے حکم میں بیان کی ہیں تو ان کو پالے گا۔ دوسری وجہ حج قران ہے وہ یہ ہے کہ ایک احرام میں حج اور عمرہ کو جمع کرنا، وہ دونوں کا اکٹھا احرام حج کے مہینے میں باندھے یا کسی اور مہینے میں باندھے اور وہ کہے : لبیک بحجة وعمرۃ معا (میں نے حج وعمرہ کا اکٹھا احرام باندھا) جب مکہ شریف میں آئے تو حج وعمرہ کے لئے ایک طواف کرے اور ایک سعی کرے۔ یہ امام مالک، امام شافعی، ان کے اصحاب، اسحاق اور ابو ثور کی رائے ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ھابر بن عبداللہ، حضرت عطا بن ابی رباح، حسن، مجاہد اور طاؤس کا مذہب ہے۔ کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ہے، فرمایا : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع کے لئے نکلے ہم نے عمرہ کا احرام باندھا۔۔۔ الحدیث اس حدیث میں ہے جنہوں نے حج وعمرہ کو جمع کیا تھا، انہوں نے ایک طواف کیا تھا۔ یہ حدیث بخاری نے نقل کی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے منیٰ سے جانے کے دن فرمایا جبکہ حضرت عائشہ نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا کیونکہ آپ کو حیض آگیا تھا : تیرا طواف تیرے حج اور عمرہ کی طرف سے ہوگا۔ ایک روایت میں : تیرا صفا ومروہ کا اطواف تیرے حج اور عمرہ کی طرف سے ہوگا۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے یا مکہ پہنچ کر دو طواف اور دو سعی کرے۔ یہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب م ثوری، اوزاعی، حسن بن صالح اور ابن ابی لیلیٰ کا نظریہ ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی احادیث سے حجت پکڑی ہے کہ انہوں نے حج اور عمرہ کو جمع کیا اور دونوں کے لئے دو طواف اور دو سعی کیں پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کرتے دیکھا ہے۔ دارقطنی نے اپنی سنن میں یہ احادیث روایت کی ہیں اور تمام کو ضعیف قرار دیا ہے اور حج قران کو تمتع کے باب سے بتایا ہے کیونکہ قارن ایک مرتبہ عمرہ اور ایک حج کے سفر کی مشقت کو ترک کرنے کے ساتھ متمتع ہوتا ہے اور دونوں سے اکٹھا متمتع ہوتا ہے اور ہر ایک کے لئے میقات سے علیحدہ احرام نہیں باندھتا اور حج کو عمرہ کے ساتھ ملاتا ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت داخل ہے : فمن تمتع بالعمرۃ بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی۔ یہ تمتع کی ایک صورت ہے اس کے جواز میں عماء کا کوئی اختلاف نہیں اور اہل مدینہ حج اور عمرہ جمع کرنے کی اجازت صرف اس صورت میں دیتے ہیں جبکہ حاجی ہدی ساتھ لایا ہو۔ اور ان کے نزدیک اس صورت میں اونٹ دینا ہوگا اس سے کم نہیں۔ قران کے تمتع ہونے پر دلیل حضرت ابن عمر کا قول ہے۔ قران کو انہوں نے اہل آفاق کے لئے بنایا ہے اور پھر یہ آیت پڑھی۔ ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام پس جو مسجد حرام والوں سے ہو اور وہ حج تمتع یا حج قران کرے تو اس پر قران اور تمتع کا دم (بکری) نہیں ہے۔ امام مالک نے فرمایا : میں نے نہیں سنا کہ کسی مکی نے حج قران کیا ہو اگر وہ کرے گا تو اس پر نہ ہدی ہے اور نہ روزہ ہے اور امام مالک کے قول پر جمہور فقہاء کا نظریہ ہے۔ عبد الملک بن ماجشون نے کہا : جب مکی حج، عمرہ کے ساتھ کرے گا تو اس پر قران کا دم (بکری) ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ سے خون اور روزہ کو تمتع میں ساقط کیا ہے۔ تیسری وجہ تمتع کی یہ ہے جس پر حضرت عمر نے دھمکی دی تھی۔ آپ نے فرمایا : دو متعے ایسے ہیں جو رسالت مآب ﷺ کے عہد مبارک میں تھے اور میں ان سے منع کرتا ہوں اور ان پر سزا دیتا ہوں۔ ایک عورتوں کا متعہ اور دوسرا متعۃ الحج۔ اس کے جواز میں علماء کا ابھی تک جھگڑا ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ آدمی حج کا احرام باندھے حتیٰ کہ جب مکہ میں داخل ہو تو حج کے احرام کو عمرہ میں تبدیل کر دے۔ پھر احرام کھول دے پھر بغیر احرام کے ٹھہرا رہے حتیٰ کہ آٹھویں کے دن حج کا احرام باندھے۔ یہ وہ وجہ ہے جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے آثار وارد ہیں۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حج میں صحابہ کرام کو حکم دیا کہ جس کے پاس ہدی نہیں ہے اور وہ ہدی ساتھ نہیں لایا ہے اور وہ حج کا احرام باندھ چکا تھا تو وہ اسے عمرہ کا احرام باندھے اور ان آثار کی تصحیح پر بھی علماء کا اجماع ہے۔ ان میں سے کسی اثر کو نہیں چھوڑا ہے لیکن اس کے متعلق قول اور علل کی وجہ سے عمل میں اختلاف ہے۔ جمہور علماء نے اس پر عمل ترک کیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اور آپ کے صحابہ کے ساتھ خاص تھا اور اسی حج کے متعلق تھا۔ حضرت ابو ذر نے کہا : حج میں تمتع ہمارے لئے خاص تھا۔ یہ مسلم نے نقل کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے۔ حضرت ابوذر نے کہا : دو متعے صرف ہمارے ساتھ خاص تھے۔ عورتوں کے ساتھ متعہ اور متعۃ الحج۔ خصوصیت کی علت اور اس میں فائدہ وہ ہے جو حضرت ابن عباس نے بیان فرمایا ہے لوگ یہ نظریہ رکھتے تھے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین پر بہت بڑا گناہ ہے اور وہ خود محرم کو صفر بنا دیتے تھے اور وہ کہتے تھے جب اونٹ کا زخم ٹھیک ہوجائے گا، اثر مٹ جائے گا اور صفر کا مہینہ گزر جائے گا تو عمرہ کرنے والے کے لئے عمرہ حلال ہوگا۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب چار ذی الحجہ کو حج کو احرام باندھے ہوئے۔ آپ ﷺ کے حج کو عمرہ بنانے کا حکم دیا۔ یہ حکم صحابہ کو بڑا عظیم لگا۔ انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! یہ احرام کھولنا کیسا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر پابندی سے حلالی ہوگئے ہو۔ یہ حدیث مسلم نے نقل فرمائی ہے۔ مسند صحیح ابو حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے فرمایا : اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ کو ذی الحجہ میں اس لئے عمرہ کرایا تھا کہ اہل شرک کے نظریہ کا قلع قمع ہوجائے۔ قبیلہ قریش اور جو ان کے دین کے پیروکار تھے وہ کہتے تھے : جب اونٹ سے اثر ختم ہوجائے گا اور اس کا زخم ٹھیک ہوجائے گا اور صفر کا مہینہ گزر جائے گا تو عمرہ کرنے والے کے لئے عمرہ حلال ہوجائے گا، وہ عمرہ کرنا حرام سمجھتے تھے حتیٰ کہ ذوالحجہ گزر جائے۔ حضرت عائشہ کو آپ ﷺ نے ان کے نظریہ کو غلط ثابت کرنے کے لئے عمرہ کرایا تھا۔ اس میں دلیل ہے کہ رسول اللہ نے حج کو عمرہ میں اس لئے تبدیل کیا تھا تاکہ آپ انہیں دکھائیں کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ آپ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ خاص تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو حج اور عمرہ مکمل کرنے کا حکم مطلق دیا جو بھی ان میں داخل ہو اور ظاہر کتاب اللہ کی مخالفت کرنا ثابت نہیں مگر ناسخ کتاب یا سنت مبینہ کی طرف رجوع ضروری ہے جس میں کوئی اشکال نہ ہو۔ اور ان علماء نے حضرت ابوذر کے قول اور حضرت حارث بن بلال کی حدیث سے حجت پکڑی ہے۔ حارث اپنے باپ سے روایت فرماتے ہیں، انہوں نے فرمایا : ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ! حج کا نسخ کرنا ہمارے ساتھ خاص ہے یا تمام لوگوں کے لئے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہمارے ساتھ خاص ہے۔ اور ققہء حجاز، عراق اور شام کا یہ نظریہ ہے مگر ایک چیز حضرت ابن عباس، حسن اور سدی سے مروی ہے اور امام احمد کا بھی یہی قول ہے۔ امام احمد نے فرمایا : میں ان صحیح متواتر آثار کو جو حج کو عمرہ میں فسخ کرنے کے متعلق وارد ہیں حضرت حارث بن بلال عن ابیہ کی حدیث سے اور حضرت ابو ذر کے قول سے رد نہیں کرتا۔ امام احمد نے فرمایا : جو حضرت ابو ذر نے کہا ہے اس پر اجماع نہیں ہے اگر اجماع ہوتا تو حجت ہوتا۔ فرمایا : حضرت ابن عباس نے حضرت ابو ذر کی مخالفت کی ہے اور اس کو حصوصیت نہیں بنایا ہے۔ امام احمد نے حضرت جابر کی صحیح حدیث سے حجت پکڑی ہے جو حج کے بارے میں ہے۔ اس میں ہے : نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے اپنے معاملہ کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا اور اسے عمرہ بناتا۔ حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم اٹھے اور عرض کی : یا رسول اللہ ! یہ ہمارے اس سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا اور فرمایا : عمرہ حج میں داخل ہوا۔ یہ دو مرتبہ فرمایا : نہیں بلکہ یہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ یہ مسلم کے لفظ ہیں اور امام بخاری کا میلان بھی اسی طرف ہے کیونکہ انہوں نے یہ باب باندھا ہے، جس نے حج کا تلبیہ کہا اور اس کا نام لیا۔ پھر حضرت جابر کی حدیث ذکر کی، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آئے اور ہم نے حج کا احرام باندھا ہوا تھا ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حج کے احرام کو عمرہ کا احرام بنانے کا حکم دیا۔ بعض علماء نے فرمایا : احرام کھولنے کا نبی کریم ﷺ نے جو حکم دیا تھا وہ دوسری وجہ سے تھا۔ مجاہد نے وہ وجہ ذکر کی ہے وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے پہلے حج کو فرض نہیں کیا تھا بلکہ آپ ﷺ نے انہیں مطلقاً احرام باندھنے اور نئے حکم کا انتظار کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح حضرت علی ؓ نے یمن سے مطلق احرام باندھا تھا۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کا احرام تھا اور اس پر دلیل یہ ارشاد ہے اگر مجھے اپنے معاملہ کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا اور اس احرام کو عمرہ کا احرام بنا دیتا۔ گویا آپ حکم کے منتظر ہو کر نکلے تھے اور صحابہ کو بھی اسی کا حکم دیا تھا۔ اس پر دلیل نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے :” میرے پاس میرے رب کی طرف سے آنے والا اس مبارک وادی میں آیا اور کہا : تم کہو میں حج کو عمرہ میں بدلتا ہوں “۔ متعہ کی چوتھی وجہ محصر اور جس کو بیت اللہ سے روکا گیا ہو اس کا متعہ ہے۔ یعقوب بن شیبہ نے ذکر کیا ہے، فرمایا : ہمیں ابو سلمہ تبوذ کی نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں وہب نے بتایا انہوں نے کہا : ہمیں اسحاق بن سوید نے بتایا فرمایا : میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر کو یہ خطبہ دیتے ہوئے سنا : اے لوگو ! اللہ کی قسم ! حج تمتع اس طرح نہیں ہے جس طرح تم کرتے ہو تمتع یہ ہے کہ ایک شحص حج کے ارادہ سے نکلے پھر دشمن یا کوئی عذر اسے روک لے حتیٰ کہ ایام حج گزر جائیں پھر وہ بیت اللہ کے پاس آئے طواف کرے صفا ومروہ کی سعی کرے پھر آئندہ سال تک حلالی ہونے کے ساتھ متمتع ہو، پھر حج کرے اور ہدی دے۔ محصر کا حکم اور اس کے متعلق علماء کی آراء واضح طور پر گزر چکی ہیں۔ والحمدللہ۔ اور ان (حضرت عبداللہ بن زبیر) کے مذہب سے یہ تھا کہ محصر احرام نہ کھولے بلکہ وہ اپنے احرام پر باقی رہے حتیٰ کہ دسویں کے دن اس کی طرف سے ہدی ذبح کی جائے پھر وہ حلق کرائے اور اپنے احرام پر باقی رہے حتیٰ کہ وہ مکہ میں آئے پھر عمرہ کے عمل سے اپنے حج سے حلالی ہو۔ اور حضرت ابن زبیرنے جو کچھ ذکر کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے عموم کے خلاف ہے۔ : فان احصرتم فما استیسر من الھدی۔ اس کے بعد فرمایا واتمو الحج والعمرۃ للہ (اللہ کے لئے حج اور عمرہ مکمل کرو) احصار کے حکم میں حج اور عمرہ کے درمیان کوئی فرق بیان نہیں کیا اور نبی کریم ﷺ اور ان کے صحابہ جب حدیبیہ میں روکے گئے تو صحابہ نے احرام کھولا اور نبی کریم ﷺ نے بھی احرام کھولا اور صحابہ کرام کو احرام کھولنے کا حکم دیا۔ علماء کا اختلاف ہے کہ متمتع کو متمتع کیوں کہا جاتا ہے۔ ابن قاسم نے کہا : کیونکہ وہ ہر اس چیز سے متمتع ہوتا ہے جس کا کرتا محرم کے لئے عمرہ سے حلالی ہونے کے وقت سے حج شروع کرنے کے وقت تک جائز نہیں ہوتا۔ دوسرے علماء نے کہا : اس کو متمتع کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دو سفروں میں سے ایک کے ساقط کرنے کے ساتھ متمتع ہوا کیونکہ عمرہ کا حق ہے کہ تو اس کے لئے سفر کا قصد کرے اور حج کے لئے بھی اسی طرح حق ہے جب ایک کے ساقط کرنے کے ساتھ متمتع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ہدی کو لازم کیا جیسے قارن پر لازم کیا جس نے ایک سفر میں حج اور عمرہ کو جمع کیا۔ پہلی وجہ اعم ہے کیونکہ وہ ہر اس چیز سے متمتع ہوتا ہے جو حلال کے لئے کرنا جائز ہوتا ہے اور اس سے اپنے شہر سے حج کرنے کے لئے سفر ساقط ہوتا ہے جو حلالی کے لئے کرنا جائز ہوتا ہے اور اس سے اپنے شہر سے حج کرنے کے لئے سفر ساقط ہوا اور میقات سے حج کا احرام باندھنا بھی ساقط ہوا۔ اس وجہ سے حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود نے حج تمتع کو ناپسند کیا۔ ان دونوں حضرات نے یا ان میں سے ایک نے فرمایا : تم میں سے کوئی منیٰ میں آئے گا جبکہ اس کے ذکر سے منی کے قطرے گر رہے ہوں گے جبکہ حج تمتع پر مسلمان کا اجماع ہے۔ علماء کی ایک جماعت نے کہا : حضرت عمر نے اس کو ناپسند کیا کیونکہ ہو پسند کرتے تھے کہ بیت اللہ کی سال میں دو مرتبہ زیارت کی جائے۔ ایک دفعہ حج کے لئے ایک دفعہ عمرہ کے لئے۔ حضرت عمر حج مفرد کو افضل سمجھتے تھے اور وہ حج مفرد کا حکم دیتے تھے، اس کی طرف ان کا میلان تھا اور استحباب کے طور پر حج تمتع اور قران سے منع کرتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے کہا : اپنے حج اور اپنے عمرہ کو علیحدہ علیحدہ کرو۔ یہی تمہارے لئے حج کا اتمام ہے۔ حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کا احرام باندھنا، عمرہ کا اتمام ہے۔ مسئلہ نمبر
5
: جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرے پھر اپنے شہر کو واپس آجائے اور پھر اسی سال حج کرے، اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ وہ متمتع نہیں ہے اس پر نہ ہدی ہے اور نہ روزہ ہے۔ حسن بصری نے کہا : وہ متمتع ہے اگرچہ وہ گھر کی طرف لوٹ بھی آئے خواہ اس نے حج کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ انہوں نے فرمایا : کیونکہ کہا جاتا ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ متعہ ہے۔ یہ ہشیم نے یونس سے انہوں نے حسن سے روایت کیا ہے۔ یونس نے حسن سے روایت کیا ہے کہ اس پر ہدی نہیں ہے، پہلا قول صحیح ہے اسی طرح ابو عمر نے ذکر کیا ہے، اس نے حج کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اس کو ابن منذر نے ذکر نہیں کیا۔ ابن منذر نے کہا : ان کی حجت کتاب اللہ کا ظاہر ہے ارشاد ہے : فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج۔ اس آیت میں کوئی استثناء نہیں ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹنے والا ہو یا نہ ہو۔ اگر یہ اللہ تعالیٰ کا مراد ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں یا اپنے رسول کی زبان پر بیان کردیتا۔ سعید بن مسیب سے حسن کے قول کی طرح مروی ہے۔ ابو عمر نے کہا : حسن سے اس مسئلہ میں ایسا قول مروی ہے جس کی متابعت نہیں کی گئی اور اہل علم میں سے کسی کا یہ نظریہ نہیں ہے۔ انہوں نے فرمایا : جس نے دسویں ذی الحجۃ کے دن کے بعد عمرہ کیا وہ متعہ ہے۔ طاؤس سے دو قول مروی ہیں، دونوں زیادہ شاذ قول ہیں۔ اس سے بھی جو ہم نے حسن سے ذکر کیا ہے، ایک یہ ہے کہ جس نے حج کے مہینوں کے علاوہ کسی مہینہ میں عمرہ کیا پھر وہ ٹھہرا رہا حتیٰ کہ حج کا وقت داخل ہوگیا، پھر اس نے اسی سال حج کیا تو وہ متمتع ہے۔ یہ طاؤس کے علاوہ کسی عالم نے نہیں کہا ہے اور فقہاء امصار میں سے کسی کا یہ نظریہ نہیں۔ یہ اس لئے کہ حج کے مہینے عمرہ کی نسبت حج کا زیادہ حق رکھتے ہیں کیونکہ عمرہ پورے سال میں سنت ہے اور حج کے لئے معلوم مہینے ہیں۔ جب کسی نے حج کے مہینوں میں عمرہ کیا تو اس نے ایسے وقت میں عمرہ کیا جس میں حج اولیٰ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول ﷺ کی زبان پر متمتع اور قران کرنے والے کے لئے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی رخصت دی ہے اور اس کے لئے جو عمرہ کو علیحدہ کرے۔ یہ اس کی طرف سے رحمت ہے اور اس میں میسر ہدی کو اس میں مقرر کیا ہے۔ دوسری وجہ وہ ہے جو مکی نے بیان کی ہے جو کسی شہر سے حج تمتع کرے اس پر ہدی ہے۔ یہ ظاہر قرآن کے مطابق نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام۔ تمتع علماء کے نزدیک ان شرائط کے ساتھ جائز ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
6
: علماء کا اجماع ہے کہ ایک ایسا شخص جو اہل مکہ سے نہ ہوا گر وہ حج کے مہینوں میں مکہ میں ٹھہرانے کے ارادہ سے عمرہ کرتے ہوئے آئے پھر اسی سال حج کرے تو وہ متمتع ہے۔ اس پر وہی کچھ ہے جو متمتع پر ہے اور مکی کے بارے میں اجماع ہے کہ وہ میقات کے پیچھے سے عمرہ کا احرام باندھتے ہوئے آئے پھر مکہ سے حج شروع کرے جبکہ اس کے گھر والے مکہ میں ہوں اور وہ مکہ کے علاوہ کسی جگہ نہ ٹھہرے تو اس پر بکری نہیں ہے۔ اسی طرح کا حکم ہے جب وہ مکہ کے علاوہ کسی جگہ ٹھہرے یا مکہ میں ٹھہرے جبکہ مکہ میں اس کے اہل ہوں اور مکہ کے علاوہ کسی شہر میں بھی اس کے اہل ہوں۔ علماء کا اجماع ہے کہ اگر وہ مکہ سے اپنے اہل کے ساتھ منتقل ہوگیا پھر وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرتے ہوئے آیا پھر مکہ میں ٹھہرارہا حتیٰ کہ اسی سال حج کیا تو وہ متمتع ہے۔ مسئلہ نمبر
7
: امام مالک، امام شافعی، امام ابو حنیفہ، ان کے اصحاب، ثوری اور ابو ثور کا اتفاق ہے۔ متمتع عمرہ کے لئے بیت اللہ کا طواف کرے گا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرے گا تو اس پر اس کے بعد حج کے لئے دوسرا طواف اور دوسری صفا ومروہ کے درمیان سعی ہوگی۔ عطا اور طاؤس سے مروی ہے کہ ایک سعی کافی ہے۔ پہلا قول مشہور ہے وہی جمہور کا نظریہ ہے اور قارن کے طواف کے متعلق اختلاف گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر
8
: اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو حج کے مہینوں کے علاوہ کسی مہینہ میں عمرہ شروع کرے پھر حج کے مہینوں میں عمرہ کا عمل کرے۔ امام مالک نے فرمایا : اس کا عمرہ اس مہینہ میں ہوا جس میں وہ حلالی ہوا تھا اگر وہ حج کے مہینوں کے علاوہ کسی مہینہ میں اس سے حلالی ہونا چاہتا ہے تو وہ متمتع نہیں ہے۔ اگر وہ حج کے مہینوں میں عمرہ سے حلالی ہوا ہے تو وہ متمتع ہے اگر اسی سال حج کرے۔ امام شافعی نے فرمایا : جب عمرہ کے لئے حرمت والے مہینوں میں بیت اللہ کا طواف کرے تو وہ متمتع ہے اگر اسی سال حج کرے کیونکہ عمرہ بیت اللہ کے طواف کے ساتھ مکمل ہوتا ہے اور اس کے کمال کی طرف دیکھا جاتا ہے یہ حسن بصری، حکم بن عیینہ، ابن شبرمہ اور سفیان ثوری کا قول ہے اور قتادہ، احمد اور اسحاق نے کہا : عمرہ اس مہینہ کے لئے ہے جس میں اس نے احرام باندھا۔ یہی معنی حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے۔ طاؤس نے کہا : اس کا عمرہ اس مہینہ کے لئے ہے جس میں وہ حرم میں داخل ہوا۔ اصحاب رائے کا قول ہے : اگر اس نے رمضان میں تین چکر لگائے اور چار چکر شوال میں لگائے پھر اسی سال حج کیا تو وہ متمتع ہے۔ اگر رمضان میں چار چکر لگائے اور شوال میں تین چکر لگائے تو وہ متمتع نہیں ہوگا۔ ابو ثور نے کہا : جب حج کے مہینوں کے علاوہ کسی مہینہ میں عمرہ میں داخل ہو تو برابر ہے اس نے رمضان میں طواف کیا ہو یا شوال میں طواف کیا ہو وہ اس عمرہ کی وجہ سے متمتع نہیں ہوگا۔ یہ امام احمد اور اسحاق کا قول ہے۔ اس کا عمرہ اس مہینہ کے لئے ہے جس میں اس نے احرام باندھا۔ مسئلہ نمبر
9
: اہل علم کا اجماع ہے کہ جس نے حج کے مہینوں میں عمرہ کا احرام باندھا اس پر حج کو داخل کرو یا جب تک کہ بیت اللہ کا طواف ابھی شروع نہیں کیا تھا تو وہ قارن شمار ہوگا۔ اس پر وہ لازم ہوگا جو اس قارن پر لازم ہوتا ہے جو حج اور عمرہ کی اکٹھی نیت کرتا ہے۔ اور عمرہ کا طواف شروع کرنے کے بعد عمرہ پر حج کو داخل کرنے میں اختلاف ہے۔ امام مالک نے فرمایا : اس پر یہ لازم ہے اور جب تک عمرہ کا طواف مکمل نہ کیا ہو وہ قارن شمار ہوگا۔ اس کی مثل امام ابوحنیفہ سے مروی ہے۔ اور امام ابوحنیفہ سے مشہور یہ ہے کہ اس کے لئے یہ جائز نہیں مگر طواف میں شروع ہونے سے پہلے نیت کرلے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کے لئے جائز ہے کہ وہ عمرہ پر حج کو داخل کرے جب تک طواف کی دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں۔ یہ تمام امام مالک اور ان کے اصحاب کے قول ہیں۔ جب عمرہ کرنے والے نے عمرہ کے طواف کا ایک چکر لگا لیا ہو پھر اس نے حج کا احرام باندھا ہو تو وہ قارن ہوگا اور اس سے باقی عمرہ ساقط ہوجائے گا اور قران کا دم اس پر لازم ہوگا اسی طرح جس نے حج کا احرام باندھا اپنے عمرہ کے طواف کے نصف میں یا اس سے فارغ ہونے کے بعد رکوع سے پہلے تو اس کا یہی حکم ہے۔ بعض نے فرمایا : جب تک صفا ومروہ کے درمیاں سعی مکمل نہ کی ہو اس کے لئے حج کو عمرہ پر داخل کرنا جائز ہے۔ ابو عمر نے کہا : یہ تمام اقوال اہل علم کے نزدیک شاذ ہیں۔ اشہب نے کہا : جب عمرہ کے طواف کا ایک چکر لگا لیا ہو تو اس پر حج کا احرام لازم نہیں اور وہ قارن نہ ہوگا۔ وہ اپنے عمرہ کو جاری رکھے حتیٰ کہ اسے مکمل کرے پھر حج کا احرام باندھے۔ یہ امام شافعی اور عطا کا قول ہے اور یہی ابو ثور کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر
10
: حج کو عمرہ میں داخل کرنے میں اختلاف ہے۔ امام مالک، ابو ثور اور اسحاق نے کہا : عمرہ حج پر داخل نہ ہوگا اور جس نے عمرہ کو حج کے ساتھ ملایا تو عمرہ کسی چیز کے ساتھ نہیں۔ یہ امام مالک اور امام شافعی کا ایک قول ہے اور مصر میں ان سے یہی مشہور ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام شافعی کا قدیم قول یہ ہے کہ وہ قارن ہوجائے گا اور اس پر وہی ہوگا جو قارن پر ہوتا ہے جب تک کہ اس نے حج کے طواف کا ایک چکر بھی نہ لگایا ہو۔ اگر طواف کرلیا ہو تو اس پر لازم ہوگا کیونکہ اس نے حج میں عمل کیا۔ ابن منذر نے کہا : اس مسئلہ میں امام مالک کے قول کے مطابق کہتا ہوں۔ مسئلہ نمبر
11
: امام مالک نے فرمایا : جس نے عمرہ کے لئے ہدی دی دراں حالیکہ وہ متمتع ہے تو اس کے لئے یہ کافی نہیں اور اس پر متعہ کے لئے دوسری ہدی ہے کیونکہ وہ متمتع ہوجائے گا جب عمرہ سے حلالی ہونے کے بعد حج شروع کرے گا اس وقت اس پر ہدی واجب ہوگی۔ امام ابو حنیفہ، ابو ثور اور اسحاق نے کہا : وہ ہدی کو نحر نہ کرے مگر دسویں کے دن۔ امام احمد نے فرمایا : اگر متمتع دس دنوں سے پہلے آئے تو طواف کرے، سعی کرے اور اپنی ہدی کو نحر کر دے اور دس دنوں میں آئے تو دسویں کے دن نحر کرے۔ یہ عطا کا قول ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : جب طواف اور سعی کرلے تو وہ عمرہ کا احرام کھول دے خواہ ہدی لایا ہو یا نہ لایا ہو۔ مسئلہ نمبر
12
: امام مالک اور امام شافع کا اس متمتع کے بارے میں اختلاف ہے جو مر جائے۔ امام شافعی نے فرمایا : جب حج کا احرام باندھ لیا تھا تو اس پر متعہ کا دم (بکری) ہے جبکہ وہ اس کو پانے والا ہو۔ زعفرانی نے امام شافعی سے یہ حکایت کیا ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ ان سے اس متمتع کے بارے پوچھا گیا جو حج کا احرام باندھنے کے بعد عرفہ یا اس کے علاوہ کسی جگی فوت ہوجاتا ہے، کیا اس پر ہدی ہے ؟ امام مالک نے فرمایا : جو جمرہ عقبہ پر ری جمار کرنے سے پہلے مر جائے تو اس پر ہدی نہیں ہے اور جس نے ری جمار کرلیا تھا پھر مرگیا تو اس پر ہدی ہے۔ امام مالک سے پوچھا گیا کل مال سے ہدی دی جائے گی یا تہائی مال سے۔ امام مالک نے فرمایا : کل مال سے۔ مسئلہ نمبر
13
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فما استیسر من الھدی اس پر کلام گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام فی الحج و سبعۃ اذارجعتم تلک عشرہ کاملۃ ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام واتقوا اللہ واعلموا ان اللہ شدید العقاب۔ اس میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن لم یجد یعنی جو ہدی نہ پائے مال نہ ہونے کی وجہ سے یا حیوان نہ ہونے کی وجہ سے تو وہ حج کے دنوں میں تین روزے رکھے اور سات روزے اپنے شہر میں واپس آکر رکھے اور حج کے تین روزے اس طرح رکھے کہ آخری روزہ نویں ذی الحجہ کا ہو۔ یہ طاؤس کا قول ہے۔ شعبی، عطا، مجاہد، حسن بصری، نخعی، سعید بن جبیر، علقمہ، عمرو بن دینار اور اصحاب رائے سے مروی ہے۔ ابن منذر نے اس کو حکایت کیا ہے۔ ابو ثور نے امام ابوحنیفہ سے روایت کیا ہے، وہ اپنے عمرہ کے احرام میں روزے رکھے کیونکہ وہ تمتع کا ایک احرام ہے۔ پس اس میں ان دنوں کا روزہ جائز ہے جس طرح حج کے احرام میں جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے کہ وہ آٹھویں کے دن سے پہلے ایک دن روزہ رکھے پھر آٹھویں اور عرفہ کے دن کا روزہ رکھے۔ حضرت ابن عباس اور حضرت مالک بن انس نے کہا : اس کے لئے ہے کہ وہ روزہ رکھے جب سے اس نے حج کا احرام باندھا ہے دسویں کے دن تک کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : حج میں تین روزے رکھے۔ جب عمرہ میں روزہ رکھے تو وہ اپنے وقت سے پہلے ادا کرنے والا ہوگا تو وہ جائز نہیں۔ امام شافعی، امام احمد بن حنبل نے کہا : حج کا احرام باندھنے اور نویں ذی الحجہ کے درمیان روزے رکھے۔ یہ حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ ؓ کا قول ہے۔ یہ امام مالک سے مروی ہے، مؤطا میں ان کے قول کا یہی مقتضا ہے تاکہ وہ عرفہ کے دن افطار کرنے والاہو۔ اس میں سنت کی اتباع ہے اور عبادت پر زیادہ قوت دینے والا ہے۔ امام احمد سے مروی ہے، جائز ہے کہ وہ احرام باندھنے سے پہلے تین روزے رکھے۔ ثوری اور اوزاعی نے کہا : ذی الحجہ کے دس دنوں کے آغاز سے روزے رکھے۔ یہ عطا کا قول ہے۔ عروہ نے کہا : ایام منیٰ میں مکہ میں وہ روزے رکھے۔ یہ الفاظ حج تمتع کا احرام باندھنے کے وقت سے عرفہ کے دن تک روزہ کی صحت کی تقاضا کرتے ہیں۔ یہ آغاز کا وقت ہے کیونکہ یہ ادائیگی کا وقت ہے اور اس کے بعد ایام منیٰ قضا کا وقت ہے۔ جیسا کہ امام شافعی کے اصحاب کا قول ہے اور دسویں کے دن سے پہلے روزے رکھنا ذمہ سے بری ہونا ہے اور اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ مذہب یہ ہے کہ ادا کے طور پر ہیں اگرچہ ایام منی سے پہلے روزے رکھنا افضل ہے جس طرح نماز کا وقت ہے اس میں ادائیگی کی وسعت ہے اگرچہ پہلا وقت آخری وقت سے افضل ہے۔ یہ صحیح ہے اور یہ ادا ہے قضا نہیں ہے کیونکہ ایام فی الحج کے کلمات یہ احتمال رکھتے ہیں کہ اس سے مراد حج کی جگہ ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ایام حج مراد ہوں۔ اگر ایام حج مراد ہوں تو یہ قول صحیح ہے کیونکہ آخری دن ایام حج کا دسویں کا دن ہے اور یہ احتمال ہے کہ آخری دن ری جمار کے دن ہوں کیونکہ ری جمار کرنا خالص حج کے عمل سے ہے اگرچہ اس کے ارکان سے نہیں ہے۔ اگر حج کی جگہ مراد ہو تو وہ ایام منیٰ میں جب تک مکہ میں ہے روزے رکھ لے جیسا کہ عروہ نے کہا ہے۔ یہ بہت قوی ہے۔ بعض علماء نے کہا : وہ روزون کو ایام تشریق تک مؤخر کرے، کیونکہ اس پر روزہ واجب نہیں ہے مگر یہ کہ دسویں کے دن ہدی نہ پائے۔ مسئلہ نمبر
2
: اگر کہا جائے کہ اہل مدینہ کی ایک جماعت اور امام شافعی کا جدید قول یہ ہے کہ امام شافعی کے اکثر اصحاب کا یہ نظریہ ہے کہ ایام تشریق کا روزہ جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایام منیٰ کے روزوں سے منع فرمایا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر نہی ثابت ہو تو یہ عام ہوگا، اس سے متمتع خاص ہوگا اس روایت سے جو بخاری میں ہے کہ حضرت عائشہ ان دنوں میں روزہ رکھتی تھیں۔ حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ سے مروی ہے، فرمایا : ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی رخصت نہیں ہے مگر اس شخص کے لئے جو ہدی نہ پائے۔ دار قطنی نے کہا : اس کی سند صحیح ہے۔ اس کو حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ سے تین طرف سے مرفوع روایت کیا ہے اور تینوں طرف کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ان دنوں میں روزہ رکھنے کی رخصت دی گئی ہے کیونکہ حج کے ایام میں سے باقی صرف یہی مقدار رہ گئی ہے۔ اسی وجہ سے روزے کا وجوب متحقق ہوجاتا ہے، ہدی کے نہ پائے جانے کی وجہ سے۔ ابن منذر نے کہا : ہم نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : جب روزہ فوت ہوجاتا ہے تو ایام تشریق کے بعد روزہ رکھے گا۔ یہ حسن اور عطا کا قول ہے۔ ابن منذر نے کہا : اسی طرح ہم کہتے ہیں، ایک طائفہ نے کہا : جب دس دنوں میں روزہ نہ رکھے تو پھر ہدی کے سوا کوئی چیز یاد نہیں۔ یہ حضرت ابن عباس، حضرت سعید بن جبیر، طاؤس اور مجاہد سے مروی ہے۔ امام ابو عمر نے امام ابوحنیفہ سے اور آپ کے اصحاب سے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
3
: علماء کا اجماع ہے کہ متمتع ہدی پائے تو اسے روزہ رکھنے کا اختیار نہیں اور اس میں اختلاف ہے کہ جب کوئی ہدی کو پانے والا نہ ہو تو پھر وہ روزے رکھنے شروع کر دے پھر روزے مکمل کرنے سے پہلے ہدی کو پا لے۔ ابن وہب نے مالک سے روایت کیا ہے، فرمایا : جب روزہ میں داخل ہو پھر ہدی کو پا لے تو میرے نزدیک ہدی دینا زیادہ پسندیدہ ہے۔ اگر اس نے ہدی نہ دی تو روزہ بھی اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔ امام شافعی نے فرمایا : روزے کو وہ مکمل کرے جبکہ وہ فرض ہے اسی طرح ابو ثور نے کہا : یہ حسن اور قتادہ کا قول ہے، ابن منذر نے بھی اس کو پسند کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : جب تیسرے روزے میں ہدی میسر آگئی تو روزہ باطل ہوجائے گا اور ہدی واجب ہوجائے گی۔ اگر حج میں تین دن روزے رکھ لے پھر اسے ہدی میسر آگئی تو اس کے لئے جائز ہے کہ گھر واپس آ کر سات روزے رکھ لے اور ہدی کی طرف نہ لوٹے۔ یہ ثوری، ابن ابی تجیح اور حماد کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر
4
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وسبعۃ جمہور کی قرأت عطف کی بنا پر مجرور ہے۔ زید بن علی نے وسبعۃ نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ معنی یہ ہوگا : وصوموا سبعۃ (سات روزے رکھو) مسئلہ نمبر
5
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اذا رجعتم جب تم اپنے شہروں کی طرف لوٹو۔ یہ حضرت ابن عمر، قتادہ، ربیع، مجاہد اور عطا کا قول ہے۔ مالک نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے : امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ قتادہ اور ربیع نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے اور کسی پر سات روزے واجب نہیں ہوتے مگر جب وطن واپس آجائے مگر جو اپنے اوپر سختی کرے جس طرح جو رمضان میں سفر میں روزہ رکھتا ہے۔ امام احمد اور اسحاق نے فرمایا : راستہ میں اسے روزہ جائز ہے۔ مجاہد اور عطا سے مروی ہے، مجاہد نے کہا : اگر وہ چاہے تو راستہ میں روزہ رکھے، یہ رخصت ہے، اسی طرح عکرمہ اور حسن نے کہا۔ بعض اہل لغت نے کہا : اس کا مطلب ہے جب تم حج سے لوٹو یعنی جب تم اس حلت کی طرف لوٹو جس پر تم احرام سے پہلے تھے۔ امام مالک نے ” الکتاب “ میں فرمایا : جب منیٰ سے واپس آجائے تو روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ابن عربی نے کہا : اگر تخفیف اور رخصت ہو تو رخصت کو مقدم کرنا جائز ہے اور رخصت کو چھوڑ کر عزیمت کی طرف لوٹنا بالا جماع جائز ہے اگرچہ اس کا وقت متعین ہے لیکن اس میں نص نہیں ہے، نہ ظاہر ہے کہ اس سے مراد شہر کی طرف لوٹنا ہے اور اغلب یہی ہے کہ حج مراد ہے۔ میں کہتا ہوں : بلکہ اس میں ظاہر نص کے قریب ہے۔ مسلم نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے حج تمتع کیا اور ہدی دی۔ آپ ﷺ ذی الحلیفہ سے ہدی لے گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے پہلے عمرہ کا احرام باندھا پھر حج کا احرام باندھا، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی حج تمتع کیا لوگوں میں سے کچھ ہدی ساتھ لائے تھے اور کچھ ہدی ساتھ نہ لائے تھے جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں آئے تو لوگوں سے فرمایا : تم میں سے ہو ہدی ساتھ لایا ہے وہ کسی چیز سے حلالی نہ ہو جو حج کی وجہ سے حرام ہوئی حتیٰ کہ اپنے حج کو مکمل کرے اور جس کے پاس ہدی نہیں ہے وہ بیت اللہ کا طواف کرے پھر صفا ومروہ کا طواف کرے، بال قصر کرائے اور احرام کھول دے پھر محرم احرام باندھے اور ہدی دے۔ جو ہدی کو نہ پائے وہ حج میں تین روزے رکھے اور سات روزے گھر والوں کے پاس لوٹ آئے تو رکھے۔ یہ نص کی طرح ہے کہ سات روزے گھر والوں میں شہر والوں میں رکھے۔ اسی طرح بخاری میں حضرت ابن عباس کی حدیث میں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے آٹھ ذی الحجہ کی شام ہمیں حج کا احرام باندھنے کا حکم دیا جب ہم مناسک حج سے فارغ ہوں گے تو ہم آئیں گے بیت اللہ کا طواف کریں گے، صفاہ مروہ کا طواف کریں گے تو ہمارا حج مکمل ہوگا اور ہم پر ہدی واجب ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فما استیسر من الھدی فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام فی الحج وسبعۃ اذا رجعتم۔ (یعنی جب ہم اپنے شہروں کی طرف آئیں۔ الحدیث) نحاس نے کہا : یہ بالا جماع ہے۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تلک عشرۃ کاملۃ کہا جاتا ہے : کمل یکمل بروزن نصر ینصر کمل یکمل بروزن عظم یعظم، کمل یکمل بروزن حمد یحمد۔ اس میں یہ تین لغات ہیں۔ تلک عشرۃ کے معنی میں اختلاف ہے۔ یہ تو معلوم ہے کہ یہ دس ہیں۔ زجاج نے کہا : جب کسی خیال کرنے والے کا یہ خیال ہو سکتا تھا کہ حج کے تین روزوں یا واپسی پر سات روزوں میں اختیار ہے اور یہ سات روزے ان تین کا بدل ہیں کیونکہ یہ نہیں فرمایا کہ سات روزے اور رکھے تو تلک عشرۃ کے قول سے اس وہم و خیال کو زائل کردیا۔ پھر فرمایا کاملۃ حسن نے کہا : ثواب میں کامل، جس طرح اس شخص کا ثواب ہے جو ہدی دیتا ہے۔ بعض نے فرمایا : ہدی کا بدل ہونے میں کامل ہے۔ یعنی یہ پورے دس، ہدی کا ہدل ہیں، بعض نے فرمایا : ثواب میں کامل ہیں جس طرح اس شخص کا ثواب ہے جس نے تمتع نہیں کیا۔ بعض نے فرمایا : یہ لفظاً اخبار ہے اور اس کا معنی امر ہے یعنی یہ دس مکمل کرو یہ فرض ہے۔ مبرد نے کہا : عشرۃ تعداد کے ختم ہونے پر دلیل ہے تاکہ کسی وہم کرنے والے کو وہم نہ ہو کہ ان سات کے بعد بھی کوئی شے ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ تاکید ہے جیسا کہ تو کہتا ہے : کتبت بیدی۔ میں نے ہاتھ سے لکھا۔ اسی سے شاعر کا قول ہے۔ ثلاث و اثنتان فھن خمس و سادسۃ تمیل الی شمامی اس میں خمس تاکید ہے۔ ثلات بالغداۃ فذاک حسبی وست حسیں یدرکنی العشاء فذالک تسعۃ فی الیوم ریی و شرب المرء فوق الری داء ان اشعار میں تسعۃ تاکید ہے۔ اور کاملۃ کا ارشاد دوسری تاکید ہے اس میں روزہ رکھنے کی زیادہ تاکید ہے کہ اس تعداد سے کم نہ کرے جیسے تو کسی کو اہم کام کا حکم دیتا ہے تو کہتا ہے : اللہ اللہ لا تقصر۔ اللہ سے ڈرو اس میں کوتاہی نہ کرو۔ مسئلہ نمبر
7
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام یعنی وہ مسافر جو مسجد حرام کے رہنے والوں سے نہیں ہے اس پر تمتع کا دم واجب ہے۔ بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ان سے حج تمتع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : مہاجرین، انصار اور نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات نے حجۃ الوداع میں احرام باندھا اور ہم نے بھی احرام باندھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے حج کے احرام کو عمرہ کا احرام بنا دو مگر جس نے ہدی کو قلادہ پہنایا ہو۔ ہم نے بیت اللہ اور صفا ومروہ کا طواف کیا اور ہم عورتوں کے پاس آئے اور ہم نے سلے ہوئے کپڑے پہنے اور فرمایا : جس نے ہدی کو قلادہ پہنایا ہو وہ حلالی نہ ہو حتیٰ کہ اس کی ہدی اپنے مقام پر پہنچ جائے۔ پھر آپ ﷺ نے ہمیں آٹھویں کی شام حج کا احرام باندھنے کا حکم دیا جب ہم مناسک سے فارغ ہوں گے تو ہم آئیں گے بیت اللہ اور صفا ومروہ کا طواف کریں گے، پس ہمارا حج مکمل ہوگا اور ہم پر ہدی لازم ہوگی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام فی الحج وسبعۃ اذا رجعتم۔ ہدی میں بکری کافی ہے ایک سال میں انہوں نے دو عبادتیں حج اور عمرہ جمع کیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یہ حکم نازل کیا اور اپنے نبی کی زبان پر بیان فرمایا اور مکہ کے علاوہ لوگوں کے لئے اس کو مباح فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام۔ اشھر حج سے مراد شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ ہیں جو ان مہینوں میں حج تمتع کرے اس پر ہدی یا روزہ ہے۔ الرفث سے مراد جماع ہے اور الفسوق سے مراد گناہ ہیں الجدال سے مراد جھگڑا ہے۔ مسئلہ نمبر
8
: لمن میں لام بمعنی علی ہے۔ یعنی جو مکہ نہیں ہے اس پر دم (بکری) واجب ہے۔ جیسےحضور ﷺ کا ارشاد ہے : اشترطی لھم الولاء۔ اس میں لام بمعنی علی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان اسأتم فلھا۔ اس میں بھی لام بمعنی علی ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک مسافر کے لئے حج تمتع اور قران کرنے کی طرف اشارہ ہے اور مکہ کے رہنے والوں کے لئے قران و تمتع نہیں ہے۔ ان میں سے جو ایسا کرے اس پر جنایت کا دم ہوگا جس سے وہ نہیں کھائے گا کیونکہ یہ دم تمتع نہیں ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : ان کے لئے دم تمتع اور قران ہے۔ اشارہ ہدی اور روزہ کی طرف ہے ان پر ہدی اور روزہ نہیں ہے۔ عبد الملک بن ماجشون نے تمتع اور قران کے درمیان فرق کیا ہے، پس قران میں خون کو واجب کیا ہے اور تمتع میں ساقط کیا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر
9
: اس باپ پر اجماع ہونے کے بعد کہ اہل مکہ اور اس سے متصل رہنے والے لوگ مسجد حرام میں رہنے والے لوگ ہیں۔ حاضری المسجد الحرام کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ طبرانی نے کہا : اہل حرم پر اجماع ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : اس طرح جس طرح اس نے کہا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : جن پر جمعہ واجب ہے وہ حضری ہے جو اس سے دور ہے وہ بدوی ہے یہ لفظ حضارۃ اور بداوۃ سے بنائے ہیں۔ امام مالک اور ان کے اصحاب نے کہا : وہ اہل مکہ اور اس کے متصل رہنے والے لوگ ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا : اس سے مراد مواقیت اور اس کے اندر رہنے والے لوگ ہیں۔ پس مواقیت یا مواقیت سے اندر رہنے والے ہیں وہ حاضری المسجد الحرام میں سے ہیں۔ امام شافعی اور ان کے اصحاب نے کہا : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایسی جگہ پر رہتے ہیں جن پر مکہ آتے وقت نماز قصر نہیں ہوتی۔ یہ مواقیت کے قریب رہنے والے لوگ ہیں۔ آیت کے تاویل میں متقد میں کے ان اقوال پر مذاہب ہیں۔ مسئلہ نمبر
10
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتقوا اللہ یعنی جو اللہ نے تم پر فرض کیا اس کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ بعض نے فرمایا : بالعموم تقویٰ کا امر ہے اور عذاب کی شدت سے ڈرانا ہے۔ آیت نمبر
197
اس میں چودہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الحج اشھر معلومت جب اللہ تعالیٰ نے واتموا الحج والعمرۃ للہ میں حج اور عمرہ کا ذکر فرمایا تو وقت میں ان کے اختلاف کو بیان فرمایا۔ سارا سال عمرہ کے احرام کا وقت ہے اور عمرہ کا وقت ہے۔ رہا حج یہ سال میں ایک مرتبہ واقع ہوتا ہے، یہ ان مخصوص مہینوں کے علاوہ میں واقع نہیں ہوتا۔ الحج اشھر معلومت مبتدا اخبر ہیں اور کلام میں حزف ہے۔ اس کی تقدیر اشھر الحج اشھر ہے یا وقت الحج اشھر ہے یا وقت عمل الحج اشھر ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کی تقدیر الحج فی الاشھر ہے۔ حرف جر کے سقوط کے ساتھ اشہر کی نصب لازم ہے اور کسی نے اس کی نصب کے ساتھ نہیں پڑھا مگر کلام میں ظرف کی بنا پر نصب جائز ہے۔ فراء نے کہا : اشھر مرفوع ہے کیونکہ اس کا معنی ہے : وقت الحج اشھر معلومات۔ فراء نے کہا : میں نے کسائی کو یہ کہتے سنا : انما الصیف شھران، انما الطیلسان ثلاثۃ اشھر۔ اس سے مراد گرمیوں کا وقت اور چادریں اوڑھنے کا وقت لیا ہے۔ اس میں حذف ہے۔ مسئلہ نمبر
2
: الاشھر المعلومات میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عمر، عطا، ربیع، مجاہد اور زہری نے کہا : اشھر حج شوال، ذوالقعدہ اور ذی الحجہ پورا ہے۔ حضرت ابن عباس، سدی، شعبی اور نخعی نے کہا : یہ شوال، ذوالقعدہ اور ذی الحجۃ کے دس دن ہیں۔ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے اور حضرت بن زبیر کا یہی قول ہے۔ دونوں قول مالک سے مروی ہیں۔ آخری قول ابن حبیب نے حکایت کیا ہے اور پہلا ابن منذر نے بیان کیا ہے۔ فرق کا فائدہ دم (جانور قربان کرنا) سے متعلق ہے۔ جس نے کہا : ذی الحجہ مکمل، حج کے مہینوں میں سے ہے وہ دسویں کے دن کے بعد اعمال حج میں سے جو عمل واقع ہو اس میں دم واجب نہیں کرتے کیونکہ وہ اشہر حج میں سے ہے۔ دوسرے قول پر حج دسویں کے دن ختم ہوجاتا ہے اس کے بعد جو عمل کرے گا وقت سے تاخیر کی بناء پر دم لازم ہوگا۔ مسئلہ نمبر
3
: اللہ تعالیٰ نے حج کے مہینوں کا اپنی کتاب میں نام نہیں لیا کیونکہ یہ لوگوں کو معلوم تھے۔ اور الاشہر کے لفظ کا اطلاق دو مہینوں اور تیسرے مہینہ کے بعض حصہ پر ہوتا ہے کیونکہ بعض مہینہ پورے مہینہ کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے : رائیتک سنۃ کذا۔ او علی عھد فلاں (یعنی میں نے تجھے فلاں سال یا فلاں کے عہد میں دیکھا) اس نے اسے دیکھا تو ایک لمحہ میں تھا۔ وقت کے بعض کو کل کے ساتھ تعبیر کردیا جاتا ہے۔ جیسے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ایام منی ثلاثۃ۔ حالانکہ یہ دو دن اور تیسرے دن کا بعض حصہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں۔ رایتک الیوم، جئتک العام۔ میں نے آج تجھے دیکھا اور میں تیرے پاس اس سال آیا۔ بعض نے فرمایا : جب دو اور دو سے زیادہ جمع ہوتے ہیں تو اشھر فرمایا۔ مسئلہ نمبر
4
: حج کے مہینوں کے علاوہ کسی مہینے میں احرام باندھنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے حج کی سنت یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں احرام باندھے۔ حضرت عطا، مجاہد، طاؤس اور اوزاعی نے کہا : جس نے حج کے مہینوں سے پہلے احرام باندھا تو وہ اس کے حج کی طرف سے نہ ہوگا۔۔۔۔ وہ عمرہ کا ہوگا جیسے کوئی وقت سے پہلے نماز میں داخل ہو تو وہ اس کی فرض نماز نہیں ہوتی وہ نفل ہوتی ہے۔ یہ امام شافعی اور ابو ثور کا قول ہے۔ اوزاعی نے کہا : وہ عمرہ کے ساتھ احرام کھول دے گا۔ امام احمد بن حنبل نے کہا : یہ مکروہ ہے۔ امام مالک سے مروی ہے اور ان کا مشہور قول پورے سال میں حج کا احرام باندھنے کا جواب ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے، نخعی نے کہا : حج مکمل کرنے تک احرام کھولنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یسئلونک عن الاھلۃ قل ھی مواقیت للناس والحج (البقرہ :
189
) اس کے متعلق کلام گزر چکی ہے۔ امام شافعی کا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ عام ہے اور یہ آیت خاص ہے یہ بھی احتمال ہے کہ عموم کے بعض اشخاص پر نص کے باب سے ہو کیونکہ ان مہینوں کو دوسرے مہینوں پر فضیلت ہے۔ اس پر امام مالک کا قول صحیح ہوگا۔ مسئلہ نمبر
5
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن فرض فیھن الحج یعنی جس نے نیت کے ساتھ قصداً باطناً حج میں شروع ہو کر اپنے اوپر حج لازم کردیا اور احرام کے ساتھ ظاہر فعل کے ساتھ اور تلبیہ کے ساتھ زبانی اپنے اوپر حج کو لازم کرلیا۔ یہ ابن حبیب کا قول ہے اور امام ابوحنیفہ نے کہا : جس نے تلبیہ کے ساتھ اپنے اوپر حج فرض کرلیا۔ امام شافعی کے نزدیک تلبیہ ارکان حج میں سے نہیں ہے۔ یہ حسن بن حیی کا قول ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : حج کے احرام میں نیت کافی ہے اور تلبیہ کو اہل ظاہر اور دوسرے علماء نے واجب کہا ہے۔ فرض کا لغوی معنی کاٹنا ہے اسی سے فرضۃ القوس والنھروالجبل ہے۔ قوس کی شگاف کی جگہ، نہر سے پای پینے کی جگہ، پہاڑ کا وہ حصہ جو اس کے وسط اور جانب سے لڑھک جائے۔ پس فرضیۃ الحج کا مطلب آزاد آدمی پا اس کا لازم ہونا ہے جس طرح تیر کے لئے شگاف ہوتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : فرض کا معنی علیحدہ کرنا ہے۔ یہ بھی قطع کے معنی کی طرف لوٹتا ہے کیونکہ جو کسی چیز کو کاٹتا ہے تو وہ اسے دوسری چیز سے علیحدہ کرتا ہے اور من مبتدا کی حیثیت سے مرفوع ہے۔ اس کا معنی شرط ہے اور خبر فرض ہے کیونکہ من موصولہ نہیں ہے۔ فرمایا : رجل فرض۔ اور فرمایا فیھن اور فیھا نہیں فرمایا۔ بعض علماء نے فرمایا : استعمال میں دونوں برابر ہیں۔ مازنی ابو عثمان نے کہا : غیر ذوی العقول کی جمع کثیر واحد مونث کی طرف آتی ہے اور قلیل اس طرح نہیں آتی۔ تو کہتا ہے : الاجذاع انکسرن، الجذوع انکسرت۔ اس کے تائید اللہ تعالیٰ کا یہ قول کرتا ہے : ان عدۃ الشھور۔ پھر فرمایا : منھا۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلا رفث حضرت بن عباس، ابن جبیر، سدی، قتادہ، حسن، عکرمہ، زہری، مجاہد اور مالک نے کہا : الرفث سے مراد جماع ہے۔ یعنی جماع نہ ہو کیونکہ یہ حج کو فاسد کردیتا ہے۔ علماء کا اجماع ہے کہ وقوف عرفات سے پہلے جماع، حج کو فاسد کرنے والا ہے اور اس پر آئندہ سال حج اور ہدی دینا ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عمر، طاؤس، عطا وغیر ہم نے فرمایا : الرفث سے مراد عورت کے ساتھ فحش کلام کرنا ہے۔ اس کا قول : جب ہم احرام کھولیں گے تو ہم تیرے ساتھ ایسا کریں گے۔ یعنی بغیر کنایہ کے کہے۔۔۔۔۔ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے انہوں نے احرام کی حالت میں شعر میں کہا : و ھن یمشین بنا ھمیسا ان تصدق الطیر ننک لمیسا تو آپ کے ساتھی حصین بن قیس نے کہا : کیا تو احرام کی حالت میں رفث کرتا ہے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا : الرفث ہو ہے جو عورتون کے پاس کیا جائے۔ ایک قوم نے کہا : عورتوں کے ذکر کے ساتھ فحش کلام کرنا ہے خواہ وہ حاضر ہوں یا نہ ہوں۔ بعض نے کہا : الرفث ایک جامع کلمہ ہے۔ یہ ہر اس کو شامل ہے جو مرد، عورت سے چاہتا ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : الرفث کا معنی لغو کلام ہے اور یہ شعر پڑھا ہے۔ و رب اسراب حجیج کظم عن اللغا و رفث التکلم کہا جاتا ہے : رفث یرفث، فاء کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ۔ حضرت ابن مسعود نے فلا رفوث پڑھا ہے یعنی جمع کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن عربی نے کہا : فلا رفث سے مراد اس کی مشروعیت کی نفی ہے نہ کہ اس کے وجود کی نفی ہے کیونکہ ہم رفث حج میں پاتے ہیں اور اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خبر غلط واقع نہیں ہو سکتی۔ نفی اس کے مشروعاً وجود کی طرف لوٹتی ہے، محسوساً اس کے وجود کی طرف نہیں لوٹتی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والمطلقت یتربصن بالنفسھن ثلثۃ قروء (البقرہ :
228
) ہم طلاق والی عورتوں کو پاتے ہیں کہ وہ انتظار نہیں کرتی ہیں پس نفی حکم شرعی کی طرف لوٹتی ہے نہ کہ وجود حسی کی طرف، یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے ال یمسہ الا المطھرون (الواقعہ) جب ہم کہتے ہیں یہ آدمیوں کے بارے میں وارد ہے اور یہ صحیح ہے۔۔۔۔۔ اس کا معنی ہے شرعاً آدمیوں میں سے اس کو بےوضو شخص نہیں چھوتا اگر چھونا پایا گیا تو وہ شرع کے حکم کے خلاف ہوگا۔ یہ نکتہ علماء سے فوت ہوگیا انہوں نے کہا : خبر، نہی کے معنی میں ہوتی ہے۔ یہ کبھی نہیں پائی جاتی ہے اور اس کا پایا جانا صحیح بھی نہیں ہے یہ دونوں حقیقۃً مختلف ہیں وصفاً متضاد ہیں۔ مسئلہ نمبر
7
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا فسوق اس سے مراد تمام گناہ ہیں یہ حضرت ابن عباس، عطا اور حسن کا قول ہے، اسی طرح حضرت ابن عمر اور ایک جماعت نے کہا : الفسوق کا معنی حج کے احرام کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنا ہے جیسے شکار کو قتل کرنا، ناخن کاٹنا، بال نوچنا اور اس کے مشابہ گناہ کرنا ہے۔ ابن زید اور مالک نے کہا : الفسوق سے مراد بتوں کے لئے جانور ذبح کرنا ہے اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اوفسقاً اھل لغیر اللہ بہ۔ ضحاک نے کہا : الفسوق سے مراد برے القاب سے یاد کرنا ہے اسی سے ارشاد ہے : بئس الا سم الفسوق۔ حضرت ابن عمر نے کہا : الفسوق سے مراد گالی دینا ہے۔ اسی سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ” مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ “ پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ وہ تمام اقوال کو شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” جس نے حج کیا اور جماع اور گناہ نہ کیا تو وہ اس طرح لوٹا جیسے اس دن تھا جس میں اسے اس کی والدہ نے جنم دیا تھا “ اور مقبول حج کی جزاء صرف جنت ہے۔ یہ مسلم وغیرہ نے نقل کی ہے اور نبی کریم ﷺ سے مروی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے آسمان اور زمین کے درمیان اللہ کے راستہ میں جہاد اور مقبول حج سے بہتر عمل کوئی نہیں جس میں جماع، فسق اور جھگڑا نہ ہو۔ فقہاء نے کہا : حج مقبول وہ ہے جس کی ادائیگی کے دوران اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی ہو۔ فراء نے کہا : وہ ہے جس کے بعد اللہ کی نافرمانی نہ کی ہو۔ یہ دونوں قول ابن عربی نے ذکر کئے ہیں۔ میں کہتا ہوں : حج مبرور وہ ہے جس میں اور جس کے بعد اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔ حسن نے کہا : حج مبرور یہ ہے کہ وہ لوٹے تو دنیا سے دلچسپی نہ رکھتا ہو اور آخرت سے رغبت رکھتا ہو۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ مسئلہ نمبر
8
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا جدال فی الحج فلا رفث ولا فسوق رفع اور تنوین کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور بغیر تنوین کے نصب کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور ولا جدال میں فتحہ پر اجماع ہے۔ یہ پہلے کلمات میں نصب کی قرأت کو تقویت دیتا ہے کیونکہ مقصود رفث، فسوق اور جدال سے عام نفی ہے تاکہ منفی کے عموم میں ایک نظام پر کلام ہوجائے۔ نصب پر اکثر قراء ہیں۔ تینوں اسماء محل رفع میں ہیں ہر ایک لا کے ساتھ ہے اور فی الحج تمام کی خبر ہے اور رفع کی قرأت کی وجہ یہ ہے کہ لا بمعنی لیس ہے۔ پس اس کے بعد اسم مرفوع ہوا کیونکہ وہ اس کا اسم ہے اور خبر محذوف ہے۔ تقدیر اس طرح ہے : فلیس رفث ولا فسوق فی الحج۔ اور اس پر دلیل فی الحج کا قول ہے اور دوسرا ظاہر ہے وہ لا جدال کی خبر ہے۔ ابو عمرو بن العلاء نے کہا : رفع اس معنی میں ہوگا : فلا یکونن رفث ولا فسوق۔ یعنی ہر ایسا عمل جو حج سے نکالتا ہے پھر نفی کی ابتدا کی۔ فرمایا : ولا جدال۔ میں کہتا ہوں : یہ احتمال ہے کہ کان تامہ ہو۔ جیسے اس قول میں ہے وان کان ذو عسرۃ (بقرہ :
280
) تو یہ خبر کا محتاج نہیں ہوتا اور یہ بھی احتمال ہے کہ کان ناقصہ ہو اور خبر محذوف ہو جیسا کہ ابھی گزرا ہے۔ اور رفث اور فسوق کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے اور بعض طرق میں عاصم سے یہ مروی ہے۔ اس صورت میں فی الحج تینوں کی خبر ہوگا جیسا کہ ہم نے نصب کی قرأت کے بارے میں کہا اور فی الحج کا قرأت کے اختلاف کے ساتھ تمام کی خبر ہونا اچھا نہیں کیونکہ لیس کی خبر منصوب ہوتی ہے اور ولا جدال کی خبر مرفوع ہوتی ہے کیونکہ ولا جدال پہلے سے علیحدہ کیا گیا ہے یہ مبتدا کی وجہ سے محل رفع میں ہے۔ اور ایک اسم میں دو فاعل نہیں ہوتے اور فلا رفث ولا فسوق جائز ہے۔ مقام پر عطف ہے۔ نحویوں نے یہ شعر پڑھا ہے : لا نسب الیوم ولا خلۃ اتسع الخرق علی الراقع نہ اس دن نسب کا فائدہ ہوگا نہ دوستی ہوگی چیتھڑے والے پر پھٹن زیادہ ہوگی۔ اور کلام میں فلا رفث ولا فسوقا ولا جدالا فی الحج لفظ پر عطف کے اعتبار سے جو لا میں واجب تھا یہ فراء نے کہا ہے اور اس کی مثال یہ ہے : فلا أب وابنا مثل مروان و ابنہ اذا ھو بالمجد ارتدیٰ وتازراً نہ باپ، نہ بیٹا مردان اور اس کے بیٹے کی مثل ہے جب اس نے بزرگی کی چادر اوڑھی اور تہبند باندھا۔ ابورجاعطاردی نے کہا فلا رفث ولا فسوق دونوں میں نصب کے ساتھ اور ولا جدال رفع اور تنوین کے ساتھ۔ اخفش نے کہا : ھذا وجد کم الصغار بعینہ لا ام لی ان کان ذاک ولا اب یہ اور تمہارا ذلیل دادا میرے لئے نہ ماں ہو نہ باپ اگر وہ ہو۔ بعض علماء نے کہا : فلا رفث ولا فسوق کا معنی نہی ہے، یعنی لا ترفثو ولا تفسقوا۔ اور ولا جدال کا معنی نفی ہے۔ جب معنی میں اختلاف ہے تو لفظ میں بھی اختلاف کیا گیا۔ قشیری نے کہا : اس میں نظر ہے کیونکہ کہا گیا ہے کہ ولا جدال بھی نہی ہے یعنی لا تجادلوا بھی ان کے درمیان کیوں فرق کیا گیا۔ مسئلہ نمبر
9
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا جدال یہ مجادلہ سے فعال کے وزن پر ہے یہ جدل سے مشتق ہے جس کا معنی قتل کرنا ہے اسی سے ذمام مجدول ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ الجدالہ سے مشتق ہے جو زمین ہے۔ گویا ہر شخص اپنے مخالف کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے حتیٰ کہ اس پر غالب آتا ہے۔ پس وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے جس نے مخالف کو زمین پر مارا۔ شاعر نے کہا : قد ارکب الآلۃ بعد الآلۃ و اترک العاجز بالجدالۃ منعفراً لیست لہ محالۃ مسئلہ نمبر
10
: علماء نے ان الفاظ کے مراوی معنی میں چھ مختلف اقوال ذکر کئے ہیں۔ حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس اور عطاء نے کہا : الجدال کا یہاں معنی یہ ہے کہ تو کسی مسلمان سے جھگڑے حتیٰ کہ تو اس پر ناراض ہو اور وہ گالی تک پہنچ جائے۔ رہا مذاکرہ علم تو اس سے نہی نہیں ہے۔ قتادہ نے کہا : الجدال سے مراد گالی دینا ہے، حضرت ابن زید اور حضرت مالک بن انس نے کہا : یہاں الجدال سے مراد لوگوں کا اختلاف ہے کہ کس نے حضرت ابراہیم کے موقف کو پایا جیسا کہ وہ زمانہ جاہلیت میں کرتے تھے جب قریش دوسرے عربوں سے مختلف جگہ پر ٹھہرتے تھے پھر اس کے بعد جھگڑتے تھے۔ اس تاویل پر معنی یہ ہوگا کہ ابراہیم کے موقف کے بارے میں نہ جھگڑو۔ ایک طاہفہ نے کہا : الجدال سے مراد یہ ہے کہ ایک گروہ کہے کہ آج حج ہے اور دوسرا کہے کہ کل حج ہے۔ مجاہد اور ان کے ساتھ ایک طائفہ نے کہا : الجدال سے مراد مہینوں کے بارے میں جھگڑنا ہے جیسا (ایک مہینہ کو مؤخر کرنا، دوسرے کو مقدم کرنا) میں عربوں کا معمول تھا، کبھی وہ حج کو ذی الحجہ کے علاوہ مہینے میں کرتے تھے۔ بعض مزدلفہ میں ٹھہرتے، بعض عرفہ میں ٹھہرتے اور درست مقام میں ٹھہرنے کے بارے میں جھگڑتے تھے (ہر ایک کہتا : میں ٹھیک ہوں) میں کہتا ہوں : ان دو تاویلوں پر معنی ہوگا نہ وقت میں جھگڑو، نہ ٹھہرنے کی جگہ میں جھگڑو۔ یہ قول زیادہ درست ہے جو ولا جدال کے بارے میں بیان کئے گئے ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : زمانہ اس دن کی ہیئت پر گھوم آیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ (الحدیث) مزید بیان سورة برأت میں آئے گا۔ یعنی حج کا امر اسی جہت پر لوٹ آیا جس پر تھا یعنی اس دن اور وقت پر لوٹ آیا۔ نبی کریم ﷺ نے جب حج فرمایا تو فرمایا : ” مجھ سے مناسک حج سیکھ لو “ اس کے ساتھ آپ نے حج کے مواقف اور مواضح بیان فرمائیں۔ محمد بن کعب قرظی نے بتایا کہ جدال یہ ہے کہ ایک طائفہ کہتا ہمارا حج، تمہارے حج سے زیادہ درست ہے دوسرا بھی اسی طرح کہتا۔ بعض نے فرمایا : الجدال سے مراد اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنا ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
11
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما تفعلوا من خیر یعلمۃ اللہ شرط اور جواب شرط ہے۔ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا کیونکہ عالم میں کسی چیز کے بدلے جزا واقع ہوتی ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ فحش کلام کی جگہ حسن کلام پر برانگیختہ کرنا ہے اور فسوق وجدال کی جگہ اخلاق میں تقویٰ اور نیکی پر ابھارنا ہے۔ بعض نے فرمایا : خیر (نیکی) کے فعل کو ضبط نفس سے تعبیر کیا ہے تاکہ وہ عمل نہ پایا جائے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر
12
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وتزودوا زادراہ ساتھ لینے کا حکم ہے۔ حضرت ابن عمر، عکرمہ، مجاہد، قتادہ اور ابن زید نے کہا : یہ آیت عربوں کے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی جو حج پر بغیر رادراہ کے آتے تھے۔ بعض کہتے ہیں : ہم بیت اللہ کا حج کیسے کریں گے وہ ہمیں کھانا نہیں کھلائے گا ؟ وہ لوگوں پر بوجھ بن جاتے تھے۔ انہیں اس عمل سے منع کیا گیا اور انہیں زادراہ ساتھ لانے کا حکم دیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے کہا : لوگ زادراہ کے سلسلہ میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے تھے تو انہیں زادراہ کا حکم دیا گیا اور نبی کریم ﷺ کا حج کے سفر میں ایک اونٹ تھا جس پر زادراہ تھا۔ آپ کے پاس مزینہ قبیلہ کے تین سو آدمی آئے جب انہوں نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے عمر ! ان لوگوں کو زادراہ دو ۔ بعض لوگوں نے کہا : تزودوا کا مطلب ہے نیک صالح دوست ساتھ لو۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ تخصیص ضعیف ہے۔ اولیٰ یہ ہے کہ تم اپنی آخرت کے لئے اعمال صالحہ کا زادراہ ساتھ لو۔ میں کہتا ہوں : پہلا قول واضح ہے کیونکہ زاد سے مراد حج کے سفر میں کھانے کا سامان ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرمایا : اہل یمن حج کرتے تھے اور زاد راہ ساتھ نہیں لاتے تھے اور کہتے تھے ہم توکل کرنے والے ہیں جب مکہ مکرمہ آئے تو لوگوں سے سوال کرتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : وتزودوا جان خیر الزاد التقوی یہ اس میں نص ہے جو ہم نے ذکر کیا۔ اکثر مفسرین کا یہی قول ہے۔ شعبی نے کہا الزاد سے مراد چھوارے اور ستو ہے۔ ابن جبیر نے کہا : کیک اور ستو ہے۔ ابن عربی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے انہیں زادراہ کا حکم دیا جن کے پاس مال تھا اور جن کے پاس مال نہیں تھا اگر وہ پیشہ رکھتا ہے تو راستہ میں اس کو استعمال کرے یا سائل ہے تو اسے خطاب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خطاب فرمایا جو مال والے تھے اور مال چھوڑ جاتے تھے اور بغیر زادراہ کے نکلتے تھے اور کہتے تھے ہم توکل کرنے والے ہیں، توکل کی شرائط ہیں جو ان شرائط کو بجا لائے تو وہ زادراہ کے بغیر نکلے اور وہ خطاب میں داخل نہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے عام مخلوق کے اعتبار سے حکم فرمایا عام لوگ توکل کے درجہ سے قاصر ہوتے ہیں اور اس کے حقائق سے غافل ہوتے ہیں۔ ابو الفرج جوزی نے کہا : ابلیس نے اس قوم پر تلبیس کی جو توکل کا دعویٰ کرتے اور وہ بغیر زادراہ کے نکلتے اور گمان کرتے کہ یہ توکل ہے۔ وہ انتہائی خطا پر ہیں۔ ایک شخص نے امام احمد بن حنبل سے کہا : میں چاہتا ہوں کہ مکہ کی طرف توکل کرتے ہوئے بغیر زادراہ کے جاؤں۔ امام احمد نے اسے کہا : بغیر قافلہ کے جاؤ، اس نے کہا نہیں قافلہ کے ساتھ جاؤں گا۔ امام احمد نے فرمایا : لوگوں کے برتن پر تو توکل کرے گا۔ مسئلہ نمبر
13
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فان خیر الزاد التقوی اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ بہتر زادراہ منہیات سے بچنا ہے۔ پس اللہ نے انہیں زادراہ کے ساتھ تقویٰ کو ملانے کا حکم دیا اور فان خیر الزاد التقوٰی اپنے معنی پر معمول ہے کیونکہ تزودوا کا معنی ہے اس حکم کی اتباع میں اللہ سے ڈرو جو تمہیں زادراہ ساتھ لے جانے کا دیا گیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس معنی کا احتمال رکھتا ہے کہ بہترزادوہ ہے جس کے ساتھ مسافرہلاکت سے اور سوال کرنے اور ہاتھ پیلانے کی حالت سے بچ جاتا ہے۔ بعض نے فرمایا : اس آیت میں تنبیہ ہے کہ یہ دنیا، قرار کی جگہ نہیں ہے۔ اہل اشارات نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو آخرت کا سفر یاد دلایا اور انہیں تقویٰ کے زاد پر ابھارا، تقویٰ آخرت کا زاد ہے۔ اعشی نے کہا : جب تو تقویٰ کے زاد راہ کے بغیر کوچ کرے گا اور مرنے کے بعد ان سے ملے گا جو زاد راہ ساتھ لے گئے ہیں تو تو شرمندہ ہوگا کہ تو ان کی مثل نہیں ہے۔ تو نے اس طرح اعمال کی نگرانی نہ کی جس طرح انہوں نے کی تھی۔ ایک اور شاعر نے کہا : موت ایک موجیں مارنے والا سمندر ہے اس میں تیرنے والے کا حیلہ ختم ہوجاتا ہے۔ اے نفس ! میں کہنے والا ہوں پس تو ایک مشفق ناصح سے بات سن، انسان کے ساتھ قبر میں تقویٰ اور عمل صالح کے علاوہ کچھ نہیں جاتا۔ مسئلہ نمبر
14
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتقون یاولی الالباب خطاب میں عقل والوں کو خاص فرمایا اگرچہ معاملہ تمام کو شامل ہے کیونکہ ان پر اللہ کی حجت قائم ہوئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کو پانے والے ہیں اور انہیں قائم رکھنے والے ہیں۔ الباب جمع ہے لب کی اور لب ہر چیز کے خالص حصہ کو کہتے ہیں اسی وجہ سے عقل کو بھی لب کہا جاتا ہے۔ نحاس نے کہا : میں نے ابو اسحاق کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے احمد بن یحییٰ ثعلب نے کہا : کیا تو عرب کلام میں مضا عف میں سے کوئی ایسی چیز جانتا ہے جو فعل کے وزن پر آئی ہو ؟ میں نے کہا : ہاں، سیبویہ نے یونس سے حکایت کیا ہے : لبیت تلب۔ انہوں نے اس کی تحسین کی اور کہا : میں اس کی مثال نہیں جانتا۔
Top