Al-Qurtubi - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو اور خدا سے بخشش مانگو بیشک خدا بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے
آیت نمبر 199 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم افیضوا من حیث افاض الناس بعض علماء نے فرمایا : یہ خطاب جس کو ہے وہ لوگوں کے ساتھ عرفات میں نہیں ٹھہرتے تھے بلکہ وہ مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے اور یہ حرم میں ہے۔ وہ کہتے تھے : ہم اللہ کے حرم میں رہنے والے ہیں، پس ہمارے لئے مناسب ہے کہ ہم حرم کی تعظیم کریں اور حل میں سے کسی چیز کی تعظیم نہ کریں۔ اس کے باوجود کہ وہ جانتے تھے اور اقرار کرتے تھے کہ عرفہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا موقف ہے وہ حرم سے نہیں نکلتے تھے اور وہ مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے اور اسی سے نکلتے تھے اور عرفہ میں ٹھہرتے تھے۔ تو انہیں کہا گیا کہ اکٹھے نکلو اور ثم اس آیت میں ترتیب کے لئے نہیں ہے۔ یہ جملہ کلام کے عطف کے لئے ہے۔ یہ اس آیت سے جدا ہے۔ ضحاک نے کہا : اس آیت کا مخاطب تمام امت ہے اور الناس سے مراد حضرت (علیہ السلام) ہیں جیسے ارشاد فرمایا : الذین قال لھم الناس۔ یہاں الناس سے مراد ایک فرد ہے اور اس تاویل پر احتمال ہے کہ انہیں عرفہ سے جانے کا حکم دیا گیا تھا اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ دوسرا چلنا ہو اور یہ مزدلفہ سے چلنا ہے پھر ثم اپنے معنی پر ہوگا۔ اس احتمال کی بنا پر طبری نے اعتماد کیا۔ معنی یہ ہے کہ تم چلو جہاں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مزدلفہ سے چلے تھے یعنی پھر منیٰ کی طرف چلو کیونکہ عرفات سے نکلنا، مزدلفہ سے نکلنے سے پہلے ہے۔ میں کہتا ہوں : اس میں اس شخص کے لئے حجت ہے جس نے مزدلفہ میں وقوف کو واجب قرار دیا، اس سے نکلنے کے امر کی وجہ سے۔ واللہ اعلم۔ اس آیت کی تاویل میں دونوں اقوال میں سے پہلا قول صحیح ہے۔ ترمذی نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : قریش اور ان کے دین کے پیرکار یعنی حمس، مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے۔ کہتے تھے : ہم اللہ کے حرم میں ٹھہرنے والے ہیں اور جوان کے علاوہ تھے وہ عرفہ میں ٹھہرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل کیا : ثم افیضوا من حیث افاض الناس۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور مسلم کی صحیح میں حضرت عائشہ سے مروی ہے الحمس وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا : ثم افیضوا من حیث افاض الناس۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : لوگ عرفات سے نکلتے تھے اور الحمس، مزدلفہ سے نکلتے تھے وہ کہتے : ہم نہیں نکلیں گے مگر حرم سے جب یہ آیت نازل ہوئی ثم افیضوا من حیث افاض الناس۔ تو وہ عرفات کی طرف لوٹے۔ یہ صریح نص ہے اور اس کی مثل زیادہ صحیح ہے۔ باقی اقوال پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔ واللہ المستعان۔ حضرت سعید بن جبیر نے الناسی پڑھا ہے اور اس کی تاویل حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فنسی ولم نجدله عذمًا۔ (طہ) بعض کے نزدیک یا کی تحفیف جائز ہے۔ وہ الناس کہتے ہیں جیسے القاض والھاد۔ ابن عطیہ نے کہا : عربی میں اس کا جواز سیبیویہ نے ذکر کیا ہے اور اس کو پڑھنے کا جواز مجھے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا کیونکہ یہ استغناء کی جگہ اور قبولیت کا مقام اور رحمت کے نزول کی جگہ ہے۔ ایک فرقہ نے کہا : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی معافی طلب کرو جو تم نے وقوف کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت کی مخالفت کرتے ہوئے کیا۔ تم مزدلفہ میں جبل قزح پر ٹھہرے اور عرفات میں نہ ٹھہرے۔ مسئلہ نمبر 2: ابو داؤد نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : جب نبی کریم ﷺ نے صبح کی تو آپ قزح پر ٹھہرے اور فرمایا : یہ قزح موقف ہے اور مزدلفہ سارا موقف ہے۔ میں نے یہاں نحر کیا اور منیٰ سارا نحر کرنے کی جگہ ہے تم اپنے خیموں میں نحر کرو اور حاجیوں کا حکم جب وہ عرفہ سے مزدلفہ کی طرف جائیں تو یہاں رات گزاریں پھر اندھیرے میں امام لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائے اور مشعر حرام میں وہ وقوف کریں۔ قزح ایک پہاڑ ہے جس پر امام ٹھہرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ ذکر کرتے رہیں اور سورج کے طلوع ہونے کے قریب تک دعا مانگتے رہیں۔ پھر طلوع شمس سے پہلے چلے جائیں۔ عربوں کی مخالفت کرتے ہوئے، کیونکہ وہ سورج طلوع ہونے کے بعد جاتے اور کہتے تھے : اشرق ثبیر کی ما نغیر ثبیر پہاڑ روشن ہوا تاکہ ہم احرام کھولنے کے قریب ہوں اور ہم غارت گری کے پہنچیں۔ بخاری نے عمروبن میمون سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں حضرت عمر کے ساتھ موجود تھا۔ انہوں نے صبح کی نماز مزدلفہ میں پڑھی پھر ٹھہرے اور کہا : مشرکین نہیں نکلتے تھے حتیٰ کہ سورج طلوع ہوجاتا تھا اور کہتے تھے : اشرق ثبیر۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی مخالفت کی اور آپ سورج طلوع ہونے سے پہلے چلے۔ ابن عیینہ نے ابن جریج سے انہوں نے محمد بن قیس بن مخرمہ سے انہوں نے ابن طاؤس سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ اہل جاہلیت، عرفہ سے سورج غروب ہونے سے پہلے چلتے تھے اور مزدلفہ سے سورج طلوع ہونے کے بعد چلتے تھے رسول اللہ ﷺ نے عرفات سے چلنے میں تاخیر فرمائی اور مزدلفہ سے چلنے میں جلدی فرمائی، یعنی مشرکین کے طریقہ کی مخالفت کی۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ جب سورج طلوع ہونے سے پہلے چلیں تو ان کو حکم ہے کہ وہ عرفہ سے چلنے کی ہئیت ہر چلیں۔ یعنی امام لوگوں کو تھوڑا تیز چلائے جب ان میں سے کوئی جگہ پائے تو مزید تیز چلے۔ حدیث میں تیز چلنے کے لئے العنق کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ جانوروں کی معروف چال ہے اور النص مزید تیز چلنا ہے جیسے الخبب (جس میں ہچکولے آتے ہیں) یا اس سے زیادہ تیز چلنا۔ صحیح مسلم میں حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے، ان سے پوچھا گیا جب رسول اللہ ﷺ عرفہ سے چلتے تھے تو کیسے چلتے تھے ؟ فرمایا : تیز چلتے تھے جب کھلی جگہ پاتے ط تو مزید تیز چلتے تھے۔ ہشام نے کہا : النص فوق العنق کہ نص عنق سے تیز رفتاری کا نام ہے۔ یہ پہلے گزرچکا ہے اور مستحب ہے کہ بطن محسر میں پتھر پھینکنے کی مقدار اپنی سواری کو حرکت دے اگر ایسا نہ بھی کرے تو کوئی حرج نہیں۔ یہ منی سے ہے۔ ثوری وغیرہ نے ابوالزبیر سے انہوں نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ چلے تو آپ پر سکینت تھی اور آپ ﷺ نے فرمایا :” وادی محسر میں تیز چلو “ اور فرمایا : مجھ سے مناسک حج سیکھو، جب وہ منیٰ میں آئیں یہہ دسویں کے دن کی صبح کا وقت ہے تو جمرہ عقبہ پر چاشت کے وقت سوار ہو کر ری جمار کریں اگر قادر ہوں اور اس کے علاوہ جمروں میں سوار ہونا مستحب نہیں اور سات کنکریاں ماریں، ہر کنکریاں مارلیں گے تو جو کچھ لباس وغیرہ میں سے اور مثل میں سے حلالی ہوجائیں گے مگر عورتیں، خوشبو اور شکار امام مالک اور اسحاق کے نزدیک حلال نہ ہوں گے۔ یہ ابوداؤد خفاف کی ان سے روایت ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابن عمر نے کہا : اس کے لئے ہر چیز حلال ہے سوائے عورتوں اور خوشبو کے۔ امام مالک کے نزدیک حس جمار کے بعد اور افاضہ سے پہلے خوشبو لگائی اس پر فدیہ نہیں ہے کیونکہ اس کے متعلق ارشاد وارد ہے اور جو امام مالک کے نزدیک جمرہ عقبہ کے بعد اور طواف افاضہ سے پہلے شکار کرے اس پر جزا ہے۔ امام شافعی، امام احمد، اسحاق، ابو ثور نے کہا : اس کے لئے ہر حلال ہے سوائے عورتوں کے اور یہی حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ مسئلہ نمبر 4: حاجی جمرہ عقبہ پر پہلی کنکری کے ساتھ ہی تلبیہ ختم کردے مدینہ اور دوسرے شہروں کے اکثر علماء کا یہی قول ہے اور امام مالک کے نزدیک یہ جائز اور مباح ہے اور ان کا مشہور قول یہ ہے کہ عرفہ کے دن سورج کے زوال کے وقت سے تلنیہ ختم کردے جیسا کہ انہوں نے مؤطا میں حضرت علی ؓ سے روایت کرکے ذکر کیا ہے اور فرمایا : یہ امر ہمارے نزدیک ہے۔ میں کہتا ہوں : اس عمل میں سنت وہ ہے جو مسلم نے حضرت فضل بن عباس سے روایت کی ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : عرفہ کی شام کو اور مزدلفہ کی صبح کو جب لوگ چلے، تم پر سکینت لازم ہے۔ آپ اپنی سواری کو تیز چلا رہے تھے حتیٰ کہ آپ وادی محسر میں داخل ہوئے۔ وہ منیٰ کے علاقہ میں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم وہ کنکریاں لے چلو جو جمرہ پر ماری جائیں گی۔ حضرت فضل بن عباس نے کہا : رسول اللہ ﷺ تلبیہ کہتے رہے حتیٰ کہ جمرہ عقبہ پر ری کی۔ ایک روایت میں ہے نبی کریم ﷺ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے جیسے انسان کسی چیز کو پھینکتا ہے۔ بخاری میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ وہ جمرہ کبریٰ تک پہنچے تو بیت اللہ ان کی بائیں جانب تھا اور منیٰ دائیں جانب تھا، انہوں نے سات کنکریاں ماریں اور فرمایا : اسی طرح کنکریاں ماری تھیں اس ذات نے جس پر سورة بقرہ نازل ہوئی تھی۔ ﷺ ۔ دار قطنی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب تم ری جمار کرلو اور حلق کرالو اور جانور ذبح کرلو تو تمہارے لئے ہر چیز حلال ہوگئی سوائے بیویوں کے اور تمہارے لئے کپڑے اور خوشبو حلال ہوگئی۔ “ اور بخاری میں حضرت عائشہ سے مروی ہے، فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کو ان ہاتھوں سے خوشبولگائی جب انہوں نے احرام باندھا اور اس وقت بھی جب طواف افاضہ سے پہلے احرام کھولا اور حضرت عائشہ نے اپنے ہاتھوں کو پھیلایا۔ یہ علماء کے نزدیک چھوٹا حلال ہونا ہے اور بڑاحلال ہونا ہے طواف افاضہ کے بعد اس سے عورتیں اور تمام وہ چیزیں جو احرام کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں حلال ہوجاتی ہیں۔ اس کا مزید ذکر انشاء اللہ سورة حج میں آئے گا۔
Top