Al-Qurtubi - An-Nisaa : 160
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَثِیْرًاۙ
فَبِظُلْمٍ : سو ظلم کے سبب مِّنَ : سے الَّذِيْنَ هَادُوْا : جو یہودی ہوئے (یہودی) حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر طَيِّبٰتٍ : پاک چیزیں اُحِلَّتْ : حلال تھیں لَهُمْ : ان کے لیے وَبِصَدِّهِمْ : اور ان کے روکنے کی وجہ سے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَثِيْرًا : بہت
تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو حلال تھیں ان کو حرام کردیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر خدا کے راستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے۔
آیت نمبر : 160 تا 161۔ اس آیت میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فبظلم من الذین ھادوا “۔ زجاج نے کہا : یہ (آیت) ” فبما نقضھم “۔ سے بدل ہے، اور (آیت) ” طیبت “۔ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ (آیت) ” وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر “۔ (الانعام : 146) اور ظلم کو تحریم پر مقدم فرمایا، کیونکہ ظلم کے متعلق خبر دینے کا مقصود یہی بیان کرنا ہے کہ یہ تحریم کا سبب ہے۔ (آیت) ” وبصدھم عن سبیل اللہ “۔ یعنی وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو حضرت محمد ﷺ کی اتباع سے روکتے ہیں، (آیت) ” واخذھم الربوا وقد نھوا عنہ واکلھم اموال الناس بالباطل “۔ یہ سب اس ظلم کی تفسیر ہے جو وہ کیا کرتے تھے اور اسی طرح جو پہلے گزر چکا ہے کہ وہ عہد کو توڑتے تھے اور جو بعد میں آئیگا آل عمران میں گزر چکا ہے کہ تحریم کے سبب میں علماء کے مختلف تین اقوال ہیں۔ مسئلہ نمبر : (2) ابن عربی نے کہا : امام مالک (رح) کے مذہب میں کوئی اختلاف نہیں کہ کفار مخاطب ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا کہ انہیں سود کھانے سے اور لوگوں کے ناحق مال کھانے سے منع کیا گیا ہے، اگر یہ اس کے متعلق خبر ہے جو قرآن میں حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے اور وہ خطاب میں داخل ہیں تو بھی بہتر ہیں اور اگر یہ خبر ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات میں نازل فرمایا اور انہوں نے احکامات کو بدلا، اور تحریف کی اور اللہ تعالیٰ کی مخالفت اور نافرمانی کی تو کیا ہمارے لیے انکے معاملات جائز ہیں، جب کہ وہ قوم اپنے دین میں اپنے اموال کو خراب کرچکی ہے یا نہیں ؟ ایک طائفہ نے کہا : ان کا معاملہ جائز نہیں، کیونکہ ان کے اموال میں یہ فساد ہے، صحیح یہ ہے کہ انکے سود اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کے ارتکاب کے باوجود ان کے ساتھ معاملہ کرنا جائز ہے، اس پر قرآن وسنت سے قطعی دلیل قائم ہوچکی ہے۔ (آیت) ” وطعام الذین اوتوالکتب حل لکم “۔ (المائدہ : 5) یہ نص ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے یہود سے معاملات کیے اور آپ ﷺ کا وصال ہوا تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی جو اپنے عیال کے لیے جو لینے کے لیے رہن رکھی تھی۔ شک اور خلاف کی بیماری کو جڑ سے ختم کرنے والی چیز امت کا اہل حرب کے ساتھ تجارت کرنے کے جواز پر اتفاق ہے نبی مکرم ﷺ نے تجارت کی خاطر ان کی طرف سفر کیا تھا، اس سفر سے قطعی طور پر ثابت ہوا کہ ان کی طرف سفر کرنا اور انکے ساتھ تجارت کرنا جائز ہے، اگر کہا جائے کہ یہ نبوت سے پہلے کا سفر تھا تو ہم کہیں گے : نبی مکرم ﷺ نے اعلان نبوت سے پہلے بھی کسی حرام کا ارتکاب نہیں کیا اور یہ تواتر سے ثابت ہے اور نہ بعثت کے بعد آپ نے کوئی عذر پیش کیا اور نہ اعلان نبوت کے بعد آپ سے منع ثابت ہے اور نہ آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں اور نہ آپ کے وصال کے بعد کسی نے اہل کتاب کی طرف سفر کو ترک کیا بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین قیدیوں کو چھڑانے کے لیے سفر کرتے تھے اور یہ واجب ہے اور صلح میں حضرت عثمان ؓ کو بھیجا گیا تھا، اور کبھی یہ سفر واجب ہوتا ہے، اور کبھی مستحب، رہا صرف تجارت کی خاطر اہل کتاب کی طرف سفر کرنا تو وہ مباح ہے۔ (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 515)
Top