Al-Qurtubi - An-Nisaa : 159
وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ١ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ : سے اَهْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اِلَّا : مگر لَيُؤْمِنَنَّ : ضرور ایمان لائے گا بِهٖ : اس پر قَبْلَ : پہلے مَوْتِهٖ : اپنی موت وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ : اور قیامت کے دن يَكُوْنُ : ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر شَهِيْدًا : گواہ
اور کوئی اہل کتاب نہیں ہوگا مگر انکی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں کے۔
آیت نمبر : 159۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان من اھل الکتب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ “۔ حضرت ابن عباس ؓ حسن، مجاہد اور عکرمہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کہا : اس کا معنی ہے ہر کتابی اپنی موت سے پہلے مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے گا (2) (تفسیر الحسن البصری، جلد 2 صفحہ 378) پہلی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور دوسری ضمیر کا مرجع کتابی ہے، ہر یہودی اور نصرانی جب موت کے فرشتے کو دیکھتا ہے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا ہے، لیکن ایسا ایمان نفع بخش نہیں ہوتا، کیونکہ یہ مایوسی کے وقت کا ایمان ہے اور موت کی حالت سے متصل ایمان ہے۔ ہر یہودی اس وقت اقرار کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں اور ہر نصرانی اقرار کرتا ہے کہ آپ اللہ کے رسول تھے۔ روایت ہے کہ حجاج نے شہر بن حوشب سے اس آیت کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا : میں ایک یہود و نصاری سے قیدی لاتا ہوں اور اس کی گردن مارنے کا حکم دیتا ہوں پھر میں اس وقت اسے دیکھتا ہوں تو میں اس سے ایمان نہیں دیکھتا، شہر بن حوشب نے اسے کہا : جب وہ آخرت کے امر کو دیکھتا ہے تو وہ اقرار کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں وہ اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا ہے لیکن ایمان اسے فائدہ نہیں دیتا، حجاج نے شہر بن حوشب سے پوچھا : تو نے یہ قول کہاں سے لیا ہے شہر نے کہا : میں نے یہ محمد بن حنیفہ سے لیا ہے تو حجاج نے کہا : تو نے یہ چشمہ صافی سے لیا ہے، مجاہد ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : اہل کتاب میں سے ہر شخص اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا ہے، ان سے پوچھا گیا : اگر وہ غرق ہوجائے یا جل جائے یا اسے درندے کھا جائیں وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، بعض علماء نے فرمایا : دونوں ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہیں، معنی یہ ہیں کہ قرب قیامت کے وقت جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوگا تو جو عیسائی زندہ ہوگا وہ آپ پر ایمان لے آئے گا۔ یہ قتادہ ؓ ابن زید ؓ وغیرہما کا قول ہے، اور طبری نے اس کو اختیار کیا ہے۔ یزید بن زریع نے ایک شخص سے، انہوں نے حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” وان من اھل الکتب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ “۔ سے مراد قبل موت عیسیٰ ہے، اللہ کی قسم ! اب وہ اللہ کی بارگاہ میں زندہ ہیں لیکن وہ زمین پر اتریں گے تو سب ان پر ایمان لے آئیں گے۔ (1) (تفسیر الحسن البصری، جلد 2 صفحہ 378) ضحاک ؓ اور سعید بن جبیر ؓ سے اسی طرح مروی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” لیؤمنن بہ “۔ ہ ضمیر کا مرجع حضرت محمد ﷺ ہیں اگرچہ اس کا پہلے ذکر نہیں ہے، کیونکہ یہ تمام واقعات آپ نازل ہوئے اور مقصود آپ ﷺ پر ایمان لانا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانا حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانے کو متضمن ہے، کیونکہ ان کے درمیان تفریق جائز نہیں، بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” لیؤمنن بہ “۔ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یعنی ہر کتابی موت سے پہلے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے گا لیکن حقیقت دیکھنے کے وقت ایمان اسے نفع نہیں دے گا، پہلی دو تاویلیں زیادہ ظاہر ہیں، زہری نے سعید بن مسیب ؓ سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” ابن مریم ایک عادل حاکم کی حیثیت سے اتریں گے، دجال کو قتل کریں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑ دیں گے اور سجدہ صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہوگا (2) (صحیح بخاری، کتاب فضائل انبیاء، حدیث نمبر 3192، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا : اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو : (آیت) ” وان من اھل الکتب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ “۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا : اس سے مراد قبل موت عیسیٰ ہے، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، سیبویہ کے نزدیک آیت کی تقدیر اس طرح ہے : وان من اھل الکتاب احد لا لیومنن بہ “۔ اور کو فیوں کی تقدیر اس طرح ہے : وان من اھل الکتاب الا من لیومنن بہ، اس میں قبح ہے، کیونکہ اس میں موصول کا حذف ہے اور صلہ موصول کا بعض ہوتا ہے گویا بعض اسم حذف کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ویوم القیمۃ یکون علیھم شھیدا “۔ یعنی جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کرے گا اس کی تکذیب کی گواہی دیں گے اور جو تصدیق کرے گا اس کی تصدیق کی گواہی دیں گے۔
Top